• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • نئے عزم سے آگے بڑھتا پاکستان۔۔۔طاہر یاسین طاہر

نئے عزم سے آگے بڑھتا پاکستان۔۔۔طاہر یاسین طاہر

قوموں کو ترقی اور علمی و معاشی برتری کے لیے لیڈر شپ کے سوا یکسوئی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔قائد اعظم جیسا رہنما کوئی دوسرا نہیں ہو گا۔ بھٹو آئے مگر اپنے سیاسی اور صوبائی تعصبات کو ساتھ لے کر چلے۔ مخالفین پر عرصہ حیات تنگ کیا،لیکن یہ بھٹو کی ناکامی کی اولین وجہ نہیں دیگر وجوھات بھی ہیں جو بھٹو جیسے زیرک سیاستدان کو تختہ دار تک لے گئیں۔بھٹو نے ٹوٹے ہوئےپاکستان کو یکجا و یکجان کرنے میں اپنی صلاحیتیں صرف کیں ،اور قوم کے گرتے ہوئے مورال کو بلند کیا۔یہ تاریخی حقیقت ہے جس سے جان نہیں چھڑائی جا سکتی۔بھٹو کے بعد پاکستان نے کوئی سیاسی رہنما نہیں دیکھا جس کا سیاسی فہم عالمی سیاسی میدان سے آگاہ ہو۔انسان غلطی کرتا ہے۔بالکل اسی طرح کوئی معاشرہ یا قوم بھی غلطی کرتی ہے اور اس کا خمیازہ بھگتتی ہے۔
پاکستان نے پے در پے کئی غلطیاں کیں اور ان کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ ہاں اب مگر پاکستان ایک نئی راہ پر ہے۔ راہ دشواربہت ہے مگر پاکستانیوں کا حوصلہ بلند ترہے۔ فوج، سیاسی حکومت، عدلیہ اور دردمند اہل وطن مل کر پاکستان کو ترقی کی نئی راہ پر ڈال رہے ہیں۔ اب ترجیح ریاست ہے نہ کہ کوئی شخصیت۔دنیا جنگوں کی جاہے۔ انسان لڑتا مرتا آیا ہے یہی اس کی تاریخ ہے۔امریکہ اب یہ چاہتا ہے کہ وہ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کرے اور ان مذاکرات کی کامیابی میں پاکستان کردار ادا کرے۔تاریخی اعتبار سے تو پاکستان اولین اتحادیوں میں سے ہے جو دہشت گردی کے خلاف جاری اس جنگ میں اپنا کردارادا کرتا آرہا ہے اورقربانیاں دے رہا ہے۔امریکہ،مغرب اوردنیا بھر کے عدل پسند پاکستان کے اس کردار کے معترف ہیں۔ ہاں عالمی سیاست کے کھلاڑی اور متحرک کردار گاہے گاہے اپنے علاقائی مفادات کی خاطر پاکستان پر دبائو بھی بڑھاتے ہیں اور ” ڈومور” کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔کبھی پاکستان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ ،پاک سر زمین سے سر حد پار در اندازی ہوتی ہے تو کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ افغانستان میں بر سر پیکار اتحادی فوجوں پر حملے کرنے والے طالبان کو پاکستان کی مدد حاصل ہے۔
عالمی عسکری سفارت کاری میں اس طرح کی باتیں کئی بار ہوئیں۔ پاکستان نے البتہ ان تمام الزامات کا مدلل جواب سفارتی سطح پر بھی دیا اور عسکری میدان میں بھی۔پاکستان میں نہ صرف کالعدم تحریک طالبان پروان چڑھی بلکہ اس تنظیم نے اپنے کئی ذیلی ڈھانچے ترتیب دیے اور اپنے فہمِ اسلام کو پورے سماج پر نافذ کرنے کے لیے ایک طرح کی خانہ جنگی شروع کر دی تھی۔ الحمد اللہ کہ پاکستان نے اپنے جرات مند شہریوں،بہادرفوج،پولیس اور دیگر اداروں کی مدد سے یہ جنگ جیتی ہے۔دشمن مگر تاک میں ہے۔ وہ نئی طرز کی چالیں سوچ رہا ہے۔ کئی طرح پلاننگ کر رہا ہے۔ ہدف پاکستان کو کمزور کر کے اپنےمفادات تک پہنچنا ہے۔لیبیا،عراق،شام،لبنان اور افغانستان کا نقشہ ہمارے سامنے ہے۔ عالمی استکباری طاقتیں پاکستان کو ایسا ہی دیکھنا چاہتی ہیں،مگر انھیں ناکامی کا سامنا ہے۔نام نہاد جہادی تنظیموں کے ذریعے پاکستان کو توڑا تو نہ جا سکا البتہ پاکستانی معیشت اور سماجی حیات پر گہری چوٹیں پر لگی ہیں۔زخم ابھی ہرے ہیں اور مندمل ہونے میں وقت لگے گا۔اب کی بار جنگ کا میدان قدرے مختلف ترتیب دیا گیا ہے۔اب عسکری مہارتوں کے ساتھ معاشی اور سوشل میڈیا کا پروپیگنڈا بھی شامل ہے۔
یہ نئی جنگ ہے جس کا پاکستان کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انشا اللہ اس میں بھی پاکستان سرخرو ہو گا اور کالعدم دہشت گرد تنظیموں کےعالمی رکھوالے نامراد و ناکام ہوں گے۔کالعدم جہادی تنظیمیں ممکن ہے ایک آدھ انگڑائی لیں مگر ان میں وہ سکت نہیں رہی کہ وہ پہلے جیسی جارحیت کا مظاہرہ کر سکیں۔دشمن اپنے ہدف کی تاک میں ہے اور اس پر پیپر ورک کر رہا ہے۔ ہمارا ہدف اب معاشی و علمی ترقی ہے۔داعش جیسی عالمی دہشت گرد تنظیم کو افغانستان لا بٹھایا گیا ہے۔کیوں؟ اس لیے کہ پاکستان میں تتر بتر ہوتی ہوئی دہشت گرد تنظیموں کے کارندوں کو نیا حوصلہ ملے اور ان کے نام نہاد “جہادی” آہنگ میں جوش آئے۔ پاکستان نے عالمی طاقتوں کا یہ حربہ بھی ناکام بنا دیا۔اب عالمی طاقتوں کا ہدف سی پیک ہے۔عالمی معاشی ماہرین اسے پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کہہ رہے ہیں۔ظاہر ہے بھارت کو یہ گوارا نہیں کہ پاکستان معاشی استحکام حاصل کرے۔ اس مقصد کے لیے بھارت کو امریکی آشیر باد بھی حاصل ہے۔ اگر عالمی سیاسی چالوں اور دہشت گردی کے جال کو ملا کر سمجھنے کی کوشش کی جائے تو بات آسانی سے انسان کی کھوپڑی میں سما جاتی ہے۔پاکستان کو معاشی و ٹیکنالوجی کی سطح پر محتاج رکھ کر عالمی دبائو اس پر برابر ڈالے رکھنا۔اسی حوالے سے پاک فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ ” ہم پاکستان کو ایک ایک اینٹ لگا کر دوبارہ بنارہے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ یہاںآئین ِپاکستان کے تحت قانون کی بالا دستی ہو، یہاں نہ کوئی بندہ ادارے سے بہتر ہو نہ ہی کوئی ادارہ ریاست سے بہتر ہو۔”
یہی بات عالمی سازشی عناصر تو نہیں چاہتے کہ ریاست کی رٹ قائم رہے۔لیکن پاکستان نے ریاست کی رٹ قائم کر کے دکھائی، دہشت گرد قوتوں کو شکست دی۔دشمن عشروں سے یہی کھیل بلوچستان میں کھیل رہا ہے مگر ناکام ہے۔اب لسانی ،قومی، صوبائی اور معاشی استحصال کے نئے کارڈ کے ساتھ نئے بیانیے کے صداکار سامنے آئیں گے۔ لیکن انشا اللہ پاکستان سرخرو رہے گا۔ ہاں اس میں مگر سیاسی حکومت کو ہنر مندی اور ہوش مندی کی ضرورت ہے۔کرپشن سے پاک معاشرہ ضروری ہے مگر اس میں سیاسی انتقام کی بو نہ آئے۔حکومت نئے اہداف مقرر کرے اور پھر ان کے حصول میں جت جائے۔قوموں کی زندگی میں بھاری دن آیا کرتے ہیں۔بیشتر سخت دن ہم نے کاٹ لیے ،ایک ڈیڑھ سال مزید سخت ہو سکتا ہے مگر یکسوئی سے اگر قوم متحد رہی تو کامیابی حیرت انگیز ہوگی۔ورنہ اللہ نہ کرے ایک اور کڑا وقت ہمارا منتظر ملے گا۔

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply