گیارہویں پارے کا خلاصہ

گیارہویں پارے میں سورة توبہ کی آیت 94 سے اختتام تک ہے، سورہ یونس مکمل ہے اور سورہ  ھود کی چند آیات ہیں۔ دسویں پارے کے آخر میں ان منافقین کا ذکر تھا جو جہاد میں شرکت سے بچنے کے لئے بہانے بناتے تھے۔ اس  کے آغاز میں ان منافقین کا بیان ہے جنہوں نے جہاد سے واپسی پر آپ کی خدمت میں حاضری دی اور جھوٹے بہانے تراشے۔ یہاں اللہ تعالی دولت مند منافقین کا پول کھول رہے ہیں، اور ان کے حالات سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو باخبر کر رہے ہیں۔ دنیا میں صداقت کا میزان صرف عمل ہے، خالی باتیں بنانے سے کسی کا سچا ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ یہاں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ برائی کے ارتکاب کے بعد  تین صورتیں پیش آتی ہیں۔ اوّل یہ کہ عذر کو قبول کرکے  معاف کردیا جائے، دوم: معذرت قبول نہ کی جائے اور سزا دی جائے، سوم: گناہ کرنے والے کے گناہ سے اعراض کیا جائے اور کوئی سزا نہ دی جائے۔ منافقین کے معاملے میں اللہ تعالی نے یہی رویہ اپنانے کا حکم دیا ہے۔ کیونکہ شریعت میں ظاہر پر احکام نافذ کیے جاتے ہیں۔ باطن کا معاملہ اللہ تعالی نے اپنے پاس رکھا ہے۔ نفاق کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ اللہ سے زیادہ لوگوں کو راضی کرنے کی فکر ہوتی ہے۔ چنانچہ ہمیشہ اللہ کی خوشنودی کو بندوں کی خوشنودی پر مقدم رکھنا چاہیے۔

اس کے بعد کچھ ذکر ان دیہاتی عربوں کا ہے جو منافق تھے۔ یہ لوگ زکوٰۃ کو بوجھ سمجھتے تھے اور موقع کے انتظار میں تھے کہ دین سے منحرف ہو جائیں۔ اللہ تعالی کا یہ قاعدہ ہے کہ جب بھی کسی قوم یا گروہ کے بُرے لوگوں کا ذکر کرتا ہے تو ان کے اچھے لوگوں کی تعریف بھی کرتا ہے۔ چنانچہ ان دیہاتی عربوں کی تعریف بھی کی گئی جو اللہ کی قربت کے لیے اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ نبی کریم صدقہ دینے والوں کے لئے دعا کیا کرتے تھے۔ تو ان دیہاتی عربوں کی تعریف میں یہ بیان کیا گیا کہ یہ آپ کی دعا لینے کے لئے صدقات کرتے ہیں۔

منافقین کے ذکر کے بعد مہاجرین و انصار، اور قیامت تک ان کی پیروی کرنے والوں کی مدح کی گئی۔ اللہ کی رضا اور جنت کی بشارت دی گئی۔ یہاں یہ بھی معلوم ہوا کہ ہمیشہ سبقت کرنے والوں کی پیروی کرنی چاہیے کیونکہ اللہ تعالی نے مہاجرین اور انصار کی صفت یہ بتائی کہ وہ “السابقون الأولون” ہیں۔ نبی کریم کو ہدایت کی کہ ان سے صدقات قبول کرلیا کریں۔ صدقہ برائیوں کو ٹالتا ہے نفاق کو دھوتا ہے، نفس اور مال کو پاک کرتا ہے۔

منافقین نے مسجد قباء کے ساتھ ایک مسجد ضرار کے نام سے بنائی تھی تاکہ اس کی آڑ میں اپنے مذموم مقاصد پورے کریں۔ منافقین نے رسول اللہ کو اس مسجد کا افتتاح کرنے کی دعوت دی لیکن اللہ تعالی نے آپ کو اس سے روک دیا، اس مسجد کی مذمت کی اور اس کو مسمار کرنے کا حکم دیا۔ یہاں یہ ثابت ہوتا ہے کہ بد نیتی سے کیا گیا نیک عمل بھی وبال کا سبب بنتا ہے۔ اس کے برعکس مسجد قباء میں قیام کرنے کا حکم دیا اور وہاں کے لوگوں کی تعریف کی کہ یہ پاک لوگوں کی مسجد ہے، اور تقوی پر قائم ہے۔ چنانچہ جو بھی کام اخلاص کی بنیاد پر ہوگا وہی قبول ہوگا۔ چھوٹی نیکی بھی اس بڑے کارنامے سے بہتر ہے جو اللہ کی رضا کے لئے نہیں ہے۔ لہذا سب سے پہلے نیت کی فکر کرنی چاہیے۔

پھر مومنین کی تعریف کی گئی کہ وہ اللہ سے اپنی جانوں اور مالوں کا سودا کرتے ہیں۔ جو کوئی بھی اللہ سے یہ معاہدہ کرتا ہے اس کے لیے بشارت ہے۔ اللہ سے زیادہ وعدہ ایفاء کرنے والا کون ہوسکتا ہے، کیا ہی خوب خریدار ہے اور کیا خوب بدلہ ہے۔ پھر ان لوگوں کی خصوصیات بتائی گئیں کہ جو اللہ کے ساتھ یہ سودا کرتے ہیں وہ توبہ کرنے والے، عبادت گزار، حمد کرنے والے، نیکی کے کاموں کے لیے نکلنے والے، رکوع کرنے والے، سجدے کرنے والے، نیکی کا حکم دینے والے، برائی سے روکنے والے اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ چنانچہ سچے مومن احتیاط سے زندگی بسر کرتے ہیں۔ مومن اپنے آپ کو اپنی خواہشات کے عوض نہیں بیچتا۔ پھر مومنین کو مشرکین کے لیے دعائے مغفرت سے منع کیا گیا خواہ قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔

غزوہ تبوک کی طرف اشارہ کرکے ان مومنین کی تعریف کی گئی جو تنگی کے باوجود جہاد کے لیے نکلے۔ مشکل وقت میں ہمت ٹوٹنے لگتی ہے، ایسے وقت میں توفیق ملنا ہی اللہ کا فضل ہے۔

پھر ان تین صحابہ کا ذکر ہے جو سچے مسلمان تھے لیکن تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے انہوں نے بہانے بنانے کے بجائے سچ بولا اور اپنی غلطی تسلیم کر کے معافی طلب کی ان پر بہت سخت آزمائش آئی۔ چالیس دن تک ان کا سوشل بائیکاٹ رہا لیکن یہ ثابت قدم رہے آخرکار ان کی توبہ قبول ہوگئی۔ یہ بھی بتایا گیا کہ اللہ کے راستے میں پیش آنے والی ہر چھوٹی بڑی چیز کا اجر ہے۔ نیک کام کا اجر محنت اور خلوص کے حساب سے ہوتا ہے۔

حکم دیا گیا کہ مومنین میں ایک جماعت ایسی بھی ہونی چاہیے جو دین کا علم حاصل کرے۔ جہاد بالسیف کے ساتھ ساتھ جہاد بالقلم بھی ضروری ہے۔ اسلام کی جغرافیائی سرحدوں کے ساتھ ساتھ اس کی نظریاتی سرحدوں کا دفاع بھی ضروری ہے جو علم سے ہی ممکن ہے۔ ہر علاقہ اور قوم میں سے علما  ہونے چاہئیں  جو اپنے لوگوں کی رہنمائی کریں۔

سورت کے آخر میں پھر کفار کے ساتھ قتال کا حکم دیا گیا منافقین کا قرآن کے ساتھ رویہ بتایا گیا یہ قرآن کے نزول سے بددل ہوتے ہیں۔ قرآن کے ذریعے سے مومن کا ایمان بڑھتا ہے اور منافق کا نفاق بڑھتا ہے۔ آخر میں نبی کریم کی تعریف کی گئی کہ مسلمانوں کی تکلیف انہیں گراں گزرتی ہے، یہ مسلمانوں کی فلاح کے حریص اور ان پر مہربان اور رحیم ہیں۔ یہی ایک سچے لیڈر کی صفات ہوتی ہیں، مخلص لیڈر کو ان صفات کا حامل ہونا چاہیے۔

*سورۃ یونس*
یہ مکی سورت ہے اس میں توحید کے عقلی اور نقلی دلائل ہیں۔ اس سورت میں تفصیلا ً توحید کا ذکر ہے جو مکی سورتوں کا خاصہ ہے۔ سورہ توبہ کا اختتام بھی نبی کریم کے ذکر سے ہوا اور اس کا آغاز بھی۔ چنانچہ اس میں رسالت اور آخرت کی طرف کائنات کے مشاہدے اور نشانیوں کے ذریعے توجہ دلائی گئی ہے۔ تخلیق کائنات کے ذریعہ سے رب کی طرف توجہ دلائی گئی کہ وہی سب اختیارات کا مالک ہے۔ اس نے اعمال کا بدلہ انصاف کے ساتھ دینے کے لیے آخرت کا دن رکھا ہے۔ یہ کائنات اللہ کی قدرت کی نشانی ہے۔ یہ سب کسی مقصد سے پیدا کیا گیا۔ جن لوگوں نے دنیا میں دل لگا لیا اور اس پر راضی ہوگئے وہ اس تخلیق کائنات سے ہدایت حاصل نہیں کرتے ان کے لئے عذاب کی وعید ہے۔

ناشکرے لوگوں کا ذکر کیا گیا کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو اللہ کے حضور گڑگڑاتے ہیں مگر جب وہ مصیبت دور ہوجاتی ہے اور اللہ فضل فرما دیتا ہے تو نا شکرے ہو جاتے ہیں، گویا برا وقت آیا ہی نہیں تھا اور چالبازیاں شروع کر دیتے ہیں۔ اللہ کا یہ دستور نہیں کہ وہ فوراً  پکڑ لے وہ دنیا میں مہلت دیتا ہے۔ جو خوشحالی میں اللہ کو یاد کرتا ہے اللہ اس کو مصیبت میں یاد کرتا ہے۔ خوشحالی میں دعا نہ مانگنے والوں کی مذمت بھی کی گئی۔

کفار کی یہ صفت بتائے گی کہ یہ قرآن کو اپنی خواہشات کے مطابق بدلنا چاہتے ہیں۔ لہذا قرآن میں سے اپنی خواہشات کے مطابق مطلب نکالنا کافرانہ صفت ہے۔ کفار کے معبودوں کی حقارت بیان کی گئی اور بتایا گیا کہ قیامت کے دن یہ سب ایک دوسرے سے برات کا اظہار کریں گے۔ اس سورت میں میں جابجا اللہ کی الوہیت کے دلائل بیان کیے گئے۔ دنیا کی زندگی کی حقارت کو مثال سے سمجھایا گیا۔ خوش خبری دی گئی کہ جن لوگوں نے اچھے کام کیے ان کے لیے بھلائی ہے اور انہیں اللہ کا دیدار نصیب ہوگا۔ برائی کا بدلہ اتنا ہی ملے گا جتنی برائی ہوگی۔

قرآن کی صداقت کی بات کی گئی کہ یہ حکمت اور دانش کی کتاب ہے۔ اس میں دِلوں کے امراض کی شفاء، ہدایت اور رحمت ہے۔ مومنین کو اسے حاصل کر کے خوش ہونا چاہیے، یہ ہر اس دنیاوی مال ومتاع سے بہتر ہے جس میں یہ لوگ مگن ہیں۔ چیلنج کیا گیا کہ اگر ہو سکے تو تم بھی ایسی کوئی سورت بنا لو اور جس سے چاہو اللہ کے علاوہ مدد لے لو۔ جو قرآن کو صرف سنے لیکن ہدایت حاصل نہ کرے اس کے لیے ہلاکت ہے۔ جو علم سے عمل کا فائدہ نہیں اٹھاتا وہ صاحب بصیرت نہیں ہوتا۔

متعدد بار قیامت کی ہولناکیوں کا ذکر کیا گیا، اور آخرت پر ایمان کی دعوت دی گئی۔ واضح کیا گیا کہ نبی کو بھی اپنے نفع نقصان کا اختیار نہیں۔ ہر چیز کے خاتمے کا وقت مقرر ہے۔ موت کے وقت ساری حقیقت کھل جائے گی۔ اس دن پورے انصاف کے ساتھ فیصلے ہوں گے۔ کسی سے کوئی فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ اولیاء اللہ کے لیے خوشخبری ہے کہ دنیا اور آخرت میں ان کے لئے کوئی خوف اور غم نہیں ہے۔ اللہ کا علم ہر چیز کا احاطہ کرتا ہے ہر چیز اس کے ریکارڈ میں ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی چیز لکھی ہوئی ہے۔ عزت اللہ ہی کی ہے، وہ شرک سے پاک ہے۔

سابقہ اقوام کے عبرت آمیز واقعات بیان کر کے غور و فکر کی دعوت دی گئی کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوتا ہے۔ نوح علیہ السلام کا قصہ بیان کیا گیا پھر موسی علیہ السلام کا قصہ قدرے تفصیل سے بیان کیا گیا۔ اس کے ذریعہ سے واضح کیا گیا کہ مشکل سے نکلنے کا راستہ اللہ پر توکل ہے۔ تو کل کر کے پھر دعا کا سہارا لیا جائے۔ دعا توکل کے منافی نہیں ہے۔ جو حالات ہوں اس کے مطابق حکمت عملی ہونی چاہیے۔ ایمان کے لئے ثابت قدمی بہت ضروری ہے۔ عذاب دیکھ کر ایمان لانا فائدہ نہیں دیتا۔ جب سارے مواقع دیکھ کر بھی ہدایت حاصل نہ کی جائے اور سرکشی کی جائے تو عذاب واقع ہو جاتا ہے، ہدایت کا راستہ بند ہو جاتا ہے اور توفیق چھن جاتی ہے۔ لیکن مومنین کو عذاب کے وقت بچا لیا جاتا ہے۔

پھر یونس علیہ السلام کی قوم کا ذکر ہے۔ یہ وہ واحد قوم ہے جن کو عذاب دیکھ کر توبہ کرنا نصیب ہوا، اور ان کی توبہ کو قبول کیا گیا، کیونکہ ان کے پیغمبر ان کو چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ ان کی توبہ اس لئے قبول ہوئی کہ ابھی عذاب واقع نہیں ہوا تھا، بلکہ یہ عذاب کی نشانی دیکھ کر سچے دل سے مسلمان ہو گئے تھے۔

اللہ تعالی نے یہ بھی بتا دیا کہ اللہ چاہے تو زبردستی بھی سب کو مسلمان کر سکتا ہے۔ لیکن اس نے انسان کو اختیار رکھا ہے۔ موت سے عبرت دلائی گئی۔ بتایا گیا کہ نفع نقصان اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہتا ہے نوازتا ہے۔ جو ہدایت پاتا ہے اپنے لیے فائدہ حاصل کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے اس کا وبال بھی اسی پر ہوتا ہے۔
نبی کریم کو ہدایت کی گئی ہے ہے کہ صبر کے ساتھ کوشش کرتے جائیں اور نتیجہ اللہ پر چھوڑ دیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

*سورہ ھود*
اس کے بعد سورہ ہود شروع ہوتی ہے جس کی ابتدا کتاب اللہ کی تعریف سے کی گئی کہ یہ قرآن کم الفاظ میں جامع مضامین کا حامل ہے۔ اس سورہ میں بھی توحید اور رسالت کی دعوت ہے۔ استغفار کا حکم ہے کہ اس سے دنیا میں بھی رزق کی فراوانی ہوتی ہے۔ اور پارے کے آخر میں اللہ کے علم کا ذکر ہے کہ وہ ظاہر باطن سب جانتا ہے اس کا علم ہر چیز پر محیط ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply