لوئیس پاسچر (1895ء- 1822ء)-مبشر حسن

فرانسیسی کیمیادان اور ماہر حیاتیات لوئیس پاسچر طب کی تاریخ میں ایک انتہائی ممتاز شخصیت تسلیم کیا جاتا ہے۔ پاسچر نے سائنس میں متعدد اضافے کیے لیکن اس کی اصل وجہ شہرت اس کا جراثیموں کے نظریہ کی تشکیل اور مدافعاتی حربہ کے طور پر ٹیکہ لگانے کے طریقہ کار میں اضافے کے باعث ہے۔ 1822ء میں پاسچر مشرقی فرانس کے قصبہ ڈولی میں پیدا ہوا۔ پیرس میں کالج کے طالب علم کے طور پر اس نے سائنس کا مطالعہ کیا۔ دور طالب علمی میں اس کا خداداد جوہر صحیح طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ در حقیقت تب اس کے ایک استاد نے “کیمیا” کے مضمون میں اس کے بارے میں رائے لکھی۔ “درمیانے درجے کا” تاہم 1847ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد پاسچر نے اپنے استاد کی رائے کو غلط ثابت کر دیا۔
اس نے اپنی توجہ تخمیر کے عمل کی طرف مبذول کی ، پھر یہ ثابت کیا کہ یہ عمل خاص وضع کے ننھے ننھے اجسام کے سبب پیدا ہوتا ہے۔ اس نے اس کا تجرباتی مظاہرہ بھی کیا کہ ایسے ہی ننھے اجسام کی دیگر انواع ان تخمیر شدہ مشروبات میں خلاف منشا اجزاء بھی پیدا کر سکتی ہے۔ اس سے وہ اس خیال تک پہنچا کہ ان اقسام اصغر کی چند خاص انواع انسانوں اور جانوروں میں بھی ایسے ہی نا پسندیدہ اجزاء اور اثرات پیدا کر سکتی ہیں۔ تاہم پاسچر پہلا سائنس دان نہیں تھا جس نے جراثیموں کا نظریہ پیش کیا۔ اس سے بیشتر گیرو لموفراکا سٹرو فریڈرک ہینلی اور دیگر افراد ایسے مفروضات پیش کر چکے تھے۔ لیکن جراثیم کے نظریہ میں پاسچر کی اصل کامیابی کی وجہ اس کے ان تھک تجربات اور مظاہرے ہیں۔ جس نے سائنس دانوں کو یہ مانے پر مائل کیا کہ یہ نظریہ یکسر درست ہے۔
اگر بیماریوں کا سبب جراثیم ہیں تو پھر یہ امر منطقی معلوم ہوتا ہے کہ مضرت رساں جراثیموں کے انسانی جسم میں داخلے پر بندش استوار کرنے سے بیماریوں سے بیچا جا سکتا ہے۔ لہذا پاسچر نے طبیبوں کو جراثیم کش حربوں کی افادیت پر قائل کیا، اس کے خیالات سے متاثر ہو کر جوزف لسٹر نے سرجری کے عمل میں جراثیم کش طریقہ ہائے کار متعارف کروائے۔
ضرر رساں بیکٹیریا خوراک اور مشروبات کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہو سکتا ہے۔ پاسچر نے ایک طریقہ کار وضع کیا جسے پاسچرائیزیشن، کہا جاتا ہے۔ اس کے ذریعے مشروبات میں ان جراثیموں کو تباہ کیا جا سکتا تھا۔ اس طریقہ کار کا اطلاق کیا گیا تو اس نے خراب دودھ کو قطعاً رد کر دیا کیونکہ وہ مضر صحت ثابت ہوا تھا۔ عمر کی پانچویں دہائی میں اس نے دنبل” جیسی بیماری پر تحقیق شروع کی۔ یہ ایک سنگین متعدی بیماری ہے، جو مویشیوں اور دیگر جانوروں پر حملہ آور ہوتی ہے، اس کا شکار انسان بھی ہوتا ہے۔ پاسچر یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو گیا کہ بیکیٹریا کی ایک خاص نوع اس بیماری کی اصل ذمہ دار تھی۔ تاہم اس کی کہیں زیادہ اہم ایجاد یہ طریقہ کار تھا، جس کے ذریعے اس نے دنبل، کے جراثیموں کا ایک کمزور گروہ پیدا کیا۔ پھر اسے مویشیوں میں ٹیکے کے ذریعے داخل کیا۔ ان کمزور جراثیموں نے بیماری کی نحیف سی علامات پیدا کیں ، جو مہلک نہیں تھیں، لیکن جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مویشی کے دفاعی نظام نے بیماری کی معمولی صورت کے خلاف ایک طاقتور محاز پیدا کر لیا۔ مویشیوں کے دنبل’ کے جراثیموں کے خلاف اس طریقہ کار سے حفاظتی نظام پیدا کر لینے کے عوامی مظاہرے نے پاسچر کو مقبولیت عام و خاص عطا کی۔ جلد ہی اس حقیقت کا احساس کیا گیا کہ اس عمومی طریقہ کار کو کئی متعدی بیماریوں کے خلاف بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
پاسچر کی سب سے معروف ایجاد یہ ہے کہ اس نے “جنون سگ گزیدگی” جیسی موذی بیماری کے خلاف ٹیکے کے ذریعے بیماریوں کا علاج ممکن بنایا۔ پاسچر کے ان بنیادی نظریات کو استعمال کر کے دیگر سائنس دانوں نے متعدد سنگین بیماریوں کے خلاف جراثیم کش ٹیکے ایجاد کیے ، جیسے وبائی ٹائفس اور بچوں کا فالج وغیرہ۔
پاسچر غیر معمولی طور پر محنتی انسان تھا۔ اس نے ان کے علاوہ بھی متعدد کم اہم مگر مفید نظریات پیش کیے۔ یہ اس کے تجربات کے سبب ہوا کہ لوگوں نے جانا جراثیم بے ساختہ طور پر تولد نہیں ہوتے۔ اس پر یہ حقیقت بھی منکشف ہوئی کہ یہ جراثیم ہوا یا آزاد آکسیجن کی عدم موجودگی میں بھی زندہ رہ سکتے ہیں۔ ریشم کے کیڑوں کی بیماریوں پر پاسچر کی تحقیقات کی بڑی تجارتی وقعت بنتی ہے۔ اس کے دیگر کارناموں میں چیچک کے دانوں کے خاتمہ کے لیے ویکسین کی ایجاد بھی ہے۔ یہ بیماری جنگلی پرندوں پر حملہ کرتی ہے۔
1895ء میں پیرس کے نزدیک پاسچر کا انتقال ہوا۔ عموماً پاسچر اور ایڈورڈ جینر کے بیچ موازنہ کیا جاتا ہے۔ جو ایک انگریز طبیب تھا اور اس نے چیچک کے دانوں سے حفاظت کے لیے ویکسین تیار کی تھی۔ حالانکہ جینر نے پاسچر سے قریب 80 سال قبل اپنا کام مکمل کر لیا تھا، لیکن میرے خیال میں اس کی اہمیت پھر بھی پاسچر سے زیادہ نہیں بنتی۔ کیونکہ اس کا طریقہ کار فقط ایک ہی بیماری پر منطبق کیا جا سکتا تھا، جبکہ پاسچر کے طریقہ کار کو بڑی کامیابی کے ساتھ متعدد بیماریوں کے خلاف آج بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔
انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں دنیا بھر میں انسانی زندگی کی شرح دگنی ہو گئی۔ انسانی زندگی کے دورانیہ میں اس نمایاں اضافہ نے انسان کی جملہ تاریخ میں ہونے والی کسی بھی دوسری ایجاد کی نسبت زیادہ ہمہ گیر اثرات مرتب کیے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جدید سائنس اور علم طب نے ہمیں زندہ رہنے کا دوگنا موقع عطا کیا ہے۔ پاسچر کی ایجادات اس قدر بنیادی نوعیت کی ہیں کہ اس امر میں شک کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ گزشتہ صدی میں واقع ہونے والی شرح اموات میں کمی کے ذمہ داران میں سب سے زیادہ حصہ پاسچر ہی کا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply