رات بھر شہر میں چراغاں رہا۔ پھر اچانک بادل امڈ آئے اور ایسا گرجے اور اتنا کڑکے کہ خدا کی پناہ ! ایسا لگ رہا تھا جیسے کہہ رہے ہوں عشق کو ثابت کرنے کےلئے کیا صرف جلتے بجھتے برقی← مزید پڑھیے
کُن۔۔مختار پارس/آنکھ کھلتے ہی جو بات دل میں در آئے وہ یا حقیقت ہوتی ہے یا خوف۔ خوف حقیقت پر مبنی ہوتا ہے کہ دل اس وقت تک نہیں دھڑکتا جب تک سچ سامنے نہ آ جائے۔ حقیقت سے اس وقت تک ڈر رہتا ہے جب تک اس سے واسطہ نہیں پڑتا ۔ انسان کو اس کے وجود کا اختیار ملتے ہی دل دھڑکنا شروع کر دیتا ہے← مزید پڑھیے
قرب کا عذاب جینے نہیں دیتا اور ہجر کا کیف مرنے نہیں دیتا۔ بے ثبات ہونے میں ایک عجیب سی کیفیت ہے کہ وعدہء تحلیلِ حیات، امکانِ وفا کو زندہ رکھتا ہے۔ خدا کو محبوب کہتے ہوۓ ڈر لگتا ہے← مزید پڑھیے
دل مضطرب کہ کوئی تعاقب میں ہے۔ حالانکہ کسی تعاقب سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ کوئی بے وجہ کسی کو تلاش نہیں کرتا۔ ضروری نہیں کہ قدموں کے نشان ڈھونڈنے والے دشمن ہی ہوں۔ انسان جب اپنی تلاش میں← مزید پڑھیے
آخر کسی نے تو پوچھا تو سہی کہ سفر راستے میں ہی کیوں چھوڑ دیا۔ گئے دنوں کی مسافتوں کو شمار کرتے رہنا چاہیے۔۔ جو سفر آئندہ قدم بوسی کا ارادہ رکھتے ہوں، انہیں بھی زمین سے اٹھا کر گلے← مزید پڑھیے
جب جب نظر نے دھوکا کھایا، سب کو سب یاد ہے۔ تسلیم کی خو کو ثابت نہ کیا جاۓ تو قصہءِ دگر ورنہ مسلمہ امر تو یہ ہے کہ نگاہ کو اختیارِ ذات پر اختیار نہیں۔ سوچ اورعمل اسی پردے← مزید پڑھیے
پہاڑوں پر رہنے والے صحرا میں نہیں رہ پاتے ہیں ۔انہیں وادیوں کی آغوش میں قید اچھی لگتی ہے۔ ریگستان کی وسعت میں محبوس ہونا آسان نہیں۔ آسمان کے کناروں تک پھیلی ریت سے امید لگانے کےلئے حوصلے کی نہیں،← مزید پڑھیے
دیدہِ تر میں پورے چاند کو لرزتا کس نے دیکھا ہے؟ اس سے زیادہ اداس کردینے والی کیفیت کیا ہو گی کہ انسان کو خود سے شرم آنے لگ جاۓ۔ انسان شرمندہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ خود کو← مزید پڑھیے
کیا کبھی کسی کو نواۓ مرغِ سحری پر کان دھر کر ماں کی یاد آئی ہے؟ عالمِ طفلی میں مکتب کی طرف روانہ کرنے کےلیے بستر سے بیدار کرنے کی کوشش میں ماں کے سر پر پھیرے گئے ہاتھ کہاں← مزید پڑھیے
آسمانوں کو چومنے کا کیا جواز ہو سکتا ہے ! کیا بوسے ثبت کرنے کےلیے رخسارِ دل کافی نہیں؟ خاک نشیں اس عرشِ بریں کے بارے میں اتنے غلطاں کیوں رہتے ہیں جہاں پر قیام ممکن ہی نہیں تھا۔ غلطیاں← مزید پڑھیے
میں اپنی آنکھیں تیرے ہاتھوں پر رکھ آیا ہوں۔ اب ان آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پڑھ لو کہ ان میں کیا لکھا ہے۔ نظریں چار کرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ تم کیا پڑھنا چاہتے ہو۔ کسی← مزید پڑھیے
صبر رشتے جوڑ سکتا ہے۔ بے صبرا انسانوں کی بستی میں نہیں رہ سکتا، اسے تو خدا نے باغِ بہشت میں نہیں رہنے دیا تھا۔ صبر جواب آں غزل ہے جو آسمان سے تیر و نشتر نچھاور کرتے ہوۓ سیدھا← مزید پڑھیے
امکانِ تجدیدِ وفا کی کوئی صورت نکالی جاۓ، مالک سے یوں بے رخی تو حیوان بھی نہیں کرتے۔ یہ طبیعت کی نارسائی ہے یا اذہان کی ابتلا کہ انسان کسی کرم، کسی مہربانی کو خاطرِ پریشاں میں جگہ ہی نہیں← مزید پڑھیے
کچھ نہ کچھ تو ہونا تھا۔تخلیق اپنی وجہ اور وجود سے منکر ہو گئی۔ ارض و سما استعارے اور اشارے بن کر رہ گئے ۔ پہاڑوں کو سر کرنے کی روایت ٹوٹ گئی۔ شہرِذات کی فصیلیں اب تعمیرہونے لگیں۔ نیتیں← مزید پڑھیے
جسم کی حیثیت اس وقت تک ہے جب تک زندہ ہے اور کامل ہے۔ اگر کوئی حصہ جسم سے الگ ہو جاۓ تو پھینکنا پڑتا ہے اور اگر جان جسم سے نکل جاۓ تو دفنانے کی جلدی کرنا پڑتی ہے۔← مزید پڑھیے
گھر کے لان میں مٹی کے برتن میں باجرہ اور دانے رکھے تھے اور ہر طرح کے پرندے طرح طرح کی بولیاں بولتے ہوۓ برتن کے گرد جمع تھے۔ مجھے میری رعونت نے اکسایا کہ میں فخر کروں کہ پرندے← مزید پڑھیے
بڑا نقصان ہو گیا۔ خدا نے وقت کی قسم کھا کر احساس دلایا مگر ہم سیلِ رواں کو روک نہ سکے۔ آبِ رواں پر سوار ملاحوں کا بہتے پانیوں پر اختیار نہیں۔ زمانے کی رفتار کو روکنا تو ممکن نہیں← مزید پڑھیے
جب سب کچھ ہو جاتا ہے، تب کہانی شروع ہوتی ہے۔ داستان کسی کی سمجھ میں آ جاۓ تو وہ خود کہانی کا کردار بن جاتا ہے۔ جن لوگوں میں یہ دم خم نہیں ہوتا کہ وہ کہانی کو آگے← مزید پڑھیے
پھر شاید یہ موقع نہ مل سکے۔ مل گیا ہے تو اسے دل کی دھڑکنوں میں پرو کر چشمِ نم پر بکھر جانے دو۔ لفظ زبان سے نکلتے ہیں تو انہیں اُڑنے دوکہ یہ غنیمت ہے۔ ساعتوں میں ثبات نہیں← مزید پڑھیے
مذہب تو محبت، زہد، ہدایت اور بنیاد کا مخفف ہے۔ مذہب کا فلسفہ نہ سمجھنے والا بت پرست بن جاتا ہے۔ بت پرست کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ خدا سے زیادہ خود کو دیکھتا ہے۔ وہ← مزید پڑھیے