کراچی کی قصائی نما گائنالوجسٹ اور نجی ہسپتال۔۔شیر علی انجم

گزشتہ ہفتے کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک فیس بُک فرینڈ صحافی جو سویڈن میں مقیم ہیں، کی  ایک دلچسپ   پوسٹ نظر سے گزری۔ وہ لکھتے ہیں کہ سویڈن میں حمل کے پہلے مہینے سے ہر خاتون کو سپیشل نرس مل جاتی ہے جو اسے ہر مہینے بلاتی ہے اور اسکے سارے ٹیسٹ کرنے کے بعد  کمپیوٹر میں اپلوڈ کرتی جاتی ہے۔ چار مہینے بعد پہلا الٹراساؤنڈ ہوتا ہے اور بچے کی جنس بتا دی جاتی ہے۔چائلڈ ڈیلیوری کے وقت خاوند عورت کے پاس ہوتا ہے اور کمرے میں ایک یا دو نرسیں ہوتی ہیں۔ کسی قسم کی دوائی نہیں دی جاتی، عورت درد سے چیختی ہے مگر نرس اسے صبر کرنے کا کہتی ہے اور %99 ڈیلیوری نارمل کی جاتی ہے۔ نہ ڈیلیوری سے پہلے دوا دی جاتی ہے نہ بعد میں۔ کسی قسم کا ٹیکہ نہیں لگایا جاتا۔ عورت کو حوصلہ ہوتا ہے کہ اسکا خاوند پاس کھڑا اسکا ہاتھ پکڑے ہوئے ہے۔ ڈیلیوری کے بعد بچے کی ناف قینچی سے خاوند سے کٹوائی جاتی ہے اور بچے کو عورت کے جسم سے ڈائریکٹ بغیر کپڑے کے لگایا جاتا ہے تاکہ بچہ ٹمپریچر مینٹین کر لے۔ بچے کو صرف ماں کا دودھ پلانے کو کہا جاتا ہے اور زچہ یا بچہ دونوں کو کسی قسم کی دوائی نہیں دی جاتی سوائے ایک حفاظتی ٹیکے کے جو پیدائش کے فوراً بعد بچے کو لگتا ہے۔ پہلے دن سے ڈیلیوری تک سب مفت ہوتا ہے اور ڈیلیوری کے فوراً بعد بچے کی پرورش کے پیسے ملنے شروع ہوجاتے ہیں اور سولہ مہینے تنخواہ کے ساتھ ماں باپ دونوں کو چھٹیاں ملتی ہیں تاکہ بچے کی پرورش اچھے طریقے سے کی جاسکے۔ یہ واقعہ ایک ایسے ملک کا ہے جہاں اسلامی نظام نہیں بلکہ ایک کافر ملک ہے مگر انسانیت کیلئے ایسا جذبہ اور درد شاید  کسی اچھے اسلامی ملک میں دیکھنے کو ملے۔ سویڈین کا احوال لکھنے کے بعد وہ پاکستان میں خواتین کو درپیش مسائل کا ذکر کچھ اس طرح کرتے ہیں۔

 پاکستان میں لیڈی ڈاکٹر ڈیلیوری کیلئے آئی خاتون کے گھر والوں سے پہلے ہی پوچھ لیتی ہے کہ آپکی بیٹی کی پہلی پریگنینسی ہے، اس کا کیس کافی خراب لگ رہا ہے جان جانے کا خطرہ ہے، آپریشن سے ڈیلیوری کرنا پڑے گی۔ %99 ڈاکٹر کوشش کرتی ہیں  کہ نارمل ڈیلیوری کو آپریشن والی ڈیلیوری میں تبدیل کردیا جائے۔ ڈیلیوری سے پہلے اور بعد میں کلوگرام کے حساب سے دوائیاں دی جاتی ہیں ڈیلیوری کے وقت خاوند تو دور کی بات خاتون کی ماں یا بہن کو بھی اندر جانے کی اجازت نہیں ہوتی اور اندر ڈاکٹر اور نرس کیا کرتی ہیں یہ خدا جانتا ہے یا وہ خاتون۔ نارمل ڈیلیوری بیس تیس ہزار میں اور آپریشن والی ڈیلیوری اسی نوے ہزار میں ہو تو ڈاکٹر کا دماغ خراب ہے نارمل کی طرف آئے آخر کو اسکے بھی تو خرچے ہیں بچوں نے اچھے سکول میں جانا ہے نئی گاڑی لینی ہے بڑا گھر بنانا ہے۔ اسلام کیا کہتا ہے انسانیت کیا ہوتی ہے سچ کیا ہوتا ہے بھاڑ میں جائے، صرف پیسہ چاہیے ۔ محترم قارئین اُس کالم نما پوسٹ کو پڑھنے کے بعد اُس وقت میرے دل میں ایک تجسس سا پیدا ہوگیا کیونکہ اللہ کی رحمت سے میرے گھر بھی دوسری اولاد کی خوشی سے آنے والا تھا۔ لیکن یہ سوچ کر خود کو تسلی دیا کہ ہم نے اپنے ہم مسلک ہسپتال میں بیگم کا نام اندارج کیا ہوا ہے جس کے حوالے سے لوگوں کی مسلسل بدگمانیوں کے باوجود ہمیں یقین تھا کہ یہ پروپیگنڈہ ہے ۔فقط ہسپتال کی بدنامی کیلئے لوگ اس ہسپتال کے بارے میں منفی سوچ رکھتے ہیں۔ میرا خیال تھا کہ دارالشفاء امام خمینی اپنے علاقے کا بہترین ہسپتال ہے جہاں ہم جیسے غریب لوگوں کو اچھے سہولیات کے ساتھ بہتر میڈیکل کی سہولیات فراہم کی جاتی ہے۔ اس مثبت سوچ کے تحت ہم نے دارلشفاء امام خمینی جو ملیر جعفر طیار میں واقع ہے اور خمینی ہسپتال کے نام سے اس علاقےمیں مشہور ہے  ،کا انتخاب کیا ۔ لیکن بدقسمتی سےکہانی وہی نکل آئی  جو اوپر میں نے ایک صحافی کا کوڈ کیا ہے۔ یہی کچھ ہمارے ساتھ بھی ہوا ۔ایسا لگ رہا تھا کہ یہاں ڈاکٹر نہیں بلکہ سرکاری اسکول کی  ٹیچر کام کرتی ہے جو بچوں  پر  معمولی سی غلطی پر لاتوں اور گھونسوں کی بارش کرتےی ہیں۔

ہمیں بھی گمان تھا کہ اللہ صحت کے ساتھ نارمل ڈیلیوری کے ذریعے بچے کی پیدائش کرے  گا لیکن موصوفہ ڈاکٹراس ہسپتال کی معروف ڈاکٹر سمجھی جاتی ہے نہ تسلی نہ مشورہ بلکہ   حکم صادر فرما دیا   کہ آپکو سیزرین  ہی کرنا پڑے گا اور وقت سے پہلے ہی وقت دے دیا۔ اس تمام معاملے کے بعد بیگم نے سہمے ہوئے  مجھ سے رابطہ کیا کیونکہ میں روزگار کے سلسلے میں بیرون ملک مقیم ہوں، تو میں نے تسلی دیا کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا یہ ڈاکٹر چند پیسوں کیلئے انسان کی جان سے کھیلنے کی پراہ نہ کرنے والے ہیں لہذا توکل کرکے ایک ہفتہ مزید انتظار کریں۔ لیکن جس  ڈاکٹر   کے پاس پورا سال چیک اپ کروا رہی تھی اُن کا آخری وقت میں تسلی کے بجائے جلاد بننے کے  رویے  نے یقیناً  ایک حاملہ عورت کی صحت اور   ذہین پر بہت منفی    اثرات  مرتب کیے ہوں گے۔  لیکن وہ ایک ہفتہ جب ڈاکٹر نے بغیر کسی تسلی کے براہ راست سیزرین  کا مشورہ دیا  تو مجھے بہت غصہ آیا  اور  دل چاہ رہا تھا کہ اگر پاکستان میں ہوتا  تو میڈیا کا لاو لشکر لیکر اُس ہسپتال پر چڑھائی کر دیتا۔ لیکن دیار غیر میں ہونے کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں تھا ۔بس دل ہی دل میں اللہ سے دعا کرتا رہا کہ یا اللہ ان قصائی گائنالوجسٹ کے دل میں رحم ڈال دے۔ کیونکہ آخر ہفتے میں ہسپتال تبدیل کرنا بھی ایک سنگین مسلہ تھا کسی دوسرے ہسپتال میں جانے کا مطلب ایک اور قصائی کیلئے قربانی تیار کرکے دینے والی بات تھی۔ مگر ہم نے باہمی مشاورت سے کچھ دن اور صبر کرنے کا فیصلہ کیا۔

المیہ دیکھیں کہ اُنکے دیے  ہوئے وقت پر قربانی کیلئے نہ پہنچنے کی وجہ سے ہسپتال والے فون کرتے رہے کہ آپ کیلئے ہم نے خصوصی طور پر تیاریاں کی ہے وغیر ہ وغیرہ، مگر میری بیگم خود کو تسلی دیتی رہی ۔ قصہ مختصر ایک ہفتے بعد بیگم  نے دوبارہ چیک اپ کیلئے رجوع کیا تو ایسا لگ رہا تھا جیسے مریض کسی ہسپتال میں نہیں بلکہ کسی سخت گیر تھانیدار کے سامنے کھڑی ہے اور تھانیدار حکم نہ ماننے پر غصے سے آگ بگولہ ہورہی ہے۔ بیگم کے مطابق اُس ڈاکٹر نے مریض کو ڈیلیوری کے آخری دن میں تسلی کے بجائے ڈانٹ پلاتی رہی اور دھمکی دیتی رہی کہ  میں آپ کا کیس ریجیکٹ  کرکے جناح ہسپتال ریفر کروں گی وغیرہ وغیرہ۔ اب جب جناح ہسپتال کا نام سنا   تو بیچاری کا  بلڈپریشر مزید ہائی ہوگیا کیونکہ ایک تو سرکاری ہسپتال کی حالت زار دوسرا وہاں بھی ڈیلیوری کیس کیلئے تین ماہ پہلے اندراج کرنا ضروری ہے۔ یوں مجھ سے رابطہ کیا تو مجھے بھی دکھ کے ساتھ غصہ آیا اور یہی سوچا کہ کراچی میں کسی دوست کو کال کرکے میڈیا کو خبر دے ہی دوں ، پھر یہی سوچا یہ وقت زندگیوں کو بچانے کا ہے کیونکہ ڈاکٹر نی نے بڑی ڈانٹ ڈپٹ کے بعد اُسی وقت آپریشن کا کہہ دیا تھا۔ لہذا ہم نے باہمی مشاورت سے یہی فیصلہ کیا کہ خدانہ کرے کہ زچہ بچہ کیلئے کوئی پریشانی نہ ہو لہذا چند ہزار کے بھوکے ان قصائیوں کی بات مان لیتے ہیں اور سیزر کروا دیا۔ اس تمام معاملے میں ہسپتال انتظامیہ کس قدر اگاہ تھے یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن بعد میں معلوم کرنے سے پتہ چلا کہ یہاں اس قسم کا کیس تو معمول کی بات ہے لوگوں کو آخری وقت میں ڈرادھمکا کر ڈیلیوری کیلئے آپریشن کرایا جاتا ہے۔

محترم قارئین نہ جانے پاکستان کے تمام شہروں میں ایسے کتنے ہزار قصائی خدمت کے نام پر چند ہزار کمانے کیلئے انسانوں کے ساتھ رہے ہوں گے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ یہاں میں اپنے قارئین سے بھی یہی گزارش کروں گا کہ اس کالم کو جتنا بھی ممکن ہوسکے سوشل میڈیا پر پھیلائیں کیونکہ اس وقت سوشل میڈیا ہی اس قسم کے مافیا کے خلاف احتجاج کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ ملکی میڈیا کو عوامی مسائل کے بجائے ریٹنگ ٹاپک چاہیے  ہوتا ہے تاکہ اُنہیں اشتہارات زیادہ سے  زیادہ ملے۔ میں اس کالم کے ذریعے وزیر اعلی سندھ، محکمہ صحت سندھ سے بھی گزارش کروں گا کہ مذہب اور مسلک کے نام پر کھلے ان قصائیوں کے خلاف قانونی کارروائی کریں اور غریب عوام کو ان قصاب نما ہسپتالوں اور قصائی نما ڈاکٹروں کی دہشت اور وحشت سے آزادی دلائیں جو چند ہزار کمانے کیلئے کسی کی زندگی سے کھیلنے میں ذرا بھر بھی تکلیف اور شرم محسوس نہیں کرتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

  راقم کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے اور ہمیشہ سے گلگت بلتستان کے سیاسی سماجی ایشوز پر قلم اُٹھاتے ہیں ۔ آج جب یہ واقعہ اپنے ساتھ پیش آیا تو اس حوالے سے کچھ لکھنے کی کوشش کی ہے تاکہ کم از کم کسی نہ کسی کو اس قسم کے مافیا کے بارے میں علم   اور میڈیا کے ذریعے کرپشن اور لوٹ کھسوٹ میں بدمست حکمرانوں کو عوامی مسائل پر توجہ دینے کیلئے شاید ہی اُن کے اندر کی غیرت جاگ جائے۔

Facebook Comments

شیر علی انجم
شیرعلی انجم کا تعلق گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن سے ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply