گہرا سمندر۔۔۔۔۔نیلم احمد بشیر

میرے بیٹے علی نے ہمیشہ کی طرح اپنا سکول بیگ شاپ کے ایک کونے میں پٹخا اور سٹول کھینچ کر میرے قریب بیٹھ گیا۔ میں نے بھی اپنا معمول کا سوال دہرایا۔
”کھانا کھا لیا تھا؟“
حقیقت یہی ہے کہ ہر ماں اپنے بچے کے کھانے پینے کے بارے میں ہمیشہ متجسس اور فکرمند رہتی ہے۔چاہے بچہ جتنا مرضی صحت مند اور ہٹا کٹا ہی کیوں نہ ہو؟ اب بچہ رہ بھی نہ یہ پ گیا ہو مگر اسے ہمیشہ یہی لگتا ہے کہ اس کے بچے نے ٹھیک سے کھایا نہیں ہو گا، بھوکا ہی ہو گا۔
”ڈونٹ وری مام۔۔! میں نے سکول میں لنچ کر لیا تھا اور اچھی طرح خوب پیٹ بھر کے کھایا تھا۔“
علی روز مجھے مسکرا کر یہی جواب دیتا تو میں مطمئن ہو کراپنی شاپ کے کسٹمرز کو اٹینڈ کرنے میں مصروف ہو جاتی۔ جب تک میں شاپ میں رہتی، علی اس بڑے سے وہائٹ مارش شاپنگ مال میں ہی گھومتا پھرتا رہتا۔ کبھی کبھار اپنا سکول کا ہوم ورک بھی کسی بینچ پر بیٹھ کر ہی مکمل کر لیتا۔ کبھی اس سٹور کبھی اُس سٹور گھومتا، سکیورٹی گارڈ ز سے ہیلو ہائے کرتا، سٹور مالکان اور ملازمین سے گپیں لڑاتا، وقت گزار لیتا تھا۔ سب اس سے بہت مانوس ہو گئے تھے اور اس کی موجودگی کے عادی بھی۔ اگر کبھی ایک آدھ دن وہ ان کی طرف نہ جاپاتا تو سب مجھ سے پوچھنے چلے آتے کہ ”علی کہا ہے؟ وہ ٹھیک تو ہے؟ نظر کیوں نہیں آ رہا؟“
کوئی کہتا ”میں نے اس کے لیے چاکلیٹ کیک کا ایک پیس بچایا ہوا ہے۔“
کوئی کہتا:”اسے کہنا آ کر فریش لیمونیڈ پی لے۔“ تو کوئی اس کے لیے یونہی کوئی گفٹ چھوڑ جاتا۔۔

شاپنگ مال سٹورز والے گورے، کالے، چینی، انڈین، پاکستانی، امریکن اب کتنے ہی سالوں سے ہماری فیملی کی طرح بن گئے تھے اور علی سے تو خاص طور پر بہت شفقت سے پیش آتے تھے۔ علی سکول میں بہت اچھے گریڈز لیتا تھا، جس کی وجہ سے سب بہت خوش ہوتے، اسے تھپکی دیتے اور اس کی کارکردگی کو سراہتے رہتے تھے۔

گوڈائیو چاکلیٹ سٹور پر کام کرنے والا بوڑھا نیلسن تو خاص طور پر علی سے بہت پیار کرتا تھا۔کبھی کبھی میں اور علی کے ابو اسے ہنس کر کہتے:
”تم تو علی کے نانا اور دادا کی جگہ لے رہے ہو۔“ تو وہ بڑا خوش ہوتا۔ علی بھی اسے گرینڈ پا کہہ کر بلاتا۔ مجھے البتہ اپنے دل کی گہرائی میں افسوس کی ایک لہر کروٹ لیتی محسوس ہوتی کہ علی کے نانا اور دادا اس سے اتنی دور تھے۔وہ اسے یوں بڑھتے، پھلتے پھولتے، زندگی میں آگے کی طرف بڑھتے ہوئے نہ دیکھ سکتے تھے۔ وطن سے دور رہنے والوں کے ساتھ ایسا تو ہوتا ہے۔

ہم لوگ قریباً پندرہ سال سے امریکہ میں رہائش پذیر اور ہر لحاظ سے سیٹ ہیں۔ یہاں کے اچھے نظام اور سکھ چین دیکھ کر کئی بار دل میں حسرت جاگتی ہے کہ کاش ہمارے اپنے پیارے پاکستان میں بھی سب اسی طرف سے زندگی بسرکرنے کے قابل ہو سکیں۔ ہمارا وطن بھی اتنا ہی پرابلم فری ہو جائے مگر ہمارے حکمران تو ایک کے بعد ایک آتے ہیں، ملک کے وسا ئل اور دولت، اختیارات کو لوٹتے ہیں تو ان سے کسی بہتر نتیجے کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟
امریکہ میں رہنے والے بچوں کا ایک مسئلہ ہوتا ہے، وہ جھوٹ اور منافقت کے گُر سے نا آشنا ہوتے ہیں۔ ہمارا علی بھی ایسا ہی ہے۔ میں اور اس کے ابودو تین سال بعد وطن عزیز کا ایک چکر لگاتے ہیں تو وہ بھی ہمراہ ہوتا ہے مگر پاکستان کو زوال پذیر دیکھ کر حیران پریشان ہو جاتا ہے۔ اسے سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ ملک آخر ایسا کیوں ہے اور امریکہ کی طرح کیوں نہیں ہے؟ علی سچ کہنے سے بالکل بھی نہیں ڈرتا اور جہاں موقع ملے تنقید شروع کر دیتا ہے۔

ابھی دو سال پہلے ہی کی تو بات ہے۔ ہم لوگ پاکستان گئے ہوئے تھے، رشتہ داروں، دوستوں سے میل ملاقات میں مصروف تھے۔ بڑے بھیا نے جن کا تعلق  ایک پرانی سیاسی پارٹی سے ہے، ہمیں اپنے ایک جلسے میں شرکت کی دعوت دی۔ یہ پارٹی ایک زمانے میں اپنے انقلابی منشور اور متحرک قائدین کی وجہ سے بہت مقبول تھی مگر گزرتے وقت کے ساتھ اس کے لالچی، خود غرض عہدیداروں نے ایسی خباثت بھری کرپشن کی کہ عوام کا ان پر سے اعتماد جاتا رہا۔ الیکشن کے قریب آتے ہی پارٹی پھر برسرِاقتدار رہنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی تھی اور یہ جلسہ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ ہم سب تو اس پارٹی کی نیک نیتی کے بارے میں کافی مشکوک تھے مگر بھیا کو شاید اب بھی امید تھی جو مسلسل اِن بجھے ہوئے چراغوں کے دھوئیں کو روشنی کی پرچھائیں سمجھنے کی خوش فہمی میں گرفتار تھے۔

ان کے جلسے میں خوب زوروشور سے تقریریں ہو رہی تھی۔ پاکستان کو ایک بہتر ملک بنانے کے لیے منصوبے بنا ئے جا رہے تھے کہ یکدم کسی نے کہا:
”ینگ بلڈ کو آگے آنا چاہیے۔ نئی جنریشن کی رائے معلوم کرنی چاہیے کہ وہ اس ملک کے لیے کیا اور کیسا سوچتے ہیں؟“ وغیرہ وغیرہ۔۔
چند نوجوان لڑکے سٹیج پر آئے اور پُر جوش تقریروں اور جذباتی نعروں سے پنڈال کو گرما دیا۔ یکایک بھیا کو کچھ خیال آیا۔ انہوں نے علی کی طرف دیکھ کر اعلان کیا:
”اتفاق سے میرا نوجوان اور فیورٹ بھانجاعلی اس وقت یہاں موجود ہے۔ یہ امریکہ میں رہتا ہے مگر آج کل پاکستان کا مہمان ہے اور آخر کیوں نہ ہو بھئی پاکستان میں اس کے باپ داد کی جڑیں ہیں۔ میں علی کو اظہارِ خیال کی دعوت دیتا ہوں۔ وہ آئے اور ہمیں بتائے کہ آج ہمارا ملک کہاں کھڑا ہے اور ہمیں کس سمت جانا چاہیے؟“ یہ سنتے ہی علی نے فوراً میری طرف دیکھا، مثبت اشارہ دیکھ کر اٹھ کھڑا ہوا اور سٹیج پہ جا کے مائیک تھام لیا۔ کرسیوں پر بیٹھے ہوئے گھاگ سیاستدان اس میدان کے پرانے کھلاڑی مزید چوڑ ے ہو کر کرسیوں پر پھیلنے لگے۔
”ہیلو اینڈ السلام علیکم!“ علی نے اپنی بات کا آغاز کرتے ہوئے چاروں طرف دیکھا۔
”میں ایک امریکن پاکستانی ہوں اور ایری زونا سٹیٹ میں ایک سرکاری سکول میں زیرِ تعلیم ہوں۔اس کے علاوہ میں اپنی پاکستانی کمیونٹی کی پاکستان ایسوسی ایشن کا بھی اہم رکن ہوں۔ میں نے آپ سب کی تقریریں سنی ہیں اور میں یہ کہنے پر مجبور ہوگیا ہوں کہ آپ سب لوگ منافق اور جھوٹے ہیں۔ آپ صرف اپنے فائدے کی ہی بات کر رہے ہیں۔ ملک کے  وسیع تر مفاد سے آپ کو قطعاًکوئی دلچسپی نہیں ہے۔“
علی کے منہ سے یہ باتیں سنتے ہی مجمع کو سانپ سونگھ گیا۔ چاروں طرف ایک سناٹا ساچھا گیا۔ ایک لحظے کو تومیں بھی دل ہی دل میں کانپ کے رہ گئی۔
”یا الٰہی خیر! یہ امریکن بچہ کہیں مزید اول فول نہ بک دے۔“ میں نے گھبرا کر سوچا۔۔ علی مکمل اعتماد سے بولتا چلا گیا۔

”ہم امریکہ میں رہتے ہیں، جہاں معاشرے کی بنیاد ہی دیانتداری اور نظم و ضبط پر ہے۔ لوگ اپنے ملک کے ساتھ مخلص ہیں جبکہ پاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ یہاں حکمرانوں کو محض اپنی جھولیاں بھرنے کی پڑی رہتی ہے اور لوگ بھوکے، ننگے، کام چور اور آسانیاں تلاش کرتے والی قوم بن چکے ہیں۔ یہاں قانون کی بالادستی نہیں اور ہر ادارہ زمین بوس ہو چکا ہے۔ آئی ایم سوری مگر آپ لوگوں کو پہلے اصول پرستی، فراخدلی اور تعمیری سوچ اپنانا ہو گی۔ وہاں ہر ایک کو اس کا حق ملتا ہے۔ کوئی کسی کا حق نہیں مارتا۔ فیصلے سفارشوں پہ نہیں، میرٹ پہ ہوتے ہیں۔ آپ لوگوں کو پہلے اپنا ذاتی اور قومی کردار ٹھیک کرنا ہو گا۔ یہ ملک تبھی ترقی کر ے گا اور دنیا کی مہذب قوموں کے شانہ بشانہ چل سکے گا۔ ان خالی خولی تقریروں کا کوئی فائدہ نہیں۔ آپ لوگ تکلیف نہ ہی کریں تو بہتر ہے۔“

یہ سب کہہ کر علی چپکے سے نپے تلے قدم اٹھاتا سٹیج سے نیچے اتر آیا اور مجمع میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں۔ مجھے سمجھ میں نہیں آیا، میں خوش تھی یا شرمندہ؟ پھر چند ہی لمحوں بعد بھیا نے صورتحال کو سنبھال لیا۔ علی کی کمر تھپتھپاتے ہوئے بولے:
”یہ نوجوان بالکل ٹھیک کہتا ہے۔ میں خوش ہوں کہ میرا امریکہ سے آیا ہوا نوجوان بھانجا سچ بولنے کی صلاحیت اور جرأت رکھتا ہے۔ میری خواہش ہے کہ میرے ملک کا ہر نوجوان ایسی سوچ اپنائے، تبھی اس ملک کے مقدر کا ستارہ چمکے گا۔“
بھائی جان کی یہ بات سن کر میں نے سکھ کا سانس لیا اور ہولے سے مسکرا دی۔ میں جانتی تھی کہ میرا بیٹا کہتا تو سچ ہے مگر پھر سچ سننے کا حوصلہ پاکستا ن کی سیاسی پارٹیوں یا حکمرانوں میں ہوتا ہی کہاں ہے؟

”ڈیئر کزن! شکر کر تجھے ابو کی باتوں نے بچا لیا ورنہ یہاں کوئی ایسی بات کرے تو اسے جوتے اور ٹماٹر پڑتے ہیں۔“
بھائی جان کے ٹین ایج بیٹے ارسلان نے علی کے کندھے کو ہولے سے جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔ میں اور علی کھلکھلا کر ہنس دیئے۔

وہائٹ مارش شاپنگ مال میں ہمارے سٹور کو چلتے اب بہت سے سال بیت گئے ہیں۔ ہم معاشی طور پر کافی مستحکم ہو چکے ہیں۔ علی بھی تعلیم کے میدان میں منزلیں مارتا ماشاء اللہ آگے ہی آگے بڑھتا چلا جا رہاہے اور اب تو اس نے سکول کے ایف ایم ریڈیو سٹیشن پر بطور کمپیئر کام بھی شروع کر دیا ہے۔ اسے میوزک پلے کرتے اور اعتماد سے گفتگو کرتے سن کر ہم بہت خوش ہوتے ہیں کہ ہمارا بچہ امریکہ میں ہر طرح سے اپنی تخلیقی اور تعلیمی صلاحیتوں کا اظہار کرنے کے مواقع حاصل کر رہا ہے اور اسے کسی بھی طرح سے پیچھے نہیں رہنا پڑتا۔ اس کا جو جی چاہتا ہے وہ کر سکتا ہے اور ماں باپ کے لیے اس سے زیادہ خوشی کی بات بھلا کیاہو سکتی ہے؟

سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا کہ حال ہی میں ایک واقعہ وقوع پذیر ہوا۔ پوری دنیا یہ خبر سن کر دنگ رہ گئی کہ امریکی فوجیوں نے رات کی خاموشی میں چپکے سے ایک خفیہ آپریشن کیا اور ایبٹ آباد میں مقیم اسامہ بن لادن اور اس کے اہلِ خانہ کو ٹارگٹ کر کے مار دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ امریکی میڈیا نے اسامہ، اس کے بیوی بچوں، ملازمین وغیرہ کسی کو بھی ٹی وی پر دکھایا نہ ان کے بیانات سنوائے۔ آج کے میڈیاawareness دور میں یہ بڑی اچنبھے کی بات ہے۔ آج تو دنیا کے کسی کونے میں کوئی مکھی یا مچھر بھی مر جائے تو کیمرے کی آنکھ اسے فوراً محفوظ کر لیتی ہے اور میڈیا پر نشر کر دیتی ہے۔ امریکہ کا دشمنِ جان مارا جائے اور کیمرہ کچھ بھی نہ دکھائے؟ اس سے شکوک و شبہات اور ابہام تو ضرور پیدا ہوتے ہیں ۔۔مگرامریکیوں کو تو جاب ویلڈن ہونے کا اطمینان اور سکون چاہیے تھا، لہٰذا وہ اسامہ کی ہلاکت اور سمندر بوس ہونے کی خبر سنتے ہی خوشی سے جھوم اٹھے اور ناچتے ناچتے سڑکوں پر نکل آئے۔ اسامہ کے خاتمے کا رقص مناتے، وہ ایک دوسرے کو مبارکبادیں دے رہے تھے اور جیے امریکہ کی ٹی شرٹس پہنے خوب اِترا رہے تھے۔
علی بھی بہت خوش تھا۔ بار بار کہہ رہا تھا:
”دیکھا مام ڈیڈ! آخر امریکہ نے دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد کا خاتمہ کر ہی دیا ناں؟ واٹ اے گریٹ کنٹری۔ امریکہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اب ساری دنیا میں امن چین ہو جائے گا۔ شکر ہے آپ لوگ امریکہ چلے آئے اور میں یہاں پیدا ہوا۔“ اس نے مسکراتے ہوئے کہا اور ٹی وی پہ سی این این کی خبریں دیکھنے لگے۔

اگلا روز امریکیوں کے لیے کرسمس سے بڑھ کر خوشی کا دن تھا۔ ہر طرف سیلیبریشن جاری تھی۔ آفٹر سکول ایکٹی ویٹیز میں اس روز علی کا ایف ایم ریڈیو پروگرام بھی تھا جس پہ علی نے تازہ ترین صورتحال اور خبروں کو موضوع بنایا اور بار بار خوش ہو کر اعلان کیا:
”we got him“ (ہم نے اسے پکڑ لیا۔)۔ ایکسائٹمنٹ کے مارے اس سے بولا ہی نہیں جا رہا تھا۔ اس نے کتنے ہی خوشیوں کے نغمے پلے کیے اور جوکس سنائے۔ پروگرام بہت خوشگوار ماحول میں چلتا رہا۔ اتنی کالز آئیں کہ ٹیلی فون کی لائنیں جام ہو کر رہ گئیں۔
کوئی امریکی فوجیوں کی شجاعت، کوئی ملٹری سٹریٹیجی، کوئی پاکستانی حکومت کی نالائقی بیان کر رہا تھا اور کوئی کہہ رہا تھا کہ پاکستان ایک جھوٹا ملک ہے، اتنے بڑے دہشت گرد کو چھپا رکھا تھااور ہم سے امداد بھی بٹور ے جا رہا تھا۔

رات کے کھانے کی میز پر علی ہمیں یہ سب بتا رہا تھا مگر میں اور علی کے ابو کچھ چپ چپ سے تھے۔ ہمیں اس روز پہلی بار احساس ہوا کہ ہمارے گھر میں ایک امریکن رہتا ہے۔ ایسا جس کی سوچ ہماری سوچ سے جدا ہے اور جس کے نظریات ان ہی حقائق پر مبنی ہیں جنہیں امریکی میڈیا اپنے عوام کو سپون فیڈ کرتا ہے۔ ہم تیسری دنیا کے تارکینِ وطن، ہماری کیا مجال کہ ہم آقاؤں کی پالیسیوں، ترجیحات اور حتمی فیصلوں کے آگے کچھ کہہ سکیں۔ ہم دونوں میاں بیوی اپنے آلو گوشت اور چپاتی کو سامنے رکھے اجنبی نظروں سے علی کی طرف دیکھتے رہے اور علی اپنی سٹیک اور بیک پوٹیٹو کی پلیٹ ہاتھ میں لیے خبریں دیکھنے میں مصروف رہا۔

فاکس چینل پہ مشہور ٹاک شو اینکر Greta Van اپنا ٹیڑھا منہ گول گول گھما کر ہمیشہ کی طرح مسلمانوں کو لعن طعن اور گوروں کو دنیا کی مہذب ترین قوم قرار دے کر اپنے دلائل پیش کر رہی تھی۔ بار بار بُش کی وہ نیوزclipping بھی دکھائی جا رہی تھیں جس میں اس نے کہا تھا:
”ہم پاکستان کو پتھر کے دور میں پہنچا دیں گے وغیرہ وغیرہ“ عجب سرکس لگا ہوا تھا۔
”مگر امریکہ تو خود دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد ہے۔ تیل اور طاقت کے لیے پوری دنیا پر قبضہ جمانا چاہتا ہے۔ یہ آ ج کے دور کی کالونائزیشن ہے۔“ علی کے ابورہ نہ سکے اور بے قابو ہو کر بولے۔
نوجوان امریکی کے پاس اپنے دلائل تھے۔ میں نے گھبرا کر چینل ہی بدل دیا۔ کسی انڈین چینل پہ ”مائی نیم از خان“ چل رہی تھی۔
”توبہ۔۔۔اب انٹرٹینمنٹ کی دنیا کے بھی یہی موضوعات ہو گئے ہیں؟“ میں نے اپنے شوہر کی طرف دیکھ کر کہا اور کھانے کی میز سے برتن سمیٹنے لگی۔
”دنیا بدل چکی ہے۔ اب عشق و محبت کی بجائے دہشت گردی اور عالمی صورتحال کو موضوع بنائے بغیر انٹرٹینمنٹ کی دنیا بھی کامیابی حاصل نہیں کر پاتی۔“ انہوں نے سمجھانے کے انداز میں مجھے جواب دیا۔

اگلے روز میں شاپنگ مال میں اپنے سٹور پہ کام کر رہی تھی کہ حسبِ معمول تین بجے علی مجھے دروازے سے آتا دکھائی دیا۔ وہ خلافِ معمول تیز تیز قدم اٹھاتا چل رہا تھا مگر میں نے اس بات کا کوئی خاص نوٹس نہیں لیا۔ آتے ہی اس نے حسبِ معمول بیگ ایک کونے میں رکھا مگر نہیں اسے رکھنا نہیں، پھینکا ہی کہنا  زیادہ مناسب ہو گا اور منہ بسور کے بیٹھ گیا۔
”کیا ہوا؟“ تم ٹھیک تو ہو بیٹا؟ موڈ کیوں اتنا خراب ہے؟ کھانا کھا لیا تھا؟“ میں نے حسبِ معمول اس سے ماؤں والے سوالات شروع کر دیئے۔
”آپ کو پتہ ہے آج سکول میں کیا ہوا؟“ علی نے نمناک آنکھوں سے روہانسی آواز میں کہا
”کیا؟“ میں نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے اسے پوچھا
”میں جیسے ہی سکول پہنچا۔ سکول کے ساتھیوں نے مجھے کہا، ہمیں مبارکباد دو۔“
”اچھا؟ وہ کس بات پر؟“ میں نے حیرت سے پوچھا
”کہنے لگے۔۔ہم نے تمہارا باپ پکڑ لیا، اسے مارد یا اور پھر سمندر میں دفنا دیا۔ تم کچھ بھی نہ کر سکے۔ وہ مجھ پر ہنس رہے تھے۔“ وہ غصے سے بولا

”اوہ۔۔“ موقع کی نزاکت سمجھ کر میں خاموش ہو گئی۔ دل پر جیسے ایک گھونسہ پڑا۔”ہائے میرا بچہ۔۔“ میرے لبوں سے نکلا اور میرا دل ڈوبنے لگا۔ مجھے اپنا بچہ بہت معصوم، بے خبر اور بے ضرر سا لگا۔ اسے تو خبر ہی نہیں تھی کہ وہ ان میں سے نہیں ہے جن میں وہ خود کو سمجھتا ہے۔ اسے تلخ حقیقتوں کا ادراک ہو رہا تھا اور میرا دل ٹوٹ کر پارہ پارہ ہوا جا رہا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

”بس بیٹا۔۔ اب احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ ہم یہاں رہتے ہیں۔ یہ ہماری چوائس تھی کہ ہم یہاں آئیں، رہیں، ان کے نظام اور برتر معیشت میں سے اپنا حصہ ڈھونڈیں۔ ایسے حالات میں ہمیں برداشت کرنا اور خاموش رہنا ہو گا۔“ میں نے ا س کو آغوش میں لیتے ہوئے پیار سے کہا
”مگر مام! میں تو امریکن بارن ہوں۔ مجھ میں اور ان میں کیا فرق ہے؟“ علی اب بھی لاجک کی بات کرتا چلا جا رہا تھا۔
”مام! یہ ڈیم امریکن اتنے متعصب، تنگ نظر اور تھڑڈلے ہیں۔ اتنی محدود سوچ ہے ان کی۔ انہیں تو دنیا کی سیاسی، معاشی، جغرافیائی سچویشن کا کچھ بھی نہیں پتہ۔ یہ لوگ صرف اپنے آپ کو صحیح سمجھتے ہیں۔آخر سب مسلمان تو دہشت گرد نہیں ہوتے۔ ہم امن پسند ہیں۔ کیا امریکہ میرا ملک نہیں ہے؟مام! آپ لوگوں نے مجھے یہاں کیوں پیدا کیا؟Where do I belong Mom“
علی کے سوالوں نے مجھے ہمیشہ کی طرح لاجواب کر دیا تھا۔
”نہ میرا رنگ گوروں کی طرح سفید ہے نہ کالوں کی طرح سیاہ۔“ وہ اٹھا اور اپنے چہرے کو سامنے لگے شیشے میں بغور دیکھنے لگا۔
”میں جا رہا ہوں مام۔“ وہ یکایک اٹھا اور اپنی جیکٹ پہننے لگا۔
”کہاں؟“ میں نے تجسس سے پوچھا
”آج میں شاپنگ مال کے سب سٹور والوں کو جو، اب تک میری دوستی کا دم بھرتے تھے، جا کے سنا دوں گا کہ تم امریکن کس قدر متعصب اور مطلب پرست ہو۔ تم لوگ تنگ نظر ہو۔ یہاں میرا کوئی نہیں، میرا کوئی دوست نہیں، و ہ گرینڈ پا بھی جھوٹ موٹ کا نانا دادا بنا ہوا ہے۔ یہ سب لوگ ہم کو تعصب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ دشمن سمجھتے ہیں۔ میں آ ج ان کو خوب سناؤں گا مام۔“
”علی۔۔رکو بیٹا۔۔۔ایسا مت کرو۔۔علی۔۔علی۔۔“ میں چیختی رہ گئی مگر میرے آوازیں دینے کے باوجود وہ پیر پٹختا ہوا تیز تیز قدم اٹھاتا باہر نکل گیااور اس نے میری ایک بھی نہ سنی۔ امریکن بھلا کہاں کسی کی سنتے ہیں؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply