نخوت۔۔مختار پارس

قرب کا عذاب جینے نہیں دیتا اور ہجر کا کیف مرنے نہیں دیتا۔ بے ثبات ہونے میں ایک عجیب سی کیفیت ہے کہ وعدہء تحلیلِ حیات، امکانِ وفا کو زندہ رکھتا ہے۔ خدا کو محبوب کہتے ہوۓ ڈر لگتا ہے کہ روایات میں محبوب اکثر خفا رہتا ہے جبکہ ہم خدا کو ہمیشہ راضی دیکھنا چاہتے ہیں۔ خدا کے محبوب تو ہم ہیں۔ اسی لیے ہم خدا سے ناراض رہتے ہیں۔ وہ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اِتراتے رہتے ہیں۔ وہ ہمیں عطا کرتا رہتا ہے اور ہم شکر بھی ادا کرنا گوارا نہیں کرتے۔ محبت کرنے والی ذات محبوب سے پھر بھی ناراض نہیں ہوتی۔ محبوب کو اس کا انتظار بھی رہتا ہے اور وہ اس کی طرف لوٹ کر بھی جانا چاہتا ہے مگرہمیشہ آنکھیں چُرا کر نکل جاتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ جب وہ ایک دن لڑکھڑا کر گر پڑے گا تو اس کو سہارا دینے والا ادھر ہی قریب کہیں موجود ہو گا۔ یہ امید اسے مرنے نہیں دیتی۔ یہ سہارا اسے زندہ نہیں رہنے دیتا۔

نخوت اور نارسائی ایک دوسرے کی بہنیں ہیں؛ دونوں ایک دوسرے کی وجہ ہیں اور ان کی وجوہات انہیں کسی اور کا ہونے نہیں دیتیں۔ ان کا قرب انہیں ایک دوسرے کا بھی نہیں ہونے دیتا۔ ایک خوف ہے جو لوگوں کو ایک رسی میں باندھ کر رکھتا ہے،وہ بچھڑ جانے کا خوف نہیں ہوتا بلکہ یہ ڈر ہوتا ہے کہ کہیں دوسرا اس عذاب سے نہ نکل جاۓ جس میں وہ موجود ہیں۔ جس کو اُونگھ آتی ہے،سارے اس پر پل پڑتے ہیں اور اس کا ماس کھانے سے بھی نہیں کتراتے۔ جس کو اُونگھ نہیں آتی، وہ سب دیکھ رہا ہے۔ ساری محبتیں صرف اس انتظار میں ہوتی ہیں کہ کب قفس کا  یہ  دروازہ کھلتا ہے اور محبت کرنے والے کبھی قفس کا دروازہ نہیں کھلنے دیتے کیونکہ وہ خود قفس ہوتے ہیں۔

زندگی کو زندانوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ زنجیریں اور بیڑیاں تو ان کےلیے ہیں جو عدم آباد میں رہتے ہیں۔ بے حس و حرکت نہ ناراض ہو سکتے ہیں اور نہ راضی۔ زندگی ایک اختیار ہے،جو اپنا اختیار استعمال نہیں کرتا، وہ مر جاتا ہے۔ جسے اپنا اختیار استعمال کرنے کا فن نہیں آتا، وہ اس امتحان پر پورا نہیں اُترتا جو خدا نے اس جہاں میں بکھیر رکھا ہے۔ جو اپنے لیے پا بہ زنجیر ہونے کو نجات سمجھتا ہے، موقوف ہو جاتا ہے۔ اس کی راکھ کو کوئی سمیٹنے نہیں آتا کہ امید کی ہر چنگاری زندگی سے وابستہ ہے۔ یہ غرور اچھا نہیں کہ ہمیں اس زندگی سے کچھ نہیں لینا۔ یہ نافرمانی مناسب نہیں کہ ہم زندگی کے بعد کی زندگی میں شِیر و شراب میں غوطے لگائیں گے۔ وہ زندگی صرف انہیں یاد رکھے گی جو اس دنیا میں زندہ رہنے کی رمز کو پا جائیں گے۔ دس ہزار نسلوں کی تاریخ میں دس لوگ ہیں جو زندہ ہیں، یہ سب وہ لوگ تھے جو لوگوں کے اونگھنے کے انتظار میں بیٹھے چاک و چوبند اشخاص کے دائرے سے نکل گئے اور جنہوں نے نخوت سے آنکھیں چُرا کر حق تک رسائی حاصل کر لی۔ جو اس دنیا میں ایک دوسرے کا سہارا نہ بن سکے، وہ نہ اِدھر زندہ ہونگے اور نہ اُدھر۔

انسان خود کو تلاش کرتے کرتے خدا تک پہنچ سکتا ہے۔ اگر وہ خود کو ہی نہ پہچان سکے تو پھر خدا تو پردوں میں ہی رہتا ہے۔ زندگی بھی ایک پردہ ہے اور اسکے ہٹنے سے پہلے اس کا ادراک ضروری ہے۔ یہ احساس ضروری ہے کہ کچھ درمیان میں حائل ہے اور یہ اطمینان ضروری ہے کہ میں اس پردے کو جانتا ہوں۔ اعتماد حقیقت کو جان لینے کے بعد آ سکتا ہے، حقیقت جانے بغیر اپنی ذات پر اعتماد اپنی جان لینے کے مترادف ہے۔ اَنا تعلق کی کمر توڑ دیتی ہے۔ خود اعتمادی کی بنیاد اگر جہالت ہو تو پھر قفس سے باہر بھی رکھ دیں تو طائر میں اُڑنے کی سکت نہیں ہوتی۔ پرواز اسی کا نصیب ہے جو بہت دور تک دیکھ سکتا ہے اور جو بہت نزدیک رہتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

کسی قسم کی نرگسیت کو اجازت نہیں کہ وہ لوگوں کی اجتماعی سوچ کو غلام بنا ڈالے۔ یہ دنیا وہ ہے جو ہمیں نظر آتی ہے۔ یہ حق ہر شخص کو حاصل ہے کہ وہ اپنی دنیا خود تلاش کرے۔ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ کسی اور کی دنیا کو غلط جانے۔ منزل اگر ایک ہے تو پھر رستہ بھول جانے کا غم کیسا؟ کوہِ ندا کی آواز ضمیر کی آواز کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ خدا نے اس زمین پر پیامبر بھیجے ہیں مگر ہجومِ عاشقاں نے پیام چھوڑ کر اپنے عشق کو خدائی کا درجہ دے دیا۔ لوگوں نے پیغمبروں سے اپنے مطلب کی بات سننا چاہی اور جب ان سے ایسا نہ ہو سکا تو انہیں سولی پر لٹکا دیا۔ خدا کبھی خود کسی کے خواب میں نہیں آتا۔ کسی کو یہ دسترس نہیں کہ خدا کی بات کا ترجمہ کرے۔ حق بات خود بخود دل پر دستک دیتی ہے۔ اپنی بات کو خدا کی بات بتانے والے کی نخوت اس ویران قلعے میں یہیں گونجتی رہ جاۓ گی۔یہ یقین بھی ایک نفرت ہے کہ خدا صرف ان سے محبت کرتا ہے۔ خدا تو سب کا ہے۔ کیا گنہگاروں کا خدا نہیں ہوتا؟ خدا کی وحدت کو تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ برگِ حِنا کو پتھر کی سل پہ مسلا جاۓ تو رنگ اور چڑھتا ہے اور مہک چھپاۓ نہیں چھپتی۔ لاؤڈ اسپیکر کی آواز سن کر سر ڈھانپنے والوں کو کیا خبر کہ وقتِ نماز تو کبھی بھی ہو سکتا ہے۔ مسجد و منبر کا یہ اختیار نہیں کہ وہ انسان کو خدا سے دور کر دیں۔ کسی پروہت اور پادری کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ عرقِ نسیاں چھڑک کر گناہوں کو دھو دینے کا اختیار اپنے پاس رکھ لیں۔ گناہ کرنے کا اختیار انسان کا ہے۔ یہ اختیار اسے خدا نے دیا ہے۔وہ اس اختیار کو استعمال کر کے حق اور حقیقت تک پہنچتا ہے۔ حقیقت کا نور جب منکشف ہو جاۓ تو پھر اسے آنکھ اٹھانے کی جراءت نہیں ہوتی۔ عبادت سر جھکا کر کی جاتی ہے، سر اٹھا کر نہیں۔ منزلِ مقصود اگر دل میں جاگزیں ہو تو سر جھکا کر ہی دیدار ہو سکتا ہے۔ گھر کے مکین تک پہنچنا ہے تو اَنا کے دروازے پر کھڑے ہو کر دستک دینا ہوگی۔ انسان کو انسان سمجھ کر اسے تھامنا ہو گا ورنہ دستک پہ دستک ہوتی رہے گی اور دروازہ کبھی نہیں کھل سکے گا۔

Facebook Comments

مختار پارس
مقرر، محقق اور مصنف، مختار پارس کا تعلق صوفیاء کی سر زمین ملتان سے ھے۔ ایک عرصہ تک انگریزی ادب کے استاد رھے۔ چند سال پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک کرنٹ افیئرز کے پروگرام کی میزبانی بھی کی ۔ اردو ادب میں انشائیہ نگار کی حیثیت سے متعارف ھوئے ۔ان کی دو کتابیں 'مختار نامہ' اور 'زمین زاد کی واپسی' شائع ہو چکی ھیں۔ ادب میں ان کو ڈاکٹر وزیر آغا، مختار مسعود اور اشفاق احمد جیسی شخصیات سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ٹوئٹر پر ان سے ملاقات MukhtarParas@ پر ھو سکتی ھے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply