• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • مسئلہ فلسطین – آخر یہ معاملہ ہے کیا؟( دوسرا ،آخری حصّہ)۔۔ غیور شاہ ترمذی

مسئلہ فلسطین – آخر یہ معاملہ ہے کیا؟( دوسرا ،آخری حصّہ)۔۔ غیور شاہ ترمذی

اگلے سال اسرائیل کی جانب سے شمعون پیریز اور پی ایل او کی طرف سے محمود عباس نے معاہدہ اوسلو پر دستخط کیے جس کے مطابق فلسطینی نیشنل اتھارٹی کو مغربی کنارے اور غزہ کی پیٹی کے انتظامی اختیارات دئیے گئے۔ پی ایل او نے اسرائیل کے وجود کو تسلیم کیا اور دہشت گردی کے خاتمے پر اتفاق کیا۔ یہ معاہدہ درحقیقت امریکہ کے دو ریاستی منصوبہ کا بیانیہ تھا۔ اس معاہدہ کے بعد ہی پی ایل او نے اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم کیا اور اسرائیل نے فلسطینی اتھارٹی (حکومت) کو۔ اوسلو معاہدہ کے تحت دونوں فریقین یعنی اسرائیل اور فلسطین کو سنہ 1995ء میں دوبارہ مذاکرات کی میئر پر بیٹھنا تھا اور یہ بیٹھے بھی۔ تب تک حماس بھی اس معاہدہ کے تحت بننے والے فلسطینی سیٹ اپ کا حصہ تھی۔ اوسلو معاہدہ کی روح یہ تھی کہ اسرائیل اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق سنہ 1967ء کی جنگ کے دوران ہتھیائے گئے علاقوں سے دستبردار ہوکر اپنی سابقہ پوزیشن پر چلا جائے گا۔ اگر اسرائیل اس معاہدہ پر اس کی روح کے مطابق عمل کرتا تو مشرقی یروشلم فلسطینی اتھارٹی کے زیراختیار آ جاتا۔ ایسا ہوتا تو تنازعہ ہی ختم ہوجاتا لیکن پھر یہ ہوا کہ ادھر شدت پسند یہودی اوسلو معاہدہ کے مخالف ہوئے تو دوسری طرف حماس اور اسلامی جہاد نامی تنظیمیں اس معاہدہ کے خلاف ہوگئیں۔ اسرائیل کی جانب سے آباد کاری کا جاری رہنا، چیک پوائنٹس قائم رہنا اور معاشی حالات کا ابتر ہونے کی وجہ سے عرب عوام میں اسرائیل مخالف جذبات ابھرے۔ فلسطینیوں نے انہی جذبات کے تحت حماس کے زیر سایہ اسرائیل میں خود کش حملے شروع کر دئیے تو اسرائیلی عوام میں اس معاہدے کے خلاف جذبات بھڑک اٹھے۔ آخر کار نومبر سنہ 1995ء میں ایک امن ریلی کے اختتام پر وزیراعظم اضحاک رابن کو ایک انتہائی دائیں بازو کے خیالات رکھنے والے یہودی نے قتل کر دیا تو دوسری طرف پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات کی موت کو بھی تابکاری مادہ پلونیم کے ذریعہ زہرخوانی کی وجہ بتایا جاتا ہے۔ اس زہرخوانی کے ذریعہ قتل کا الزام یاسر عرفات کی مسیحی بیوہ سہا عرفات پر بھی ہے اور جوابی طور پر سہا عرفات اس قتل کا الزام موجودہ فلسطینی صدر محمود عباس کے دفتری منتظم ابوعمارہ پر لگاتی ہیں۔

سنہ 1990ء کی دہائی کے آخر پر اسرائیل وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو کی زیر قیادت اپنے زیر قبضہ علاقہ ہیبرون سے نکل گیا اور ایک معاہدے کے تحت فلسطینی نیشنل اتھارٹی کو زیادہ اختیارات دئیے۔ سنہ 1999ء میں ایہود باراک کو وزیرِ اعظم چنا گیا اور نئے ملینیم کے آغاز پر اسرائیلی افواج جنوبی لبنان سے بھی نکل گئیں۔ اس کے بعد اتھارٹی کے چیئرمین یاسر عرفات اور ایہود باراک کے درمیان میں امریکی صدر بل کلنٹن کے کیمپ ڈیوڈ میں باہمی مذاکرات ہوئے۔ ان مذاکرات میں ایہود باراک نے فلسطینی ریاست کے قیام کی پیشکش کی جسے یاسر عرفات نے ٹھکرا دیا۔ مذاکرات کے ناکام ہونے پر اور لیکوڈ پارٹی کے ایریل شیرون کی جانب سے الحرم الشریف کے متنازع دورے کے بعد یاسر عرفات نے دوسرے انتفادہ کا آغاز کر دیا۔ سنہ 2001ء کے خصوصی انتخابات کے بعد شیرون وزیر اعظم بنے اور انہوں نے غزہ کی پٹی سے یک طرفہ انخلا مکمل کیا اور اسرائیلی مغربی کنارے کی رکاوٹوں کی تعمیر جاری رکھی اور یاسر عرفات کی شروع کی ہوئی دوسری انتفادہ دوئم کو عملا” بے اثر کر دیا۔ جولائی 2006ء میں حزب اللہ نے شمالی اسرائیل پر بمباری کی اور سرحد عبور کر کے 2 اسرائیلی فوجی اغوا کر لئے۔ نتیجتاً ایک مہینہ لمبی دوسری لبنان کی جنگ شروع ہوئی۔ اس کے بعد 6 ستمبر 2007ء کو اسرائیلی فضائیہ نے شام کے نیوکلئیر ری ایکٹر کو تباہ کر دیا تو عرصہ دراز سے خاموش شام نے حزب اللہ اور حماس سے اپنے جغرافیائی اور مالی و عسکری تعاون کو مزید تیز اور مضبوط کر دیا۔

سنہ 2008ء میں اسرائیل نے تصدیق کی کہ وہ ترکی کے ذریعے ایک سال سے شام سے امن کی بات چیت کر رہا ہے۔ تاہم اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ بندی کا معاہدہ ختم ہوتے ہی ایک اور لڑائی شروع ہو گئی۔ غزہ کی جنگ تین ہفتے جاری رہی اور پھر اسرائیل کی جانب سے یک طرفہ جنگ بندی ہو گئی۔ حماس نے اپنی جانب سے جنگ بندی کا اعلان کیا اور شرائط میں مکمل فوجی انخلا اور سرحد کو کھولنا شامل کیا۔ اس معاہدہ پر حماس کی جانب سے راکٹ حملوں اور اسرائیل کی طرف سے فوجی کارروائیوں کے باوجود جنگ بندی کا سلسلہ چل رہا تھا۔ فلسطینیوں کی طرف سے 100 سے زیادہ راکٹ حملوں کے بعد اسرائیل نے 14 نومبر 2012ء کو غزہ پر فوجی کارروائی کی جو 8 روز تک جاری رہی۔

تب سے اب تک فلسطین 2 حصوں میں تقسیم ہے۔ غزہ جہاں حماس کی حکومت ہے اور مغربی کنارہ جہاں فلسطین نیشنل اتھارٹی یعنی محمود عباس کی حکومت ہے۔ یاسر عرفات کے بعد غزہ اور مغربی کنارہ والے فلسطینی حصوں کی آپس میں کبھی نہیں بنتی۔ دنیا بھر میں ویسٹ بنک یعنی مغربی کنارہ والی محمود عباس کی فلسطین نیشنل اتھارٹی کی حکومت کو ہی فلسطین کی اصل اتھارٹی سمجھا جاتا ہے۔ حماس کے نظریات سلفی یعنی سخت گیر مسلم نظریات ہیں جبکہ فلسطین نیشنل اتھارٹی کو لبرل اور سیکولر پارٹی سمجھا جاتا ہے جس میں فلسطینی مسلمانوں کے علاوہ عیسائی اور یہودی بھی شامل ہیں۔

حماس اور اسرائیل کے درمیان حالیہ جنگ جمعۃ الوداع کے دن سے شروع ہوئی۔ یہ موجودہ مسئلہ بھی اسرائیل کے زیر قبضہ علاقہ مشرقی یروشلم میں شروع ہوا جب وہاں کے ایک محلے شیخ جراح میں نصف صدی سے آباد فلسطینی خاندانوں کو بے گھر کر کے اُن کے گھر اسرائیلی سیٹلرز کو دیئے گئے۔ صیہونی رائٹ ونگ جتھوں نے یروشلم کے اس حصہ میں آباد فلسطینیوں کو ہراساں اور ان پر تشدد کرنا شروع کر دیا۔ اسرائیلی فورسز نے مسجد اقصی میں داخل ہو کر فلسطینیوں پر ربڑ کی گولیاں اور ڈنڈے چلائے جس سے سینکڑوں فلسطینی زخمی ہوئے۔ یہ ساری کارروائی مغربی کنارے کے آس پاس علاقہ میں ہو رہی تھی جہاں پی ایل او کی حکومت ہے اور اس کا حماس کے زیر حکومت علاقہ غزہ سے دور دور تک کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ لیکن فلسطینیوں پر اس اسرائیلی تشدد کے رد عمل میں حماس نے غزہ سے تل ابیب کی جانب 500 راکٹ راکٹ فائر کئے جن میں 9 اسرائیلی اور ایک بھارتی سیاح خاتون کے مارے جانے کی اطلاع ہے۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ پر درجنوں فضائی حملے کئے، ایک 13 منزلہ عمارت کو بھی نشانہ بنایا جس میں 29 فلسطینی مارے گئے، کئی زخمی ہوئے۔ اس اسرائیلی بمباری کے نتیجہ میں تادم تحریر 220 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں 27 بچے بھی شامل ہیں۔ اسرائیلی طیاروں اور توپوں کی بمباری سے غزہ کے کھنڈرات میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

فلسطینی مزاحمت کی طرف سے فائر کئے گئے راکٹوں کا مقابلہ کرنے کے لئے اسرائیلی فضائی دفاعی نظام آئرن ڈوم سے Tamir interceptor missile نکلتے ہیں۔ فلسطینی مزاحمت کے ایک راکٹ کے مقابلے میں اوسطاً اسرائیل کو کم از کم دو ٹامیر میزائل چھوڑنا پڑتے ہیں۔ آئرن ڈوم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ 70 کلومیٹر تک کے فاصلے سے فائر ہونے والے شارٹ رینج راکٹس اور آرٹلری گولے روکنے کے لئے ڈیزائن کیا گیا یہ ایک معمولی ڈیفنس سسٹم ہے جسے ایک بلین ڈالر سے زیادہ کی لاگت سے اسرائیلی ڈیفنس ٹیکنالوجی کمپنی نے تیار کیا ہے۔ اس سسٹم کی تیاری کے تمام اخراجات امریکہ نے برداشت کئے تھے اور یہ بجٹ اوباما انتظامیہ میں ہی منظور اور اسی دور میں اسرائیلی حکومت کو امریکہ کی طرف سے ادا کیا گیا تھا۔ اسرائیل نے سنہ 2011ء اور سنہ 2012ء کی غزہ پر جارحیت کے دوران پہلی بار آئرن ڈوم ائر ڈیفنس سسٹم کو استعمال کیا تھا۔

آئرن ڈوم کی کارکردگی کے حوالے سے جنگی ساز و سامان کے ماہرین میں کئی طرح کی آراء پائی جاتی ہیں۔ اسرائیلی حکومت کے مطابق آئرن ڈوم شارٹ رینج راکٹس اور گولوں کے خلاف 75 سے 85 فیصد تک کامیاب ہے لیکن غیر جانبدار ماہرین کہتے ہیں آئرن ڈوم بمشکل 30 سے 35 فیصد کارکردگی کا حامل ہے۔ قطع نظر اس کے کہ آئرن ڈوم کی موجودہ کامیابی کا تناسب کیا ہے یہ جاننا ضروری ہے کہ آئرن ڈوم ائر ڈیفنس نظام اس وقت تک اپنی ابتدائی شکل میں ہے جو 4 کلومیٹر سے 70 کلومیٹر کے فاصلے سے فائر کئے گئے شارٹ رینج راکٹس اور گولوں کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے یعنی اگر 4 کلومیٹر سے کم فاصلے یا 70 کلومیٹر سے زیادہ فاصلے سے کوئی معمولی راکٹ یا گولہ بھی فائر کیا جائے گا تو آئرن ڈوم اسے روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ نیز اگر طویل رینج کے راکٹس یا جدید گائیڈڈ میزائل حتی عام میزائلوں کو کسی بھی فاصلے سے روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر فلسطینی مزاحمت جدید میزائلوں یا راکٹس سے مسلح ہو جائے تو آئرن ڈوم ائر ڈیفنس سسٹم موجودہ شکل میں اسرائیل کی کوئی مدد نہیں کر سکے گا۔ یہ سسٹم صرف اسی وقت کارآمد ہو گا جب اسرائیل اسے اپ گریڈ کرے جس کے اخراجات اور درکار وقت بہرحال اس وقت عین حالت جنگ میں اسرائیل کے پاس نہیں ہے۔ فلسطین نواز حلقوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل معاشی طور پر ایسی پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ خود سے کئی ارب ڈالرز اس ڈیفنس سسٹم کو اپ گریڈ کرنے پر خرچ کرے مگر یہ کہ دوبارہ امریکہ اس مد میں اسرائیل کی مدد کرے۔ دوسری طرف امریکی معیشت کے بارے میں باخبر احباب جانتے ہیں کہ وہ خود خاصے شدید دباؤ کا شکار ہے جس کی ایک وجہ امریکی معیشت کو درپیش چینی معیشت کا چیلنج ہے۔

آئرن ڈوم کے حوالے سے دوسری اہم بات یہ کہ آئرن ڈوم سے لانچ ہونے والے ایک ٹامیر میزائل کی لاگت 10 ہزار ڈالر سے 15 ہزار ڈالر تک ہے جبکہ فلسطینی مزاحمت جو راکٹ فائر کر رہی ہے وہ بمشکل 1،000 ڈالر سے 1،500 ڈالر تک لاگت کا ہے۔ اگر مزاحمت کے ہر ایک راکٹ کو روکنے کے لئے اسرائیل کو دو ٹامیر میزائل چھوڑنے پڑیں تو یعنی 1000 ڈالر کے بدلے میں اسرائیل کے کم از کم 20،000 ڈالر خرچ ہوں گے۔ لہذا اسرائیلی جارحیت جتنا زیادہ جاری رہے گی اور فلسطینی مزاحمت اس کا جواب دے گی اتنا ہی زیادہ اسرائیل پر معاشی دباؤ بڑھتا جائے گا۔ آئرن ڈوم کے حوالے سے ماہرین کی یہ رائے بھی ہے کہ اس کی بیٹریز ایک مخصوص کیپسیٹی (گنجائیش) سے زیادہ مزاحمت کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔ حتیٰ کہ بعض اوقات اس کے خودبخود فعال ہوجانے کی وجہ سے آئرن ڈوم سے لانچ شدہ میزائل آپس میں بھی ٹکرانے لگتے ہیں۔

آئرن ڈوم میزائلوں کے ذخیرے کے بارے میں بھی ہمیشہ شکوک موجود رہے ہیں کہ اسرائیل کے پاس ان میزائلوں کا کتنا ذخیرہ ہے اور وہ بھی اس وقت کہ جب اسے ایک فلسطینی راکٹ کے مقابلے میں دو یا تین ٹامیر میزائل چھوڑنے پڑتے ہیں۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ سنہ 2014ء کی جارحیت میں اسرائیل کی طرف سے جنگ بندی کی درخواستوں کی ایک وجہ آئرن ڈوم کے میزائل ذخیرے کا ختم ہو جانا تھا۔ اگر یہ بات درست ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسرائیل جنگی یا دفاعی اعتبار سے اب اتنا مضبوط نہیں رہا البتہ اس کا پروپیگنڈا بہت طاقت ور ہے جس کے ذریعے وہ ایک افسانوی فوجی طاقت نظر آتا ہے۔

اسرائیل سے 4 ممالک کی سرحدیں ملتی ہیں۔ اُردن، شام، لبنان اور مصر۔ ان میں اُردن کی آبادی تریسٹھ (63) لاکھ، شام کی آبادی 2 کروڑ چوبیس (24) لاکھ۔ لبنان کی آبادی چوالیس (44) لاکھ۔
اور مصر کی آبادی آٹھ (8) کروڑ پینتالیس (45) لاکھ ہے۔ حماس کے زیر حکومت علاقہ غزہ سے صرف مصر کی کُل 12 کلومیٹر طویل سرحد ملتی ہے، جہاں جنرل سیسی کی حکومت ہے۔ یاد رکھیے گا یہ وہی جنرل سیسی ہیں جن کو اقتدار سنبھالتے (قبضہ کرتے) ہی ہمارے مقدّس و محترم سعودی عرب نے اربوں ڈالرز کی امداد دی تھی۔ اس کے علاوہ غزہ میں داخلے کا کوئی زمینی راستہ نہیں ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق یہ 12 کلومیٹر بھی سیل کئے جا چکے ہیں۔ گویا غزہ والوں کے پاس سوائے مرنے یا ڈٹ کر لڑنے کے کوئی راستہ اب باقی نہیں بچا۔ اس وقت تک عالمی برادری بھی خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے اور خدشہ ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان اس جنگ سے ہزاروں بے گناہ لوگ بھی مارے جائیں گے۔

اسرائیل اور فلسطین کا مسئلہ اسلام اور یہودیت کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ فلسطینیوں اور یورپی سیٹلرز کا علاقائی تنازعہ ہے جس میں عرب عیسائی بھی فلسطین کے ساتھ ہیں۔ دوسری طرف متحدہ عرب امارات اور سعودیہ سمیت کئی مسلمان حکومتیں چھپ چھپا کر اور مصر کھلم کھلا اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ مثال کے طور پر پی ایل او کا بانی جارج حباش ایک کرسچن تھا۔ اکیڈمکس میں فلسطین کے مسئلہ پر سب سے تواناں آواز ایڈورڈ سعید کی تھی جو کرسچین تھے۔ نوم چومسکی اور نارمن فنکلسٹائن جنہوں نے ساری عمر فلسطین کاز کو سپورٹ کیا، دونوں یہودی ہیں۔ آرتھوڈوکس یہودیوں کی بڑی تعداد بھی اسرائیل کو سپورٹ نہیں کرتی۔ برطانوی پارلیمنٹ میں فلسطین کا سب سے بڑا حامی جارج گیلووے کرسچن ہے۔ یہ یہودی اور کرسچن جو فلسطین کاز کے حامی ہیں، اُن تمام اسرائیل نواز مسلمان لیڈروں، صحافیوں وغیرہ سے کہیں افضل ہیں جنہوں نے ہمیشہ سامراج کا ساتھ دیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ فلسطینی حریت پسند اس معاملہ کو یہودیت بمقابلہ اسلام جیسا مذہبی جہاد بنانے کی بجائے اسے اسرائیل بمقابلہ فلسطین جیسے علاقائی تنازعہ تک ہی محدود رکھیں تاکہ اس وقت فلسطینی آزادی پسندوں کو دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی حمایت حاصل ہے وہ ملتی رہے۔ آج پورا یورپ فلسطین کے لئے اٹھ کھڑا ہوا ہے اور وہاں کے لوگ اسرائیل کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں لیکن اگر فلسطینی حریت پسند اسے مذہبی جہاد بنانے کی روش پر قائم رہیں گے تو پھر وہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی حمایت تیزی سے کھوتے جائیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply