ہم نے تصوف کا جائزہ لیا تھا۔ اس تحریر میں تصوف کے بارے مزید جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ صوفی صوف سے نکلا ہے جس کا معنی اون کا کپڑا ہے جبکہ یہ بھی یونانی لفظ سوف سے آیا ، جس کا معنی حکمت و معرفت ہے۔ اس وقت ہم نے سائنس، فلسفہ اور تصوف کا جائزہ لیا ہے۔ کائنات کی حقیقت جاننے کے لئے سائنسی علم محدود قرار پایا ہے۔ سائنس محض (کیسے ) تک کا جواب دے سکتی ہے۔ سائنس کی بھی اپنی کچھ حدود ہیں جس سے وہ تجاوز نہیں کر سکتی۔
دوسری چیز فلسفہ ہے، ہم نے اس کا بھی جائزہ لیا ہے کہ وہ علم اور ذرائع علم کے معیارات پر پورا نہیں اُترتا بلکہ ایک تخیّل ہے۔ تیسری چیز تصوف ہے۔ ہم نے تصوف کا بھی جائزہ لیا اور کوشش کی کہ یہاں سے کچھ مل سکے تاہم تصوف مسلمہ ذرائع علم پر پورا نہیں اُترتا بلکہ یہ ایک انفرادی تجربہ ہے۔ علم کی دنیا میں انفرادی تجربہ و مشاہدہ کی کوئی اہمیت نہیں، بلکہ سائنسی انداز میں اس کو تمام اہل علم، سائنسدان یا لوگوں کی اکثریت اس کا مشاہدہ کرے تب ہی اس کو علم کا درجہ دیا جاسکتا ہے۔
مزید اس پر ایک مثال بھی دی تھی کہ اگر میری رات کو خواب میں کسی ماورائی ہستی سے ملاقات ہوتی ہے تو یہ اب تک کا میرا انفرادی مشاہدہ ہے۔ مجھے اس کو مسلمہ کرنے کے لئے تینوں ذرائع علم سے پرکھنا پڑے گا۔ یا کم از کم اس کے نتائج کو ثابت کرنا پڑے گا۔ جیسے علم نفسیات میں کیا جاتا ہے کہ اصل چیز انسان کی شخصیت ہوتی ہے لیکن انسانی شخصیت کو سائنسی لیبارٹری میں ٹیسٹ نہیں کیا جاتا کیونکہ انسانی شخصیت یا روح ایک غیر مرئی شے ہے تاہم علم کی دنیا میں اس کو اس وجہ سے قبول کیا جاتا ہے کہ انسانی شخصیت یا روح کے خارجی نتائج جس کو (Human behaviour) کہا جاتا ہے۔اس کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان کو علم کی دنیا میں آنکھ بند کر لینی چاہیے یا ہار مان کر کائنات کو محض حادثاتی یا اتفاقیہ قرار دے کر اپنے آپ کو ذہنی و قلبی تسکین دینی چاہیے؟ کیونکہ انسان ایک عقلی وجود ہے۔ وہ حقیقت کو جانے بغیر چین سے نہیں رہ سکتا، اس تحریر میں چوتھے ذریعہ علم پر بات ہوگی۔ وہ مذہب ہے میرے نزدیک مذہب دو اقسام کے ہوتے ہیں ایک صوفی ازم، سوشلزم، نیشنلزم اور اس طرح کے بہت سے ازم ہوں گے دوسری قسم آسمانی مذہب ہے۔
ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ پہلے والے مذہب کا اصل مصدر خود انسان ہے یعنی اگر صوفی ازم کی مثال لیں تو یہ سعود سے نزول ہے۔ اس میں انسان خود مشقت کر کے کچھ حاصل کرتا ہے لیکن اس کے برعکس آسمانی مذہب میں محض نزول ہی ہے اس میں کسی سعودی مشقت کی ضرورت نہیں۔ اس تحریر میں آسمانی مذاہب کا جائزہ لیتے ہیں کہ آیا یہ بھی تینوں علم کے ذرائع پر پورا اُترتے ہیں یا فلسفہ اور تصوف کی طرح ان کو بھی علم کی دنیا سے باہر کر دیا جائے۔
اس وقت دنیا میں دو ہی عقائد ہیں ایک یہ کہ کائنات خود اپنا خالق ہے دوسرا یہ کہ اس کائنات کا خالق ہے۔ لیکن یہ خالق کا تصور کہاں سے آیا؟ انسان نہ چاہتے ہوئے بھی خود کو مخلوق کہنے پر مجبور ہے دوسری طرف اس کائنات کے نظم پر نظر دوڑاتا ہے تو اس سے وہ خدا کا تصور وجود میں لاتا ہے۔ کیا خالق اور مخلوق کے تصور نے مذہب کو پیدا کیا ہے؟ عام طور پر یہ تقریر کی جاتی ہے کہ مذہب خوف کی وجہ سے پیدا ہوا ہے لیکن مذہب کی پیدائش اصل میں خالق اور مخلوق کے تصور سے ہوئی۔
کیونکہ خالق کا تصور مخلوق سے پیدا ہوتا ہے اگر مخلوق نہیں تو خالق کا تصور وجود میں نہیں آ سکتا۔ یعنی یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ تاہم دوسری رائے میں یہ کائنات اپنی خود خالق ہے۔ تیسری رائے موجود نہیں اگر ملحدین کا جائزہ لیں وہ بھی خالق کا تصور رکھتے ہیں لیکن اسی کائنات کو خالق کہتے ہیں۔ اگر میں اس کائنات کو حادثاتی یا اتفاقیہ قرار دوں تو شاید مجھے یہ بات علم کی دنیا میں کہتے ہوئے شرم محسوس ہوگی۔ اگر میں اس کائنات کو حادثاتی قرار دیتا ہوں تو پھر مجھے پوری کائنات کا انکار کرنا پڑے گا۔
سائنس کا انکار، پورے علم کا انکار، تاریخ کا انکار، خود انسانی وجود کا انکار، دنیا میں اس وقت ہونے والے معاہدوں کا انکار، پھر مجھے ہر جگہ اتفاق کا لفظ لانا پڑے گا۔ اگر میں کسی کا قتل کرتا ہوں اور میں عدالت میں پیش کیا جاؤں پھر مجھے وہاں بھی یہ کہنے کی جسارت کرنا پڑے گی کہ ہو سکتا ہے کہ قتل ہوا ہی نہ ہو۔ ہو سکتا ہے کہ جج بھی کہیں آسمان سے آیا ہو اور اس نے فیصلہ صادر کر دیا ہو۔ تو یہ ممکنات وہاں کیوں نہیں؟
تو اس وجہ سے اس کائنات کو حقیقت مان کر آگے بڑھا جائے گا۔ بات خدا کے وجود کی طرف جا رہی ہے لیکن ہمارا اصل موضوع کسی بھی چیز کو قبول کرنے کے لئے تینوں ذرائع علم سے گزرنا ہے۔ کیا آسمانی مذاہب بھی تینوں ذرائع علم پر پورا اترتے ہیں؟ یا فلسفہ، تصوف کی طرح آسمان مذاہب کو بھی علم کی دنیا سے خارج کرنا پڑے گا۔ دنیا میں اس وقت بہت سے مذاہب ہیں لیکن یہاں بڑے اور اہم مذاہب کا جائزہ لیا جائے گا۔ مثلاً ہندومت، بدھ مت، عیسائیت، اور اسلام وغیرہ۔
ہم نے اس بات کا جائزہ لیا تھا کہ اگر کوئی چیز تینوں ذرائع علم پر پورا نہیں اترتی تو کم از کم نتائج کو قابل قبول کیا جائے گا۔ کیونکہ اہل تصوف کا بیانیہ یہی ہے کہ ان کا مشاہدہ محض انفرادی ہے وہ اس کو خارج میں مشاہدہ نہیں کروا سکتے۔ اس کے برعکس آسمانی مذاہب کا دعویٰ ہے کہ وہ تمام چیزوں کو خارج میں تینوں ذرائع علم کو استعمال کرتے ہوئے چوتھا ذریعہ علم منوائیں گے۔ اگر تینوں ذرائع علم سے کسی ایک حرف میں تضاد واقع ہوا تو مسترد کر دیا جائے گا۔
مثلاً اگر موجودہ دور کا تجربہ یا مشاہدہ جھٹلا رہا ہو، عقل کے خلاف ہو یا مستند تاریخ سے غلط ثابت ہو۔ جس طرح فلسفہ اور تصوف پر تمام تعصبات، نظریات اور عقیدتوں سے بالاتر ہو کر ان کا تجزیہ کیا گیا ،اسی طرح آسمانی مذاہب کا تینوں ذرائع علم سے تجزیہ کیا جائے گا۔ اگر ان میں بھی کوئی غلطی پائی گئی تو فلسفہ اور تصوف کی طرح آسمانی مذاہب کو بھی رد کر دیا جائے گا خواہ اس میں قرآن ہی کیوں نہ ہو۔ اور پھر کسی پانچویں ذریعہ علم کی طرف رجوع کی کوشش کی جائے گی
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں