“بھٹوز اور افواہ سازی کے کارخانے”/عامر حسینی

ایرک سپرین ڈیلی پاکستان آبزور میں “آور پنچ” کے عنوان سے کالم لکھتے تھے ۔ اُن کے ایک کالم کا عنوان تھا:
“Bhuttos and the Rumor Mills”
یہ کالم انھوں نے 10 دسمبر 1993ء کو لکھا تھا جب پی پی پی کو اقتدار میں آئے 51 دن ہوئے تھے اور اُس کی قومی اسمبلی میں اپنی نشستیں 89 تھیں اور اس نے اتحادی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کو ساتھ ملاکر 121 ووٹوں سے سادہ اکثریت کے ساتھ حکومت بنائی تھی ۔ جس دن یہ حکومت بنی تھی اُسی دن ایڈیٹر ویکلی فرائیڈے ٹائمز نجم سیٹھی نے واشنگٹن پوسٹ سے گفتگو کرتے ہوئے بیان دیا تھا کہ یہ حکومت ناکام ہوئی تب مارشل لاء آنے سے کوئی روک نہیں سکے گا ( حالانکہ محض ساڑھے تین سال بعد جب فاروق لغاری نے اسمبلی توڑی اور 1970ء کے بعد تاریخ کے بدترین انجینئرڈ  الیکشن کرائے اور پی پی پی کو مشکل سے 18 نشستیں جیتنے دی گئیں اور نواز شریف کو دو تہائی اکثریت دلوائی گئی, آزاد اور اقلیتی ممبران اور ایم کیو ایم سے مل کر نواز لیگ 137 سے 177 ووٹ لیکر حکومت بناگئی اور یورپی یونین سمیت عالمی مبصرین نے 1997ء کے عام انتخابات کو آزاد اور شفاف الیکشن قرار دینے سے انکار کیا اور تاریخ کی بدترین دھاندلی کی گئی ۔

1990 کے عام انتخابات کو بھی غیر ملکی مبصرین اور یورپی یونین نے غیرمنصفانہ اور غیر شفاف انتخابات قرار دیا تھا جبکہ 1993ء کے انتخابات کو منصفانہ اور شفاف قرار دیا گیا تھا۔ نواز شریف 1990ء اور 1997ء میں سلیکٹڈ وزیر اعظم تھے ۔ بہرحال نجم سیٹھی کی خواہش کو شہید بی بی نے اس وقت غلط ثابت کردیا جب شہید بی بی نے بدترین دھاندلی کے باوجود احتجاجی تحریک چلانے سے انکار کیا اور اسمبلی میں 18 نشستوں کے ساتھ اپوزیشن کرنے کو ترجیح دی اور مارشل لاء کا راستا روکا مگر نواز شریف نے محاز آرائی کے ناقابل واپسی راستے پر سفر کرتے ہوئے مختصر سی اپوزیشن کو کچلا اور شہید بی بی کو جلاوطن ہونے پر مجبور کیا اور پھر فوج، عدلیہ سے لڑکر مارشل لاء لگوالیا جو فوج شاید 97ء میں ہی لگا دیتی اگر بے نظیر بھٹو اپوزیشن بنچز پر بیٹھنے کا فیصلہ نہ کرتیں)

1993ء کی الیکشن کمپئن کے دوران میاں محمد نواز شریف نے پی پی پی اور بھٹوز کے خلاف بدترین میڈیا پروپیگنڈے کا انتظام کیا ۔ اس پروپیگنڈے میں خاص فوکس آصف علی زرداری تھے۔ اُس زمانے میں پرنٹ میڈیا میں دو بڑے میڈیا گروپوں کے Zریعے میاں نواز شریف نے پی پی پی اور بھٹوز کے خلاف افواہ سازی کی ۔ نوائے وقت میڈیا گروپ اور جنگ /نیوز میڈیا گروپ اس پروپیگنڈے میں سب سے آگے تھے ۔

خاص طور پر میاں محمد نواز شریف نے جنگ/نیوز کے انویسٹی گیشن ایڈیٹر اور دا نیوز انٹیلی جنس ڈیسک کے انچارج کامران خان کو یہ مہم سونپی ۔ کامران خان کی قیادت میں مسلم لیگ نواز کا میڈیا سیل کام کررہا تھا اور افواہ سازی کے کارخانوں میں درجنوں افواہوں کو تحقیقاتی رپورٹوں کے نام سے نا  صرف جنگ اور دا نیوز انٹرنیشنل میں شائع کیا جاتا بلکہ انھیں نوائے وقت /دا نیشن اور پھر ڈیلی ڈان تک میں فرنٹ پیج پر شائع کیا جاتا تھا۔ کامران خان وہ صحافی تھے جنھوں نے آصف علی زرداری کو مسٹر ٹین پرسنٹ کا خطاب دیا۔

نواز شریف نے الیکشن مہم کے دوران اور الیکشن کے بعد پی پی پی کی حکومت بن جانے کے بعد بھٹو خاندان میں میر مرتضٰی بھٹو لیکر بیگم نصرت بھٹو کے بے نظیر بھٹو سے ہونے والے اختلاف کو خوب ایکسپلائٹ کیا ۔ بیگم نصرت بھٹو میر مرتضیٰ بھٹو کی لاڑکانہ سے الیکشن کمپئن چلارہی تھیں اُن سے ایک من گھرٹ بیان چلایا گیا کہ اگر میر مرتضٰی بھٹو کو الیکشن میں شکست ہوئی تو بیگم نصرت بھٹو خود کُشی کرلیں گی ۔ انھی دنوں اخبارات میں بے نظیر بھٹو کے بیڈروم کو لیکر یہ خبریں بھی چلائی گئیں کہ بیگم نصرت بھٹو کا کہنا ہے کہ آصف علی زرداری بے نظیر بھٹو کو مارتے پیٹتے ہیں اور ایک بار بے نظیر بھٹو کو بیڈروم میں زرداری کے ہاتھوں مار کھاتے ہوئے بیگم بھٹو نے خود دیکھا ۔ یہ پروپیگنڈا بھی خبروں کی صورت میں شائع کیا گیا کہ بے نظیر بھٹو نے آصف علی زرداری کے کہنے پر بیگم نصرت بھٹو مجبوراً چیئرپرسن کے عہدے سے ہٹایا اور بے نظیر بھٹو نام کی چیئرپرسن ہیں اصل کنٹرول تو پی پی پی پر آصف زرداری کا ہے ۔ یہ بھی کہا گیا کہ بے نظیر بھٹو آصف زرداری سے شادی کے بعد بھٹو نہیں زرداری ہوگئی ہیں اس لیے پارٹی کی قیادت اور بھٹو کا جانشین اُن کا بیٹا میر مرتضٰی بھٹو ہی بنتا ہے ۔

نواز شریف کا کیمپ اخبارات میں پروپیگنڈے کے ذریعے پی پی پی اور بھٹو کے سیاسی ورثے کا وارث کون ہوگا؟ کو طے کرنے کا معاملہ اپنا حق قرار دے رہا تھا۔ مسلم لیگ نواز میں شامل ہونے والے اور پی پی پی کو چھوڑ جانے والے حاجی محمد نواز کھوکھر نے بیگم نصرت بھٹو کو اپنی قانونی خدمات تک پیش کیں کہ وہ انھیں عدالت کے زریعے سے پی پی پی کی چیئرپرسن کا عہدہ واپس دلائیں گے ۔ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف نواز شریف نے افواہ سازی کے متعدد کارخانے قائم کیے ۔ ان کارخانوں کو انگریزی اور اردو پرنٹ میڈیا کے مشہور معروف صحافی، کالم نگار، تجزیہ نگار چلارہے تھے ۔ کامران خان، شاہین صہبائی، ضیاء شاہد سمیت اُس زمانے کے سب ہی معروف صحافیوں کے پاس تحقیقاتی رپورٹنگ کے نام پر روز ایک نئی کہانی سُنانے کو موجود ہوتی تھی ۔
ایرک سپرین نے پریس اور ڈرائنگ رومز میں بھٹوز اور آصف علی زرداری کے خلاف تیار ہونے والی ان افواہوں کے خلاف ایک پورا کالم لکھا اور بتایا کہ کیسے کیسے گھٹیا الزامات بنا کسی ثبوت کے ان کے خلاف گھڑے گئے اور انھیں سچ کے طور پر مان لیا گیا ۔
So sucessful our rumor manufacturers and there salesmen that we were able to export these stories to foreign Press which cooperated with us to give wide international currency to rumors of Pakistan origin. It did not matter to the rumor manufacturers that not one of their stories could be proved in a court of law.
ایرک سپرین نے اُن افواہوں کی لیڈنگ فیکٹریوں کا مقام کراچی بتایا تھا۔ (کراچی میں اُن دنوں ان افواہوں کا لیڈنگ خالق کامران خَان تھا)
ایرک سپرین نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ سب سے بڑی افواہ یہ تھی کہ پیپلزپارٹی ٹوٹ جائے گی، بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری گمنام ہوجائیں گے اور اصل پیپلزپارٹی وہ ہوگی جس کی قیادت میر مرتضیٰ بھٹو کریں گے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایرک سپرین جب یہ کالم لکھ رہے تھے تو بقول اُن کے اُس وقت لیڈنگ افواہ یہ تھی کہ بے نظیر بھٹو کے پاس حکومت کرنے کے لیے اپنے خیالات اور پالیسیاں نہیں تھیں بلکہ وہ میاں نواز شریف کی نقل کر رہی تھیں ۔
ایرک سپرین کے کالم کا اختتام ان فقروں پر ہوا
When the 1st two months of the Benazir government produced such a large number of rumors one can imagine the flood of rumors that will sweep across the country within a few months.
ایرک سپرین کی لکھی باتیں پیغمبرانہ پیشن گوئی ثابت ہوئیں۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply