اسیرِ ذات/دلشاد نسیم/تبصرہ-ثمینہ سیّد

افسانہ ازل سے کہانی کے دامن سے کچھ اچھوتے پل لیتا ہے اور تجسس بھرےاختتام سے چونکا دینے کا ہنر ہی اسے منفرد بناتا ہے۔ ورنہ کہانی تو داستان میں بھی ہے،ناول کی جان ہے،شاعری کی بنیاد ہے،سوانح عمری کہانی کے بغیر کچھ بھی نہیں۔کہانی کی مختلف کتابیں پڑھنے میں آتی رہتی ہیں لیکن کچھ کتابیں بہت عزیز ہو جاتی ہیں اپنے عمدہ بیانیے اور زندگی کی رمزوں کو سلیقے سے رقم کرنے کی وجہ سے ہمارے دل میں جگہ بنا لیتی ہیں۔
افسانے کی کتاب ” اسیرِ ذات ” دلشاد نسیم نے بڑی محبت سے مجھے دی تو میں جو دلشاد نسیم کو سالہا سال سے جانتی ہوں۔اس کتاب کو حرف حرف پڑھ ڈالا۔ پہلے کچھ دلشاد نسیم کے بارے میں ان کی اپنی زبانی۔ ایک انٹرویو میں دلشاد نسیم کہتی ہیں۔
“جتنی میری عمر ہے شاید تب سے ہی لکھ رہی ہوں۔کیونکہ اب یہ یاد ہی نہیں آتا کہ جب نہیں لکھتی تھی تب کیا کرتی تھی۔تو شعور میں آتے ہی قلم سے ناطہ جوڑ لیا تھا۔اور یہ میں نہیں سب ہی کہیں گے لکھنے والا کبھی حادثاتی رائٹر نہیں ہوتا اس کے اندر ایک حس عام لوگوں سے زیادہ ہوتی ہے۔عام انسان صرف محسوس کرتا ہے لیکن رائٹر محسوس بھی کرتا ہے اور اپنے محسوسات کو الفاظ بھی دیتا ہے۔
خاص طور پر افسانے کے بارے میں کہتی ہیں کہ ”
میرا پہلا عشق افسانہ ہے۔ایک اچھا افسانہ بہت پرسکون کر دیتا ہے۔اب بھی جب میں اپنے لئے کچھ کرنے کا سوچتی ہوں تو خیال آتا ہے ایک افسانہ لکھ لوں۔دوسری محبت غزل ہے شاعری وہ محبت ہے جس میں جنون بھی شامل ہوتا ہے۔ ”
دلشاد بات بے بات اپنی امی اور ابو کا ذکر کرتی ہیں۔
“امی میری تحریروں کی سب سے بڑی مداح تھیں اور نقاد بھی تھیں۔”
افسانہ لکھنے کے بارے میں دلشاد کا کہنا ہے۔
“لکھنے کے لئے پختہ خیال اور منفرد سوچ ضروری ہے پھر چاہے کوئی جگہ ہو کوئی بھی وقت۔کبھی کبھی تو سوتے میں چونک جاتی ہوں تو لکھنے بیٹھ جاتی ہوں۔ ”
دلشاد نسیم کی چار کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں. نظموں کا مجموعہ “محبت ایک استعارہ ہے ” ناول “متاعِ جاں” افسانوں کا مجموعہ “اسیرِذات “اور شعری مجموعہ ” زیرِ لب۔
دلشاد کے افسانوں میں معاشرے کی عکاسی ہے،الفاظ کا بہترین چناؤ ہے، جملوں کی تزئین ہے۔ کہیں کہیں انگریزی کے الفاظ کسی قدر خلل ڈالتے ہیں۔ لیکن اسلوب سنبھال لیتا ہے۔
دلشاد نسیم کی کتاب “اسیرِذات” بہت خوبصورت افسانوی مجموعہ ہے۔ “ماوراء پبلیکیشنز ” نے شائع کیا۔ دیدہ زیب سرورق کے ساتھ بہت عمدہ بیانیہ کے افسانےاور شستہ زبان میں ایک کتاب میں پھولوں کا گلدستہ بنے دمکتے ہیں۔ جن میں سے کچھ اقتباسات جو مجھے بہت پسند آئے۔آپ کو کتاب سے مکمل شناسائی دیں گے۔
“کہنی کی چوٹ” سے اقتباس
” بیوی کی موت کہنی کی چوٹ جیسی ہے لگے تو جان کھینچ لیتی ہے مگر یہ اذیت بہت دیر تک نہیں رہتی ، سنبھالا مل جاتا ہے۔”
“ابھی پچھلی شب بستر پہ لیٹے لیٹے اس نے کس شدت سے رخسانہ کی کمی کو محسوس کیا تھا ۔ امیر علی نے آہ بھر ی۔ کیسے جھٹ پٹ مر گئی بے چاری ۔ اس نے دکھ سے سوچا اس کی آنکھوں میں نمی آگئی وہ مسلسل خود ترسی کے مرض میں مبتلا ہوئے جا رہا تھا.جانے اور کتنی زندگی ہے.جتنی بھی ہے تنہا کیسے کٹے گی میں گھر دیکھوں یا دوکان دیکھوں جب سے رخسانہ مری ہے خدا گواہ ہے نہ کھانے کا ہوش رہا نہ کپڑوں کا نہ ہی گھر کی کسی اور شے کے ٹھکانے کا پتہ چل رہا تھا کوئی بیٹی ہوتی تو بات اور تھی مگر اب ۔۔۔۔ رخسانہ مجھے معاف کر دینا. ”
ایک افسانے “کرتا” سے اقتباس
“اماں کتنا خوش تھی .. پاؤں زمین پر نہ ٹکتے تھے .. منوں کے قصیدے کہتے زبان تھکتی نہ تھی آتے جاتے مجھ پر صدقے واری ہو رہی تھیں.چوڑے لپے والا دوپٹہ اوڑھ کر مہندی کی رسمیں ادا کرتے اماں کو میرا دکھ دکھائی نہ دیا اور مجھے یقین ہو گیا بہت سی کتابی باتوں کی طرح یہ بات بھی کتابی ہے.کہ ماں اولاد کا دکھ بن کہے جان لیتی ہے۔”
دلشاد نسیم کا افسانہ ‘کرتا’ کیفیت کا افسانہ ہے۔ افسانے پر بنی شارٹ فلم دیکھنے کے بعد تو کئی دن میں اسی کے سحر میں رہی یہ کہانی شروع سے آخر تک تاجی کی ہے اسکے ڈائیلاگز کی گہرائی بار بار چونکنے پر مجبور کرتی ہے۔ تاجی کا کرتے میں چہرہ چھپانا، کھانا پکاتے ہوئے مڑ کر کرتے کو بہت چاہ اورحسرت سے دیکھنا، منو کی کوٹھی کے دروازے میں سے ڈرتے جھجکتے جھانکنا، کرتا وہاں چھوڑ کر بھاگ آنا۔ یہ سارے ایسے مناظر تھے۔ جن میں کوئی ڈائیلاگ نہ تھے لیکن جنہوں نے کہانی کے بیانیہ کو نہایت خوبی سے بیان کیا۔پیشکش بھی کمال تھی۔
افسانہ ” بسو کی ماں ”
“بھاگاں نے مردہ ساس پہ نظر ڈالی اور پریشانی سے بولی.” ماں کو صبح تک رکھنا ہے تو برف کا انتظام کرنا ہوگا ”
برف …؟ بسو کو لگا اسی پہ برف پڑ گئی ہے .. وہ کیوں ..؟
گرمی ہے ..؟
” ماں تو مر گئی ہے اس کو کیا خبر گرمی ہے یا سردی. .؟
پاگل پن کی بات نہ کر .. تھوڑی دیر میں پیٹ پھول جائے گا ”
بسو نے حیران ہو کر کہا ..” ماں نے تو تین دن سے کھانا نہیں کھایا تھا .. پیٹ میں تو کچھ ہے نہیں پھر پھولے گا کیا ..؟
بھاگاں جھلا گئی ” فاقہ بھی ہوا کر دیتا ہے … ”
بسو بے وقوفوں کی طرح دیکھتا رہ گیا. ”
افسانہ …” کہنی کی چوٹ سے ایک اقتباس اور دیکھئے۔ یہ افسانہ بہت سے میگزین اور ویب سائٹس پر پسندیدگی پا چکا ہے۔
“کامنی نے رضوان سے کہا” سنیے کیوں نہ ہم ابو کی شادی کر دیں .. مجھ سے ان کی تنہائی دیکھی نہیں جاتی.”
ابو کبھی اپنے بچوں پر سوتیلی ماں نہیں لانا چاہیں گے اور نا ہی وہ امی کے بعد کسی دوسری عورت کو بیوی کا درجہ دے سکیں گے .” رضوان بولا
” آپ سمجھتے کیوں نہیں مرد کو ہمیشہ بیوی نہیں چاہیے ہوتی ” کامنی زچ ہو کے بولی .
امیر علی کو یوں لگا اس کی چوری پکڑی گئی ہو اس کے اندر کا شریف آدمی پسینے پسینے ہو گیا .. پھر چارپائی چرچرائی یقینا رضوان نے کروٹ لے کر اپنا رخ کامنی کی طرف کیا ہو گا .. امیر علی نے قدم پچھلی سیڑھی پہ دھرا ، سرگوشی ابھری . ” کتنا بور کرتی ہوتم، دیکھو کتنی ٹھنڈی میٹھی رات ہے ، چاند بھی نہیں چمک رہا تاریکی ہی تاریکی ہے اس پر تم ابو کی وکیل بنی بیٹھی ہو ..”
“وہ اتنے اکیلے اور … ” کامنی بات کرتے کرتے خاموش ہوگئی شائد رضوان نے کامنی کے نرم ہونٹوں پر انگلی رکھ دی ہو گی یا پھر .. سوچ کے ہی امیر علی کے کان سلگ اٹھے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی …
“یہ ہمارے پیار کا وقت ہے اس میں، میں کسی کا ذکر برداشت نہیں کرسکتا ، ابو کا بھی نہیں …”
” ” بیوی کی موت کہنی کی چوٹ جیسی ہے لگے تو جان کھینچ لیتی ہے مگر یہ اذیت بہت دیر تک نہیں رہتی ، سنبھالا مل جاتا ہے۔”
افسانہ ..” سراب “سے اقتباس
“ہم نے کتابوں میں پڑھا ہے کہ دنیا کے تمام مذاہب نیکی کا درس دیتے ہیں ، محبت اور یگانگت سکھاتے ہیں۔بھائی چارے اور امن کا درس دیتے ہیں۔یہ سارے امن دوست مذہب دنیا کے ہر خطے میں الگ الگ ناموں سے پہچانے جاتے ہیں۔کسی نے چوری کو حلال اور راستی کو حرام نہیں کہا۔کسی نے سچ کو غلط اور جھوٹ کو صحیح نہیں لکھا، پھر یہ تعصب کی تبلیغ کن کتابوں میں لکھی ہے ؟ کس جماعت اور کس مذہب میں ہے؟”
منوہر تحمل بھری مسکراہٹ سے میرے شانوں سے ریلنگ پر ڈھلک آنے والے آنچل کو دوبارہ شانوں پر سجا کر بولا . ” جب انسان مصلحت کی چادر اوڑھ لے اور اسے جھوٹ بولنا آجائے اس کا بچپن ختم ہو جاتا ہے … تم میں ابھی بہت بچپنا ہے تمہاری سچائی اور تمہارا دکھ اس بات کا گواہ ہے تم نے مصلحت کی سیڑھی پر ابھی قدم نہیں رکھا۔”
افسانہ”اندھیرے میں” کیا خوب منظر نگاری ہے۔ آغاز ہی گرفت میں لیتا ہوا ہے۔
‘سڑک بہت ویران نہیں تھی۔ اِکا دُکا سواریاں آجارہی تھیں۔ سٹریٹ لائٹس آن تھیں۔ کمرشل ایریا میں ڈھابے والوں کا رش مدھم پڑ چکا تھا جبکہ بڑے ریسٹورینٹس ابھی کچھ کچھ آباد تھے۔ ایک بجنے والا تھا۔ عموماََ رات بارہ بجے کے بعد شہر کے وضع دار لوگ اپنا روزگار اٹھا لیتے ہیں یا پھر ان پر شٹر گرا دیتے ہیں۔ اس کے بعد ایک اور قسم کے لوگ جاگتے ہیں۔ ان کا روز گار شروع ہوتا ہے۔ ”
زندگی کی تلخیوں سے نہایت سفاکی سے پردہ اٹھاتی ہیں۔
” ” سب تقاضے بھوک ہی کے تو ہیں”
”تم بغیر محبت کے کیسے اپنا آپ کسی غیر کو سونپ دیتی ہو۔“
”کئی لوگ دنیا میں اس طرح رہ رہے ہیں.. بنا محبت..“
دلشاد نسیم ایک ایسا معروف نام ہے جو کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ یہ ایک نرم دل رکھنے والی، محبت کرنے والی ڈراما نگار ، ناول نگار، افسانہ نگار اور خوبصورت لب و لہجے کی مالک شاعرہ ہیں۔مہمان نواز بھی بلا کی ہیں۔ ہم سے محبت بھرے مراسم ہیں تو ہم ان کے ہاتھ کے ذائقے سے بھی لطف لیتے ہیں۔
دلشاد کے بہترین ڈراموں میں ” تیرے پہلو میں ، سہیلیاں، عشق میں کافر، تیرے پیار کے بھروسے، خوبصورت، اپنی کہانی کیسے کہیں، تم بھی کہو، سائیاں وے ، تیرے پیار میں”ہیں۔ دلشاد نے ادب کی بہت سی جہتوں میں کام کیا ہے۔ وہ جلد باز نہیں ہے۔ لیکن خوش قسمت اور محنتی ہے۔ اس کے ہر کام کو پہچان اور پذیرائی ملی ہے۔ دوست کے لیے دل سے دعا ہے کہ افسانوں پر بھی توجہ دیں اور مزید اچھے افسانے لکھیں۔ اگلی کتاب افسانوں کی ہی ہونی چاہیے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply