نردبان/مختار پارس

چلیں اب اس بات پر لڑتے ہیں کہ کس کا نقصان زیادہ ہوا۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ وقت قیمتی نہیں رہا۔ لوگ چراغوں کو ڈھونڈتے رہے اور دھواں بال کھولے دریچوں سے نکل گیا۔ سخن، سرود اور سرسوں کی رت پھر لوٹ کر نہ آئی۔ مکتب عشق کے دار رسن گریبانوں کی طرح چاک ہو گئے۔ اب سر راہ کیکر کی چھاؤں کہیں نظر نہیں آتی اور بغیر مقصد کے کسی کا انتظار کرنا ممکنات میں نہیں۔ چہروں نے زرد جھریاں پہن لیں، اور آنکھوں میں لال آندھیاں اتر آئیں۔ رنگ و نور اگر فاقہ کشی پر مجبور ہو جائیں تو پھر سہاگ کو سوگ منانے سے کون روک سکتا ہے ۔ آنکھیں چار ہوتے لمحے اگر وقت ٹھہر جاتا تو کیا برا تھا۔ وقت ہاتھ چھڑا کر آگے نکل گیا، بہت برا کیا۔ میں خود ایک زمانہ تھا، نہ جانے میں کیوں ٹھہر گیا۔

وقت نے جن پر اعتبار کیا ، انہیں معتبر کہلانے کا شوق ہی نہیں۔ اختیار ایک معذور کو بھی ملے گا تو وہ دوسروں کو اپاہج بنانے کے قانون پر انگوٹھا ثبت کرنے سے نہیں کترائے گا۔ چرخ کہن نے انسان کو صرف اپنی ذات کی ناؤ  کو کھینا سکھایا ہے۔ ساحل پر بیٹھ کر ریت کریدنے والوں کو سمندر کی فکر کاہے کو ہو۔ میں نے دیکھا کہ لوگوں کو معلوم تھا کہ وہ مر جائیں گے مگر وہ پھر بھی مصر رہے کہ انہیں کسی کے سر پر آسمان گرانا ہے اور کسی کے سر سے ردا کھینچنا ہے۔ خوابوں میں آبگینوں کو چھناکے سے ٹوٹتا دیکھنے والوں نے سمجھا کہ ان پر لازم ہے کہ وہ کسی آئینے کو سلامت نہیں چھوڑیں۔ بند کمروں میں بیٹھ کر دوسروں کے رزق کی تقسیم کا فیصلہ سوچنے والے یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ خدا جب اپنا اختیار تفویض کرتا ہے تو اتنا ضرور دیکھتا ہے کہ بے وقعت اور تنگی داماں کے شکار لوگ ان لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں جن کی نظر فراخ اور دامن کشا رہتا ہے۔ تخت کو تختہ بننے میں دیر نہیں لگتی، ساکھ کی سانس اکھڑنے میں بھی وقت نہیں لگتا اور حیرتوں کو سمٹ کر سراسیمگی سے لپٹنا بھی صرف ایک ساعت دور ہے۔ دینے والے سے آنکھیں ملانا ممکن نہیں تو اس کے ہاتھوں سے شناسائی تو ہو سکتی ہے ؛ ایسے نہیں ہو سکتا کہ مددگار کا منشا اور منشور، دست درازوں سے اوجھل اور دور رہے۔

ایک آنکھ اور آدھے دماغ والوں نے زرق برق لباس زیب تن کر رکھا ہو اور انہیں دیدہ و بینا کے جسم پر کپڑوں میں صرف چھید ہی نظر آئیں تو اسے کیا کہا جائے۔ وہ اسی زعم میں رہا کہ اسے دستیاب تھا۔ اسے سمجھ ہی نہ آ سکی کہ جو اس کے پاس ہے وہ بھی دوسروں کا ہے۔ اس کا اپنا تو کچھ بھی نہیں ؛ وہ اس بات پر کیسے مصر رہ سکتا ہے کہ جس کے پاس بظاہر کچھ نہیں وہ بہر صورت اس کا محکوم اور اسکا محتاج ہے۔ ذہنی اپاہج حکم دینے پر متعین ہو جائیں تو یہ عقلمندوں کا امتحان ہے۔ وہ ان کی سوچ کی تقلید نہ کریں تو عذاب اور اگر تماشے کی تائید میں سر ہلاتے رہیں تو کذاب۔ آنکھیں پورا تب دیکھ سکتی ہیں جب وہ دوسروں کی نگاہ سے دیکھنے کا ہنر رکھتی ہوں۔ ذہن اس وقت تک روشنی دیتا ہے جب تک نگاہ میں نور رہتا ہے۔ ہماری آدھی آنکھیں دل میں ہوتی ہیں۔ اسی لیے دل میں نور نہ ہو تو دماغ میں فتور رہتا ہے۔

انسان تباہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ محبت اور نفرت میں تمیز کھو بیٹھتا ہے۔ محبت کی سب سے بڑی نشانی یہی ہے کہ تباہ نہیں ہونے دیتی۔ ادھوری ساعت اور سن دماغ رکھنے والے محبت کی راہ اپناتے تو ان کے لوٹ کر آنے کا راستہ کھلا رہتا۔ خدا کا عذاب کسی پر بے وجہ نہیں اترتا۔ باپ کا قرض بیٹا بھی اتار سکتا ہے اور افراد کے جرم کی پاداش میں قوموں کا نشان بھی مٹایا جا سکتا ہے۔ خدا سے آنکھیں چرانے والے ہو سکتا ہے کہ بچ جائیں مگر ذمہ داری سے آنکھیں چرانے والے شاید کبھی نہ بچ سکیں۔ لوگ اگر خدا سے دور اس لیے بھاگتے ہیں کہ کہیں مصلے پر ماتھا نہ ٹیکنا پڑے تو یہ امر یاد رکھا جائے کہ خدا کا مقصد یہ نہیں کہ اسے سجدے کیے جائیں؛ اس کے معانی یہ ہیں کہ کسی اور کو سجدہ نہ کیا جائے۔ خدا کا مطلب یہ نہیں کہ اسے صرف سجدوں میں طلب کیا جائے، وہ تو کہتا کہ جاں بلب کے زخموں پر مرہم رکھنا بھی عبادت ہے۔ خدا محبت کرنے سے تو منع نہیں کرتا مگر صرف خود سے محبت کرنا نہ عبادت ہے نہ ریاضت۔ محبت تو خود کو مٹا دینا ہے اور اپنے پاس بیٹھے ہوئے پر نچھاور ہو جانا ہے۔ یہ محبت مرنے نہیں دیتی، مٹی میں گھلنے نہیں دیتی، خاک کو شفا اور پاک کو رضا کر دیتی ہے۔

سیارہ اگر ٹوٹے ہوئے تارے کو حقارت سے دیکھے تو پھر زمین کی گردش تیز نہیں ہو گی تو اور کیا ہو گا۔ خدا نے مسکراہٹ پر ادھار نہیں رکھا کہ یہ سودا فی الفور ادا ہو جاتا ہے۔ مسکرانا انسان کی معراج ہے کہ ایک ہی جست میں نفرتوں کے آسمان ، سفر کی زد میں آ کر طے ہو جاتے ہیں۔ جیب خالی ہو تو کیا جشن نہیں منایا جا سکتا؟ جسے خدا نے اذن دے کر بھیجا ہو اسکے لب سی دینا قہر کو دعوت دینا ہے۔ اگر کسی کے سر پر ہاتھ رکھنے سے کسی کی آنکھ چھلک سکتی ہو اور کسی دل پر سے پتھر ہٹ سکتا ہو تو آگے بڑھ کر اسے گلے لگا لو یار۔ اس عمل سے انسان کا شرف اور بڑھ سکتا ہے اور خدا تمہیں بھی مسکراکر دیکھ سکتا ہے ۔

وقت کا پہیہ جب تیز ہو جاتا ہے تو نقصان کسی کا نہیں ہوتا، بس سب بکھر جاتا ہے ۔ مٹی کسی تودے سے ٹوٹ کر بکھر جائے تو کیا غم اور پانی اگر ابلن سے کم ہو جائے تو کیسا ڈر۔ مٹی بھی وہیں پر موجود اور پانی بھی وہیں رہتا ہے۔ اگر کسی کو کوئی خدشہ ہے تو وہ صرف آگ کو ہے۔ اس کائنات کی سب سے پہلی تخلیق آگ ہے؛ یہ من میں بھی ہے اور پاتال میں بھی ہے۔ آسمانوں میں بھی اس کا وجود ہے اور آسمانوں سے پرے بھی یہ خوب روشن ہے۔ ہر انکار کے پس پردہ یہی آتش ہے اور ہر رفتار کی وجہ یہی تپسیا ہے۔ سر خم کیے اپنے گرد ہونے والا رقص جاں بلب اب ذرا تیز ہوا چاہتا ہے۔ جسم سے مٹی اڑ کر اب ادھر ادھر بکھرنے والی ہے۔ رگ و پے میں متزلزل آب رواں نے سمندروں میں گرنا شروع کر دیا ہے اور رہنا سمندروں نے بھی نہیں کہ آنچ تیز اور آنچل خیز کر دیا گیا ہے۔ برتن سے ٹکوزیاں اٹھنے کی دیر ہے یہاں کچھ ہو گا ہی نہیں ۔ مٹی آنکھیں موندے کہیں پڑی ہو گی اور پانی آگ سے کھیلتے کھیلتے دم توڑ دے گا۔ اس کائنات میں جو آخری چیز دم توڑے گی وہ آگ ہے؛ جب تک آخر نہیں آتا، اسے زندہ رہنا ہے۔ اسی لیے یہ ہمارے اندر سے بھی نہیں مرتی۔ انسان کے اندر ایک جنگل ہے اور جنگل کی آگ بجھانا ایک مشکل امر ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب اتنی سکت نہیں کہ ذات کے جنگلوں میں سے گزرا جائے۔ میری نگاہ جھاڑیوں کے اس پار پگڈنڈی پر ہے جو دور ہے مگر صاف نظر آتی ہے ۔ راستہ صاف اور سیدھا ہو تو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ اگر منزل کا متلاشی خود سے اس راستے کا انتخاب نہ کرے تو اس فیصلے کے پیچھے کسی منطق کا ہونا ضروری ہے۔ سفر میں غلطی کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے مگر کم ہمتی کی نہیں ۔ ویرانے میں انسان کا سب سے بڑا دشمن انسان خود ہے۔ صرف اعلی ظرف ہی طرفین کو مشکلات سے بچا سکتا ہے ۔ اگر معیار سے گری ہوئی بات زمین پر پڑی مل جائے تو زمانے کی پروا کیے بغیر اور اسے اٹھائے بغیر آگے بڑھ جانے میں عافیت ہے۔ اگر کوئی انسان زمین پر گرا ہوا نظر آ جائے تو آگے بڑھ کر اس کو سہارا دینے میں ہی زمانے کی بقا ہے۔ اس دنیا میں نہ انسان نے باقی رہنا ہے اور نہ کسی زمانے نے ۔ جب یہاں کچھ بھی باقی نہیں رہے گا ، افق پر آنکھوں کی چمک اور زمین پر محبت کا لمس رہ جائے گا ۔

Facebook Comments

مختار پارس
مقرر، محقق اور مصنف، مختار پارس کا تعلق صوفیاء کی سر زمین ملتان سے ھے۔ ایک عرصہ تک انگریزی ادب کے استاد رھے۔ چند سال پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک کرنٹ افیئرز کے پروگرام کی میزبانی بھی کی ۔ اردو ادب میں انشائیہ نگار کی حیثیت سے متعارف ھوئے ۔ان کی دو کتابیں 'مختار نامہ' اور 'زمین زاد کی واپسی' شائع ہو چکی ھیں۔ ادب میں ان کو ڈاکٹر وزیر آغا، مختار مسعود اور اشفاق احمد جیسی شخصیات سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ٹوئٹر پر ان سے ملاقات MukhtarParas@ پر ھو سکتی ھے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply