قلبِ ماہیت۔۔۔نیلم احمد بشیر

 

تانے بانے میں اُلجھی جالے بُنتی ہوں
مکڑی جیسی لگتی ہو ں۔۔۔خود سے سُنتی ہوں
یہ تالاب بھی کہتا ہے
جس کے بھیتر عکس میرا چھپ رہتا ہے
دراصل میں تتلی ہوں
گُل کو ڈھونڈنے نکلی ھوں
چہکتے مہکتے خوشنما گل
رنگ برنگے تازہ نرم اور کِھلے کِھلے
صبح سویرے شبنم جن سے گلے ملے
میں سچ مچ کی تتلی ھوں متوالی آزادی کی
پیاری سی شہزادی سی ِِ
اِدھر سے اُدھر کو اُڑنے پھرنے
گنگنانے والی ۔۔
ہاتھ نہ آنے والی
زندگی سے بھرپور آرزو سے چُور
تتلی ہی تو تھی جب جنم لیا
آغازِ سفر کیا
پروں کو اپنے ہولے  ہولے پھڑ پھڑایا آزمایا
کتنے رنگ جھڑے تھے مجھ سے
آج مگر ھوں جکڑی ہوئی
تتلی سے میں جکڑی ہوئی
جگراتوں سے سُکڑی ہوئی
اب تالاب بھی مجھ سے کچھ کترانے لگا ہے
ایک کنکر جو گرا تو سب کچھ بدل گیا
جیون کے بھنور کا چکر یوں چلا
چپکے سے مجھے نگل گیا
کہاں سے آئی  یہ بدصورت سی مکڑی
جالے کے جو بیچوں بیچ پھنسی بیٹھی ۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply