پھر یوں ہوا کہ میں نےاحمد بشیر(مرحوم)سے پوچھا
اچھی فلم کی آپ کے نزدیک تشریح کیا ہے؟
‘ حمید اختر سے ایک انٹر ویو میں سوال کیا ۔۔۔۔لیکن اچھی فلم کی آپ کیا تعریف کریں گے؟
اے جے کار دار سے یہی سوال پوچھتے پوچھتے میں لندن سے ایمسٹر ڈیم آگیا۔
ایمسٹر ڈیم میں شمیم اشرف ملک سے بھی یہی سوال پوچھ لیا (وہ ان دنو ں میرے گھر پر تھے) جاوید جبار سےبھی اسی سے ملتا جلتا سوال پوچھا۔
میرے حساب سے اچھی فلم کی تشریح کسی نے کرنا ہی نہیں چاہی۔ یار لوگ realistic فلم بنانے بیٹھتے ہیں اور factual بنا ڈالتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں ان کے فن” “کو سمجھ نہیں سکے۔ اب “لوگ” لفظ جو ہے یہ سب کے لیے مستعمل ہے اور ہر شخص دانشور یا انٹلیکچوئل نہیں ہوتا ۔ پھر بھی لوگ اصل اور نقل کا فرق خوب جانتے ہیں ۔اگر اچھی چیزیں بھی فیل ہوا کرتیں تو پھر تو رات،انجیل ۔قرآن،رامائن اور مہابھارت ابھی تک زندہ نہ رہتے ۔انہیں تو سمجھنا بھی آسان نہیں ، میرے خیال میں میری رائے میں جب ہدایتکار factual کی زد میں آجاتا ہے تو دم توڑ دیتا ہے ۔
حقیقت بیان کرنا ہدایتکار کا کام نہیں اور پھر جوں کا توں یا ہو بہو سکرین پر پیش کردینے میں اس کا اپنا کمال ہے ؟
فلم میکر حقائق کا وقائع نویس نہیں ہے،بلکہ ظاہر و باطن کے درمیان رہنے والے امکانات اور اشاروں کا خبر رساں ہے۔ ایک اچھا ہدایتکار فلم کے کرداروں کو اپنے لائحہ عمل اور مقاصد کے مطابق ڈھالنے کی سعی اور اپنے حوصلے کی پیمائش کرتا ہے۔پاکستان میں چند فلمیں بنی تھیں ، شمیم اشرف ملک کی “نیند” ،”گھر پیارا گھر”، اور “سیما”،جاوید جبار کی “مسافر” ،حمید اختر کی “سکھ کا سپنا” ،کنور آفتاب کی “جھلک” ،احمد بشیر کی “نیلا پربت” اور اشفاق احمد کی “دھوپ اور سائے” ۔
یہ فلمیں دوسری بننے والی فلموں سے مختلف تھیں ۔ایک طبقہ ان فلموں کو اہم بھی تسلیم کرتا ہے لیکن یہ تمام فلمیں بالخصوص ہماری فلمی صنعت پر اور بالعموم قومی زندگی پر رتی برابر بھی اثرات مرتب نہ کرسکیں۔ کچھ عرصہ قبل میں نے کہیں پڑھا تھا کہ پچاس کی دہائی میں ہم متعدد قومی حادثوں سے دوچا ہوئے ۔اسی دہائی میں فیض صاحب اور شمیم اشرف ملک فلم کے میدا ن میں اترے۔ اسی دہائی میں لیاقت علی خان کے دورہ امریکہ سے ہماری سیاسی ہلاکت کا آغاز ہوا۔
بعد ازاں فوجی اور معاشی تعاون کے معاہدوں کے ذریعے پاکستان کی سیاست آگے بڑھی ۔اس دوران پنڈی سازش کیس کا غلغلہ بلند ہوا، مشرقی بنگال (پاکستان) میں بنگالی کو دوسری قومی زبان قرار دینے کی تحریک چلی اور وہاں عوام پر تشدد کیا گیا، کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر پابندی لگا دی گئی۔
ان تمام برسوں میں فیض احمد فیض کے ساتھ شمیم اشرف ملک ،حمید اختر،احمد بشیر نے اپنی اپنی فلمیں بنائیں ۔ احمد بشیر کی نیلا پربت اس عہد کا خاص واقعہ تھا ۔ دوسرا اہم واقعہ یہ تھا کہ ہم نے بورژوا جمہوریت کے لیے جدو جہد کی اور ایک تازہ دم مارشل لا تک پہنچے۔
1970 کی دہائی کے پہلے برس میں ہم نے بنگال کو رہا کردیا اور اس کے بعد پارلیمنٹ کی سیڑھیاں چڑھنا سیکھا۔اسی اثنا میں اشفاق احمد نے دھوپ اور سائے بنائی اور فیض صاحب نے نیفڈک کے تعاون سے مشرقی پاکستان میں ایک فلم کا ڈول ڈالا۔ فلم تو کیا پایہ تکمیل کو پہنچتی کہ پہلی ریلیز ہی بنگال کے خون میں ڈوب گئی۔
یہاں بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فیض احمد فیض ،شمیم اشرف ملک ،حمید اختر ،احمد بشیر ،کنور آفتاب اشفاق احمد اور جاوید جبار جیسے دانشور کیوں ناکام ہوئے؟
ان کی ناکامی ناساز گار حالات کے کارن تھی یا وہ اپنے دانشورانہ انتہا پسندانہ تجربوں کی نذر ہوگئے ،اور کیوں وہ عوام سے ابلاغ نہیں کرپائے تھے؟
“نیند” غالباً پاکستان کی پہلی سنجیدہ فلم تھی۔ شمیم اشرف ملک جیسے داشنور کی دانشورانہ کوشش ۔۔۔اور یہ کوشش ناکامی کے ہاتھوں مات کھا گئی لیکن نیند تو ایک ترقی پسندانہ اور بامقصد فلم تھی اسے کیوں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا؟
“میں نے بعض غیر اہم نکتوں پر تو سمجھوتہ کیا لیکن میں بیشتر بنیادی مسائل پر ہتھیا ر ڈالنے کے لیے تیار نہ تھا “۔
شمیم اشرف ملک مرحوم نے مجھے بتایا تھا کہ بنیادی مسئلہ یا مسائل سے ن کی کیا مراد تھی؟
میرے حساب سے سوشلسٹ حقیقت نگاری یا مروجہ قدروں کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا ان کے نزدیک بنیادی مسئلہ تھا۔دراصل انہو ں نے ایک فارمولے کو رد کرکے دوسرا فارمولا پیدا کرنےکی کوشش کی تھی اور یہ کہ آرٹ میں سماجی یا معاشرتی حقیقت نگاری کا تصور سخت قسم کی پابندیاں عائد نہیں کرتا۔ یہ حقیقت نگاری اپنے سماجی حالات اور تقاضوں کے درمیان جنم لیتی ہے اور پروان چڑھتی ہے۔شمیم اشرف ملک کی تینوں فلمیں عوام میں پہنچیں تو ضرور لیکن ابلاغ پیدا نہ کرنے کی وجہ سے باکس آفس پر ناکام ہوگئیں ۔ حمید اختر کی سکھ کا سپنا ۔۔آسٹریلیا کے ایک کمیونسٹ ادیب کے ناول the power with glory پر بنی فلم تھی۔
حمید اختر نے ایک بار بتایا “ ترقی پسند فلم کی جانب یہ ایک نہایت اہم قدم تھا۔ فلم کے ساتھ بہترین لوگ وابستہ تھے۔ہدایتکار مسعود پرویز کے علاوہ فیض صاحب تھے ،اداکاروں میں علاؤالدین۔آغا طالش وغیرہ ہمارے ساتھ تھے۔ یہ ساری باتیں فلم انڈسٹری کے ابو جہل برداشت نہ کرسکے ،ان کا خیال تھا کہ اگر ہم کامیاب ہوگئے تو انڈسٹری کی سکہ بند جہالت کے مفادات خطرے میں پڑ جائیں گے۔
چنانچہ ساری فلم انڈسٹری شعوری طور پر ہمارے مقابل آگئی۔ باقائدہ سازشی جلسے ہوئے۔ ہنگامہ برپا ہوا ۔فلم کے پرنٹ گھٹیا تیار کیے گئے اور وہ بھی بروقت سیمنا ہال تک نہ پہنچ پائے۔جس کے باعث پہلے ہی شو میں بدمزگی ہوگئی ۔ مگر میں اپنے سمجھوتہ نہ کرنےپر شرمندہ نہیں ہوں ۔
میری رائے میں یہاں بھی ایونٹ کے اراکین کی “دانشوری” نے عوام سے اس انداز میں مکالمہ نہ کیا جس کی انہوں نے توقع پیدا کررکھی تھی۔
“نیلا پربت”۔۔۔احمد بشیر نے بلیک اینڈ وائٹ فلم کا نام نیلا پربت تجویزکرکے یہ سمجھ لیا تھا کہ اب دور دور تک کامیابی کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔سو یہی ہوا۔ لیکن اس کا تجزیہ اور دوسرے دانشور ہدایتکاروں کے فن کے بارے میں آئندہ بات کریں گے۔ چھوٹی چھوٹی باتیں ۔بڑی بڑی باتیں ،ضرر رساں باتیں اور بے ضرر باتیں!!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں