محبس ۔۔ مختار پارس

پہاڑوں پر رہنے والے صحرا میں نہیں رہ پاتے ہیں ۔انہیں وادیوں کی آغوش میں قید اچھی لگتی ہے۔ ریگستان کی وسعت میں محبوس ہونا آسان نہیں۔ آسمان کے کناروں تک پھیلی ریت سے امید لگانے کےلئے حوصلے کی نہیں، سراب کی ضرورت ہوتی ہے ۔ کسی بھی قید سے بچ نکلنے کی جستجو ایک تجسس کے سوا کچھ نہیں ۔ یہ تجسس سوائے حیرتوں کے کچھ نہیں دے سکتا ۔ قفس چاہے کتنا ہی چھوٹا ہو، بڑے سے بڑا انسان اس میں مقیم ہو سکتا ہے کہ اس کی سوچ اس کے زندان کا انتخاب کرتی ہے ۔
قید و بند میں انتخاب کے کوئی معنی نہیں۔ جس سے آنکھیں چار ہو جائیں وہی ہم قفس قرار پاتا ہے ۔ اپنی چار دیواری میں ادھر ادھر بھاگنے کو ہم حیات لکھتے ہیں ۔ نہ کسی میں خواہشات کے ٹوٹنے پر احتجاج کی تاب ہوتی ہے اور نہ نارسائی پر احتجاج کی سکت۔
اگر کوئی شخص اپنے کسی موقف کی وجہ سے محبوس ہے تو قید میں وہ نہیں بلکہ اس کا صیاد ہے۔ انسان کی سوچ کے حصار اس کی طاقت کے نشان ہوتے ہیں۔ خیال اچھے ہوں تو بہت سوں کو برے لگتے ہیں۔ ندرتِ بیاں، جاں بھی لے سکتی ہے مگر جو لفظ بیاں ہو جاتے ہیں، لوحِ محفوظ پر لکھ دیے جاتے ہیں۔ جسم کا کام صرف اتنا ہے کہ وہ اظہار کردے۔ جو دل دیکھ نہیں سکتا اور جو زبان کہہ نہیں سکتی، وہ نہ روح ہے اور نہ جسم۔ جسم قید میں رہ سکتا ہے، قیدِ حیات میں نہیں؛ روح بغیر روشناس کراۓ روانہ نہیں ہو سکتی، کبھی بھی نہیں۔ رازِ حق اسے میسر آتا ہے جو مدار سے نکل جاتا ہے مگر ایسا وہی کر سکتا ہے جس کے پاس طاقتِ گفتار ہو۔
طاقتِ کلام میسر ہو تو انسان خود میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ نرگسیت ناک بھوں چڑھاتے ہوۓ پورے معاشرے کو جیل قرار دے سکتی ہے۔ انسان خود کو بےکس اس لیے قرار دیتا ہے کہ کوئی اسے سمجھتا نہیں۔ اس کی بات تب دل کو لگتی ہے جب وہ فکرِمعاش سے آزاد ہو۔ ایک بھوکے شخص کی بات میں غصے کے سوا کیا ہو سکتا ہے؟ کسی کا نفع یا نقصان کسی کا گریبان پکڑنے پر مجبور کرتا ہے تو بات عالمی نہیں ہو سکتی۔ انفرادی سوچ ایک آہِ فگاں ہوتی ہے جو رات کے اندھیرے میں اٹھتی ہے اور سحر ہونے سے پہلے فنا ہو جاتی ہے۔ اپنی ذات کی سلاخوں سے نکل کر دوسرے لوگوں کی زندگیوں پر پڑے تالے توڑنا آزادی ہے۔
قفل اگر فکر و نظر پر لگ جائیں تو یہ دوامِ انسانیت کےلیے دیمک ثابت ہو سکتے ہیں۔ تاریخ میں جب بھی وقت کی دہائیوں نے کروٹ بدلی ہے، اس کے پیچھے صرف ایک نیا خیال تھا۔ ہزاروں سال پہلے جب زینوفینس نے یونانیوں سے کہا کہ خدا ایک ہے اس کی کسی نے نہ سنی۔ پھر سقراط کو نوجوان نسل کو نئی باتیں بتا کر گمراہ کرنے کے جرم میں زہر پینا پڑا۔ بابل و نینوا کے لوگ پائیتھوگورس سے بہت پہلے جیومیٹری کے اصول جانتے تھے مگر ان کے سچ کو تسلیم ہونے میں ہزار سال لگے۔ ارشمیدس کو جھوٹا کہنے والے ثبوت مانگتے تھے اور جب اس کو ثبوت مل گیا تو پھر اسے کپڑے پہننے کا ہوش نہ رہا۔ وہ اٹھ کر سچ کو ثابت کرنے بھاگا مگر لوگوں نے پھر بھی اس کی ایک نہ سنی۔ ازمنہ قدیم کی مثالیں اس لیے ہیں کہ شاید دور سے دیکھا گیا منظر سمجھ میں آ جاۓ۔ قرب و جوار میں رونما ہونے والی حقیقت نظر نہیں آتی؛ اس پر جہالت اور لاعلمی کے تالے پڑے ہوتے ہیں۔
حراست کی سب سے اندوہناک قسم وہ ہے جب خدا کی زمین کسی پر تنگ ہو جاتی ہے۔ سوچ اگر زمین سے منسلک ہو جاۓ تو نظریات جنم لیتے ہیں اور وہ پاؤں جکڑ لیتے ہیں۔ جغرافیہ کے ذریعے اذہان پر قابو رکھنے والے ایک دن خود سمندر پار جا کر اور جزیروں میں پناہ لے لیتے ہیں مگر تنگ نظری اور بالادستی کا زہر پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔ خدا کی حاکمیت میں انسان کی حدود بہت وسیع ہیں اور ان کو کسی سرحد سے جوڑنا ایک غلطی ہے۔ کوئی کہیں پر ساکت نہیں۔ یہ سوچ کا سفر ہے اور اس سفر میں جسم کی قید میں ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ کوئی قومیت کوئی قامت نہیں رکھتی۔ بقا صرف اس کی ہے جس نے سچ دیکھ لیا۔
قیدیوں کے چہروں پر یقین کی خوشی رقصاں کس نے نہیں دیکھی؟ جو نظم و ضبط کے ساتھ صعوبتیں جھیلتے ہیں، انہیں سزا میں تخفیف کی نوید عطا ہو جاتی ہے۔ درد جب حد سے بڑھتا ہے تو خوابوں میں اشارے ملتے ہیں۔ درد نواز اگر اپنے ہوں تو پھر خدا یوسفؑ بنا دیتا ہے۔ ابراہیمؑ کا نقطہء نظر اس کے والد نے نہ سمجھا مگر اسمعیلؑ نے سمجھ لیا۔ کون کس کا اسیر تھا، یہ فیصلہ صرف وقت نے کیا۔ اسیری سے صرف وہی آزاد ہو سکتا ہے جسے ایامِ محکومی بھی اطاعت پر مجبور نہیں رکھ سکتی۔ ایک یہ خیال پریشان کرتا ہے کہ انسان جب جسم سے آزاد ہوتا ہے تو کیا حکمِ اطاعت سے بھی آزاد ہوتا ہے یا نہیں۔ اگر نۓ جہانِ آب و تاب میں اس سے خوۓ اطاعت نہ ٹوٹی تو وہ اپنی آموختہ آزادی سے آنکھیں کیسے چار کر سکے گا۔
پہاڑوں پر رہنے والوں کی زندگی کٹھن ہوتی ہے مگر پہاڑوں سے ان کی محبت انہیں کہیں اور نہیں جانے دیتی۔ ریگزاروں میں آوازِ جرس کی تان پر چلنے والے قافلے ریت پر چلتے چلتے نہیں تھکتے۔ نئی بات کی کھوج لگانے کا ہنر اور بتانے کی جستجو کو کس کا ڈر اور کیسا خوف؟ یہ دنیا بھی ایک محبس ہے کہ اس دنیا سے بڑا کوئی بندی خانہ نہیں۔روزنِ زنداں سے جو نظر آ سکتا ہے وہی دیکھنے والے کا سچ ہے۔ ضروری نہیں جو نظر آتا ہے وہ حقیقت ہو۔ انسان پر حقیقت اس وقت آشکار ہوتی ہے جب اس کی آنکھیں بند ہو جاتی ہیں۔ بند آنکھوں سے تلاش کے پیچھے ایک یقین ہوتا ہے۔یقین بھی ایک محبت ہے اور محبت بھی ایک محبس ہے۔ ہر محبس سے نکلنے کا راستہ کچھ اور محبت ہے۔

Facebook Comments

مختار پارس
مقرر، محقق اور مصنف، مختار پارس کا تعلق صوفیاء کی سر زمین ملتان سے ھے۔ ایک عرصہ تک انگریزی ادب کے استاد رھے۔ چند سال پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک کرنٹ افیئرز کے پروگرام کی میزبانی بھی کی ۔ اردو ادب میں انشائیہ نگار کی حیثیت سے متعارف ھوئے ۔ان کی دو کتابیں 'مختار نامہ' اور 'زمین زاد کی واپسی' شائع ہو چکی ھیں۔ ادب میں ان کو ڈاکٹر وزیر آغا، مختار مسعود اور اشفاق احمد جیسی شخصیات سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ٹوئٹر پر ان سے ملاقات MukhtarParas@ پر ھو سکتی ھے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply