بات تو کرنا ہوگی!

سکے کے دو رخ ہوتے ہیں، روپے کا پرانا سکہ لیں ایک طرف قائداعظم تشریف فرما ہیں دوسری طرف مسجد ۔۔۔جس نے مسجد دیکھی ہے وہ کہے گا سکے پر مسجد ہوتی ہے، مخالف فریق کہے گا نہیں سکے پر ہمارے محسن کی تصویر ہے۔ ایک تیسرا اٹھے گا وہ کہے گا سکہ تو سرے سے ایسا ہے ہی نہیں جیسا دونوں بتا رہے ہو ۔تیسرے شخص نے چونکہ نیا سکہ دیکھ رکھا ہے اس لیئے یہ بھی اپنی جگہ درست ہے ،اب عقل کا تقاضا یہی ہے کہ سب کو درست مان لیا جائے درمیانی راہ نکالی جائے ،دونوں سکوں کا دیدار تینوں کو کروا دیا جائے ،ہمارے ہاں بھی ایسا ہی ہوتا ہے ہم سکے کا ایک رخ دیکھ کر دوسرے کو جھوٹا مخالف اور پتا نہیں کیا کچھ کہہ دیتے ہیں ۔اختلاف ہونا بری بات نہیں ،اپنی رائے کو افضل اور حتمی سمجھنا بری بات ہے ،ہم اختلاف برائے اختلاف پر یقین کر لیتے ہیں، ہمارے سوچنے تک اختلاف مخالفت میں تبدیل ہوجاتا ہے، متضاد رائے تو باپ بیٹے میں بھی ہو سکتی ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ باپ بیٹے کو قتل کردے یا بیٹا باپ کو باپ ماننے سے انکار کر دے، ایسا ہوتا بھی نہیں ہے ہم گھر میں بھی اختلاف رائے برداشت کرتے ہیں ۔اس پاک سرزمین کو بھی گھر ہی سمجھ لیں دوسروں کی رائے کا احترام کریں انہیں بھی برداشت کریں ۔
زبان زدِ عام ہے کہ محمد احمد لدھیانوی کا انٹرویو نہیں ہونا چاہیئے تھا یہ ”ہم سب“ کا فیصلہ ہے ،ہم سب کا نہیں ۔۔۔۔۔مخالف کا موقف سننے کا حوصلہ پیدا کرنا ہوگا، زبانی جمع خرچ تو ہم بہت کرتے ہیں اب مکالمہ ،دلیل کا وقت ہے ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھائیں، ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ کافر کافر کا نعرہ پرانا سکہ تھا اب وقت بدل گیا ہے ،حالات کا رخ موڑا جا چکا ہے ،تبدیلی کسی حد تک آ چکی ہے ۔ محمد احمد لدھیانوی اور انکی جماعت اب اس نعرہ سے تقریباً دستبردار ہوچکی ہے ہمیں تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھانا ہوگا کہ کوئی ماں کے پیٹ سے دہشتگرد پیدا نہیں ہوتا، وہ بس عمل کا ردِ عمل دیتا ہے مگر اس کا انداز جارحانہ اور متشدد ہوجاتا ہے ،جسے ہر ذی شعور انسان کہتا ہے کہ بدلا اور انتقام اپنے ہاتھ میں لینے کی بجائے قانون کے دائرے میں رہا جاتا تو زیادہ مناسب تھا ۔سپاہِ صحابہ بھی ردعمل کی صورت میں معرضِ وجود میں آئی تھی، سرکار جناب عزت مآب سکے کا یہ رخ بھی تو عوام کو دکھائیں، پروپیگنڈہ برائے پروپیگنڈہ نہ کیا جائے۔۔۔ اگر کافر کافر کے نعرے لگے ہیں تو وہ کسی وجہ سے لگے ہیں، قتل کرنا کسی اہلسنت والجماعت کے ترجمان سے ثابت نہیں، متشدد اور انتقامی ذہن رکھنے والے احباب کو جماعت سے فارغ کردیا جاتا تھا، ملک اسحاق کا جیل سے رہا ہونا نائب صدر بنانا، اس بات سے مشروط تھا کہ جمہوری عمل کا حصہ بن کر قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی بات منوائی جائے۔ جب ملک اسحاق اور لدھیانوی گروپ کا اس بات پر اتفاق نا ہو سکا تو ملک اسحاق کو جماعت سے الگ کر دیا گیا، زیرو ٹولرنس کی اس سے اچھی مثال نہیں ملتی۔۔ اسی دوران ملک اسحاق کو دوبارہ گرفتار کیا گیا اور پھر ملک اسحاق ، غلام رسول و دیگر 14 افراد کو ایک ہی دن میں جعلی پولیس مقابلے میں ماردیا گیا ۔ کیا وہ اتنے ہی پاورفل تھے کہ حکومت ان پر مقدمہ چلا کر انہیں سزائے موت نہیں سنا سکتی تھی؟۔۔۔۔ یہ حکومت کی ناکامی ہے، ایک دن میں 14 قتل پر لدھیانوی کا اظہارِ افسوس نہ کرنا اس بات کی گواہی ہے کہ ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں۔
جناب تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ فریقِ مخالف کے اگر قتل ہوئے ہیں تو دوسری طرف جھنگوی، ایثار،ضیاالرحمان، اعظم طارق، علی شیر حیدری، عبدالغفور ندیم سمیت درجن بھر قیادت اور ہزاروں کارکن قتل ہوئے ہیں ،غلطیاں دونوں طرف سے ہوئی ہیں ،اب اگر کوئی آ کر ان زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کر رہا ہے تو ہمیں اسے کھلے دل سے گلے لگانا چاہیئے۔محترم تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ محمد احمد لدھیانوی نے سیاسی اور جمہوری شخص بن کر توہینِ صحابہ بل پاس کروانے کی کوشش کی ہے ،تو اسے پورا کر دینا چاہیئے ،نہ توہین ہوگی ،نہ کافر کافر کے نعرے بلند ہونگے۔ حق نواز جھنگوی کے بیٹے کو جمہوریت میں لانے والا بھی یہی مولوی ہے۔ راجہ بازار کے المناک واقعہ سے کون ناواقف ہے وہاں پر کچھ بھی ہو سکتا تھا، بہت سارے جذباتی کارکنان کو ایک اشارے سے بٹھا دینا آسان کام نہیں تھا مگر مولانا نے موقع پر عقلمندی اور ہوش کا دامن تھامے رکھا ۔۔۔میرے پیارے تصویر کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ مولانا محمد احمد لدھیانوی کو ایجنسیوں کے ہاتھوں بکا ہوا ، ٹاؤٹ، غدار جیسے القابات سے بھی نوازا گیا ہے کیونکہ اس نے قوم کی سوچ بدلنے کی کوشش کی ہے ۔کلاشنکوف بندوق اٹھانے والوں کو اسمبلی کا راستہ دکھایا ہے ۔تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ علی شیر حیدری نے اگست 1997 میں جسٹس سجاد علی شاہ کے سامنے ہاتھ جوڑے تھے، اس مسئلے کا حل نکل آئے ۔۔۔ضیا الرحمان فاروقی نے تاریخی دستاویز 400 علماء کی موجودگی میں وزیراعظم کو پیش کی تھی تاکہ یہ مسئلہ اختتام کو پہنچے،
تلخ حقیقت اور تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ اہلسنت والجماعت اپنا حلقہ احباب رکھتی ہے محمد احمد لدھیانوی نے ایک حلقہ سے 70 ہزار ووٹ لیے تھے۔ کیا وہ سب دہشتگرد تھے؟ نہیں وہ ریاستی چال بازیوں سے تنگ تھے انہوں نے سب جماعتوں کو آزما لیا تھا یہ کہا جائے کہ صرف نظریاتی ووٹ ملتا ہے درست نا ہوگا اس بار مسرور نواز جھنگوی کو ملنے والے ووٹ میں اہل تشیع مکتبہ فکر کا ووٹ بھی تھا لدھیانوی اور مسرور نواز جھنگوی نے جمہوری عمل کو آگے بڑھانے کے لیئے سب کو یکساں حقوق فراہم کرنے کی بات کی ہے جو یقیناً خوش آئید ہے ہمیں اس کی حوصلہ بھی کرنی چاہیئے اس سوچ کو اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ کوئی خود کو اقلیت نا سمجھےْ
یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر سیاسی پارٹی نے مولانا کو استعمال کیا ہے جہاں اہلسنت والجماعت کا ووٹ بینک زیادہ تھا سیاسی رہنماٶں نے وہاں اتحاد کا ڈھونگ رچا کر اپنا نمائندہ کامیاب کروایا ہے رانا ثنا اللہ سے لیکر خورشید شاہ تک سب نے فرداً فرداً فائدہ اٹھایا ہے کیا انہیں علم نہیں تھا کہ جماعت کالعدم ہے رہنماٶں کے نام فورتھ شیڈول میں ہیں ماضی مشکوک ہے وغیرہ وغیرہ یقیناً علم تھا اسی لیئے تو فائدہ اٹھایا اگر جماعت دہشتگرد تھی تو جناب نے ووٹ کیوں لیا؟ ووٹ لے کر کامیاب ہوگئے تو جماعت کالعدم ہوگئی کالعدم کا ترجمہ بھی ہماری ڈکشنری میں الگ الگ ہے۔
کیا ہمارے سیاسی اختلافات نہیں ہیں؟ کیا ہمارے لیڈر مشکوک نہیں ہیں؟۔۔۔۔کیا ہمارا نظام مکمل درست ہے؟ ہزاروں ارب ڈالر ہڑپ کرنے والوں کو بھی ہم نے معاف کیا ہے،قبائلی جنگجوؤں کو معافی دی ہے ،نئی زندگی جینے کا موقع دیا ہے،مولانا کو بھی اک موقع دیا جائے،میڈیا ٹرائل ذرا کم کیا جائے،جمہوری راستوں پر ویلکم کیا جائے،کیونکہ بقول وجاہت مسعود اب بات تو کرنی ہوگی ۔

Facebook Comments

وثیق چیمہ
خاک ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply