دوسری شادی متنازع کیوں؟

ہمارے خاندان میں دو شادیوں کا رواج بہت عام ہے۔ ہمارے دادا، تایا، چچا اور والد محترم نے بھی 2، 2 شادیاں کیں۔ اس کے بعد ہمارے بڑے بھائی نے تو تین شادیاں کر کے حد ہی کردی۔ ہم اپنی شادی سے پہلے ہی یہ گردانتے تھے کہ ایک شادی امی کی مرضی سے اور دوسری شادی اپنی مرضی سے کریں گے مگر شادی کی عمر قید (یعنی 14 سال) مکمل کرنے کے بعد بھی ہم ابھی تک یہ مشن مکمل نہیں کر سکے ہیں۔ وجہ وہی پرانی ہے کہ کسی کو ہم پسند نہ آئے اور شاید جس نے ہمیں پسند کیا وہ کہہ نہ سکا۔
اس موضوع پر لکھنے کا خیال اس لیے آیا کہ ابھی حال ہی میں ہم ایک شادی میں گئے تو دولہا صاحب ہماری عمر کے تھے اور لڑکی کافی کم عمر تھی۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ دولہا صاحب ایک اچھے بزنس مین ہیں اور لڑکی ان کے پاس جاب کرتی تھی۔ ہمیں اس شادی پر کوئی اعتراض نہیں۔ ہم تو دو شادیوں کے سب سے بڑے حامی ہیں اور دوسرے مردوں کو بھی زور و شور سے تلقین کرتے ہیں کہ اگر آپ دوسری زوجہ افورڈ کرسکتے ہیں اور کسی کو پسند بھی کرتے ہیں تو پہلی فرصت میں یہ نیک کام کرڈالیں۔
ایک دفعہ زبردست بحث و مباحثے کے دوران ایک صاحبہ نے ہم سے پوچھا کہ اگر آپ کی ہمشیرہ کے شوہر دوسری شادی کریں تو؟ میں نے کہا خوشی سے کریں۔ کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ معاشرے میں بڑھتی بے راہ روی کا سبب لڑکیوں کی وقت پر شادیاں نہ ہونا اور عمر تجاوز کر جانا ہے۔ تب ہی تو پنجاب اسمبلی میں ایک خاتون ایم پی اے کی طرف سے دوسری شادی کا بل پیش کیا گیا تھا۔ ان کا کہنا بھی یہی تھا کہ خواتین کی تعداد معاشرے میں تیزی سے بڑھ رہی ہے جس کا حل صرف مردوں کو دوسری شادی کی قانونی و معاشرتی اجازت دینا ہے۔
اس کا اندازہ ہمیں ابھی حال ہی میں ایک سروے کے دوران ہوا جس میں ہم ان لوگوں سے معلومات اکھٹی کر رہے تھے جو جسم فروشی کے کاروبار میں ملوث ہیں۔ ہماری ملاقات گلستان جوہر میں واقع ایک فلیٹ میں چند لڑکیوں سے ہوئی جن کی عمریں لگ بھگ 30 یا اس سے زائد ہوں گی۔ وہ قطعاً یہ کام خوشی سے نہیں کر رہی تھیں بلکہ غربت اور افلاس نے ان کو گھر سے باہر نکلنے پر مجبورکیا۔
ان سے شادی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اب ہماری عمریں گزر چکی ہیں، ہم سے کون شادی کرے گا؟ شادی کرنے والے لڑکے خود تو نارمل صورت اور کم تعلیم یافتہ ہوتے ہیں، مگر شادیاں کم عمر اور خوبصورت لڑکیوں سے کرنا چاہتے ہیں۔ لڑکیوں کی شادی نہ ہونے کا سب سے بڑا سبب نارمل صورت لڑکیوں کو نظر انداز کرنا ہے۔ یہ لڑکیاں عمر ڈھلنے کے ساتھ ساتھ ذہنی دباؤ کا شکار ہونے لگتی ہیں، احساس کمتری کی جڑیں مضبوط ہونے لگتی ہیں اور اکیلا پن ان کو دیمک کی طرح کھانا شروع کر دیتا ہے۔ یہ تمام عوامل غربت و افلاس اور گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ مل کر کسی عورت کو وہ قدم اٹھانے پر مجبور کر دیتے ہیں جو وہ خیالوں میں بھی نہیں سوچ سکتی۔

ہمارے معاشرے میں بہت سی ایسی لڑکیاں ہیں جو اپنی زندگی کی 30 سے زائد بہاریں دیکھ چکی ہیں مگر ابھی تک وہ اپنے والدین کے گھر میں ہی ہیں۔ میرا یہ ماننا ہے کہ جن لڑکیوں کی عمر زیادہ ہو چکی ہے وہ دوسری شادی والے مرد سے شادی کرتے ہوئے نہ کترائیں۔ کسی شادی شدہ مرد سے شادی کرنا کوئی جرم نہیں بشرطیکہ وہ آپ سے محبت کرتا ہو اور آپ اس سے محبت کرتے ہوں۔

قرآن پاک کی سورہ النساء میں یہ اجازت دی گئی ہے کہ ایک آدمی چار خواتین سے نکاح کر سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ چار نکاح کرنے کی کھُلی اجازت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک استشنائی حکم ہے، نہ کہ عمومی حکم۔ عام حکم تو یہی ہے کہ ایک آدمی صرف ایک نکاح کرے لیکن جب کوئی حقیقی ضرورت پیش آجائے تو اس وقت ایک آدمی ایک سے زیادہ نکاح کر سکتا ہے، یا پھر جب معاشرے میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہو جائے اور مردوں کی تعداد عورتوں کے مقابلے میں کم ہو جائے، جیسا کہ اس وقت ہے۔

ایک اندازے کے مطابق عورتوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسی حالت میں ایک نکاح کے اصول پر قائم رہنے کا مطلب یہ ہوگا کہ سماج میں بہت سی عورتیں شوہر کے بغیر رہ جائیں۔ کسی سماج میں عورتیں جب مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہو جائیں تو یہ ایک نازک موقع ہوتا ہے جس سے معاشرے میں بے راہ روی پھیلنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں معاشرے کو انارکی سے بچانے کے لیے اس کے سوا کوئی اور صورت نہیں ہوتی کہ ایک مرد کو کئی نکاح کی اجازت دے دی جائے۔

میں اپنی تحقیق اور مشاہدے کے بعد اس پر اصرار کررہا ہوں کہ معاشرے میں بدلاؤ اور سدھار کی یہی صورت ہے، ورنہ ہم بھی یورپ کی طرح نہ ہوجائیں جہاں زندگی سے سب کچھ حاصل کرنے کے بعد جب کچھ (سب نہیں) عورتوں کو احساس ہوتا ہے کہ وہ بہت اکیلی ہیں اور جانوروں کو پالنے سے وہ سکون نہیں ملا، جو ایک اولاد اور ساتھی کے ساتھ سے ملتا ہے۔

جانیے: ‘مسلم عورت اپنے شوہر کی دوسری شادی پر اعتراض نہیں کرسکتی’

جب میرے وطن عزیز میں بسنے والے جب دوسری شادی کرنے یا اس پر بات کرنے والے کو غلط ثابت کرنے پر تلے ہوتے ہیں اور ان کو عورتوں کی عزت و احترام کرنے کا درس دے رہے ہوتے ہیں، تو میں سوچتا ہوں اس سے زیادہ عزت اور کیا ہو گی کہ ایک مرد عورت کو اپنے نکاح میں لانا چاہتا ہے.

یورپ میں کئی خواتین صرف اس لیے شادی سے انکار کیے رکھتی ہیں، کیونکہ وہ بقول ان کے، مردوں کی غلامی میں نہیں رہنا چاہتیں۔ میں جب یورپ کے اس اخلاقی زوال کی کہانیاں انٹرنیٹ پر پڑھتا ہوں یا ان سے سنتا ہوں جو یورپ گھوم کر آچکے ہیں تو خیال آتا ہے کہ انسان کتنا آزاد خیال کیوں نہ ہوجائے، اپنے اصل کی طرف ضرور لوٹتا ہے۔ جب وہ ان تمام خرافات سے اکتا جاتا ہے تو پھر دوبارہ فطرت کے نظام کی طرف آنا چاہتا ہے اور اپنے اصل کی طرف لوٹنے کی کوشش تیز کر دیتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

دنیا کی ہر عورت میں یہ خواہش کبھی نا کبھی ضرور اٹھتی ہے کہ وہ ماں بنیں اور ہمارا مذہب اور معاشرہ شادی کی صورت میں اس کا حل پیش کرتا ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ جب اسلام نے اس مسئلے کا حل ایک سے زائد شادیوں کی صورت میں پیش کیا ہے، تو کیوں نہ اس حل کو اپنایا جائے، بجائے مغرب کی دیکھا دیکھی غیر فطری راستہ اختیار کرنے اور بعد میں پچھتانے کے۔

Facebook Comments

مزمل فیروزی
صحافی،بلاگر و کالم نگار پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کے رکن مجلس عاملہ ہیں انگریزی میں ماسٹر کرنے کے بعد بطور صحافی وطن عزیز کے نامور انگریزی جریدے سے منسلک ہونے کے ساتھ ساتھ کراچی سے روزنامہ آزاد ریاست میں بطور نیوز ایڈیٹر بھی فرائض انجام دے رہے ہیں جبکہ صبح میں شعبہ تدریس سے بھی وابستہ ہیں اردو میں کالم نگاری کرتے ہیں گھومنے پھرنے کے شوق کے علاوہ کتابیں پڑھنا اور انٹرنیٹ کا استعمال مشاغل میں شامل ہیں آپ مصنف سے ان کے ٹوءٹر اکائونٹ @maferozi پر بھی رابطہ کر سکتے ہیں۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply