یہ کاجل نہیں کالک ہے۔۔محمد منیب خان

قوموں کے عروج کے پیچھے بہت سے محرکات ہوتے ہیں، بہت سے عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔  قومیں اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتی ہیں ،کوتاہیوں کو دہرانے سے گریز کرتی ہیں۔ اچھے بُرے تجربات کی روشنی میں قوموں کا اجتماعی شعور پروان چڑھتا ہے اور کسی مقام پہ پہنچ کر یہ شعور قوموں کو سکھاتا ہے کہ انہوں نے تعصب سے بالاتر ہونا ہے۔ یہ تعصبات فکری بھی ہو سکتے ہیں، مسلکی بھی،سیاسی، گروہی اور لسانی بھی۔ تعصبات سے جان چھڑوانے سے معاشرے اپنے عروج کا سفر جلد طے کر لیتے ہیں۔ متعصب سوچ اورفکر فرد اور قوم دونوں ہی کی ترقی کا سفر نہ صرف روک دیتی ہیں بلکہ ترقی کے سفر کو تنزلی کے سفر میں بدل دیتی ہیں۔

فکری افلاس ایک دن کی پیداوار نہیں یہ برسوں کی نااہلی کا ثمر ہوتا ہے اور سب سے تکلیف دہ بات یہ ہوتی ہے کہ بسا اوقات بظاہرفکری افلاس کو ختم کرنے والے بھی “مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی” کے مصداق اس میں اضافہ ہی کرتے چلے جا رہوں۔ مسیحامرض سے بچنے کے لیے مستقبل کا تو پرہیز بتا سکتا ہے لیکن ماضی میں نہ کیا  گیا پرہیز  کا طعنہ دینا، مریض کی ذہنی پختگی کوکمزوری میں بدل سکتا ہے۔ فکری جمود کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ لوگ غلط کو غلط کہیں اور درست کو درست۔ وہ کسی غلطشخص کے درست کہے کو رد نہ کریں اور کسی درست شخص کے غلط کہے کو قبول عام نہ بخشیں۔ وہ اخلاقیات کی ایک موٹی لکیرکھینچیں اور اس سے نیچے گرنے والے کو یکسر مسترد کر دیں۔

اکیسویں صدی کی دوسری دہائی سے ملکی سیاست میں وہ گرما گرمی لوٹ آئی ہے جو ملک میں نوے کی سیاست کا خاصہ تھا۔نوے کی سیاسی مخالفین کے لیے کیا کچھ نہ کہا گیا۔ سیاسی جلسوں میں ایسی ایسی زبان استعمال  ہوئی کہ ساری زندگی سیاستدان اس کالک سے اپنے داغ نہ دھو سکے۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ ہم آج بھی  اس کالک سے  اپنا منہ اور دامن سیاہ کیےہوئے ہیں۔ ہم آج بھی بخوشی اس کیچڑ کا حصہ ہیں۔ ہم آج بھی اس سیاہی کو کاجل سمجھ رہے ہیں لیکن یہ کالک سیاہی ہی ہے جوہماری قوم کے فکر و شعور پہ ملی جارہی ہے۔

دماغ اور سوچ  پہ جب کالک ملی جا چکی ہو تو آنکھوں سے صرف سیاہی ہی نظر آئے گی۔ ان سیاہ دماغوں کے درمیان بس چمکتے دانت نظرآتےگے۔ یہ چمکتے دانت کبھی خواجہ آصف کی غیر معیاری زبان پہ باہر نکلیں گے اور کبھی بلاول بھٹو کی کسی نامناسب بات پہ،ایسے ہی دانت آپکو عمران خان کے سیاہ لب و لہجے کے بعد داد کی صورت میں بھی نکلتے نظر آئیں گے۔ اور حیرت کی بات ہے کہ سیاہ دماغوں اور چمکتے دانتوں والی مخلوق آپس میں دست و گریباں ہے کہ فلاں نے فلاں تاریخ کو یہ غیر مناسب لفظ بولا۔

یہ ممکن ہے کہ آسیب پیچھا چھوڑ دے لیکن فکری افلاس اور عصبیت جس قوم میں رچ بس جائیں، ان سے پیچھے چھڑانے کے لیے الگ سے ایک جدوجہد کرنا پڑتی ہے ہماری قوم فی الحال اس موڈ میں نہیں۔ اور جب تک یہ سیاہی نہیں چھٹے گی ملک کہیں آگے نہیں جانے والا۔ اگر نوے کی دہائی کے بولے گئے الفاظ آج تک نواز شریف کا پیچھا نہیں چھوڑ رہے تو عمران خان کا لب لہجہ بھی قوم  کی اجتماعی نفسیات پہ اگلے تیس سال تک اثر انداز ہوگا۔ اس کے نتیجے کے طور پہ ہم جو سیاسی سفر طے کریں گے وہ ایک کاجل گھرسے دوسرے کاجل گھر تک کا ہوگا۔

فیصلہ قوم نے کرنا ہے کہ اس نے سیاہ لفظوں اور سیاہ خیالات پہ دانت نکالنے ہیں یا دانت پیسنے ہیں۔  آج ایسی باتوں اور ایسےنعروں پہ دانت نکالنے کی روایت ہمیں مزید پیچھے دھکیل دے گی۔ ویسے بھی ہم ان کرداروں اور اس کردار کے ساتھ آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ہمیں ان کرداروں سے پیچھا چھڑوانا ہوگا ہمیں لفظوں کی سیاہی کو دھونا ہوگا، فکری کالک کو علمی کاجل بنانا ہوگا۔ اس سب کے لیے کیا اصول بنایا جائے؟ اصول تو ہمیں بنانے کی عادت ہی نہیں۔ ویسے تعصبات اصولوں کی راہ میں رکاوٹ ہوتے ہیں۔ اپنےتعصبات کو پہچانیں،  ان سے چھٹکارا پائیں اصول خود بخود واضح ہو جائیں گے۔ ورنہ اگلی تین نسلیں اسی فکری افلاس کی نظر ہوجائیں گی اور پاکستانی پاکستانی سے کٹ جائے گا۔ خالد احمد مرحوم کا شعر یاد آیا ہے اسی پہ اختتام کرتا ہوں۔

پھول سے باس جدا فکر سے احساس جدا

Advertisements
julia rana solicitors

فرد سے ٹوٹ گئے فرد قبیلے نہ رہے

Facebook Comments

محمد منیب خان
میرا قلم نہیں کاسہء کسی سبک سر کا، جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے۔ (فراز)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply