پیہم ۔۔ مختار پارس

آخر کسی نے تو پوچھا تو سہی کہ سفر راستے میں ہی کیوں چھوڑ دیا۔ گئے دنوں کی مسافتوں کو شمار کرتے رہنا چاہیے۔۔ جو سفر آئندہ قدم بوسی کا ارادہ رکھتے ہوں، انہیں بھی زمین سے اٹھا کر گلے سے لگانے میں کوئی حرج نہیں۔ منزل کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ محبت خود کچھ بھی نہیں۔نگاہ اٹھتے وقت اجازت طلب نہیں کرتی۔ ایک روز آنکھ کھلتی ہے تو محبت کا سفر شروع ہو چکا ہوتا ہے۔ منزل کو کیا معلوم کہ وہ کسی کی مرکزِنگاہ ہے یا نہیں۔ آنکھ کے صحرا میں قدموں کے نشاں ڈھونڈنے پڑ جائیں تو پھر منزل کی فکر کون کرتا ہے۔ سفر طے کرنا مقصدِ حیات رہ جاۓ تو نشانِ منزل کوئی نہیں ڈھونڈتا۔ چلتے رہنا ضروری ہے کہ صرف گردشِ دوراں کو ہی دوام حاصل ہے۔ سفر کی طوالت تو ایسے ہے جیسے چاندنی رات؛ چاند تک پہنچنے سے زیادہ اس کی چاندنی اچھی لگتی ہے۔

صبح اور شام کی سرحدوں کے درمیان جو روشنی ہے، وہی زندگی ہے۔ وہ تمام کوششیں جو جیت اور ہار کے درمیان تڑپتی ہیں، زمانے کی آنکھ کا نور بن جاتی ہیں۔ ساری کہانی آغاز اور اختتام کے درمیان موجود رہتی ہے۔ ساری شروعات ایک جیسی ہوتی ہیں اور سارے آخر بھی یکساں رقصاں رہتے ہیں، مگر ان دو نکتوں کے درمیان ہر کہانی مختلف ہوتی ہے۔ کون ہے جسے محبت پر یقین نہیں مگر ہر مسکراہٹ ہر ہونٹ پر ایک طریقے سے نہیں پھیلتی۔ دل کے وسوسوں پر کسے اعتبار ہے مگر کون ہے جو دل کے دلدل میں نہیں گرتا۔ کون ہے جسے خدا نظر نہیں آتا ،مگر کتنے ہیں جو اس روز نظر آنے والی حیرت کو سیلِ رواں بن کر دیکھتے ہیں۔ امید اور یقین اگر کہیں ٹھہرنے نہ دے تو یہ نصیب کی بات ہے۔

خمیر ۔۔ مختار پارس

مشکلات کو سمجھنے کی استطاعت ہر کوئی نہیں رکھتا۔ مزاج کی سختی محبت کے دروازے نہیں بند کر سکتی۔ مزاج کو مخالفت سمجھنے والے رستہ بھول جاتے ہیں۔ جنہوں نے سایہء تیش میں نگہبانی کے اصول سیکھ رکھے ہوتے ہیں وہی نرم لہجے میں گفتگو کر سکتے ہیں۔ جو روز ٹوٹ کر بکھرتا ہو، صرف اسے ہوا اٹھا کر چل سکتی ہے۔ منتشر ہونے کا فن کسی بے لچک اور بے اختیار میں عود نہیں کر سکتا۔ اختیار یہ ہے کہ جسم اور جان کے درمیان کوئی پیمان کسی اور کے ہاتھ میں نہیں رہے۔ انسان خود اس بات کا فیصلہ کرتا ہے کہ اسے کب ختم ہونا ہے۔ زندگی کا سفر موت کے بعد بھی جاری رہ سکتا ہے۔ ایک خیال کسی بدن کے حصار کا محتاج نہیں ہوتا۔ نظریات موت کے بعد بھی سفر جاری رکھتے ہیں۔ سماعتوں کا ریاضتوں کی جانب سفر آسان نہیں۔ اس کو سمجھنے کی طاقت صرف اس امر میں ہے کہ جو قہار ہے وہ اصل میں رحیم ہے۔ جو بلا رہا ہے وہ خود بھی آ رہا ہے۔

کہا ،جاپان تو ہوگا۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

لوگ سیدھے راستے پر چلنے سے کتراتے ہیں اور سیدھی بات کو سمجھنے میں دیر لگا دیتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ پُرخطر اور پُرخار راستوں کا چناؤ صرف وہی کرتے ہیں جنہیں اپنے عزم پر بھروسہ ہوتا ہے۔ وہ جنہیں علم ہے کہ ایک روز نور نے ان کے آنگن میں اُترنا ہے، وہ شبِ دیجور سے کیونکر گھبرائیں۔ انہیں وہ سب دکھائی دے رہا ہوتا ہے جو منزل پر جلدی پہنچ جانے والوں کی نگاہ میں کبھی آتا ہی نہیں۔ آسمان سے کرنیں اترتی ہیں تو ان کی سوچ ان کرنوں کا رستہ بدل سکتی ہے۔ سر پر سے گزرتے پرندے کی کوک سن کر انہیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ پانی برسنے والا ہے۔ مٹی کی خوشبو انہیں آنے والی فصلوں کی خبر کر دیتی ہے۔ انہیں احساس ہوتا ہے کہ ریختیمیں نطقِ صداقت کسی گل فشانی سے کم نہیں۔ زندگی کے سارے مہرے ان کے سامنے بساط پر یوں دھرے ہوتے ہیں جیسے مدمقابل کو شکست کا انتطار ہو۔ مگر وہ درویش سر جھکا کر عشق کی بساط میں ہار جاتے ہیں۔ انتہاۓ شوق پابہ زنجیر ہی بھلا لگتا ہے۔ جِسے حجرِ اسود کو چوم لینے کی جلدی ہو، وہ لوگوں کے کندھوں پر سوار ہو کربھی فتحیاب ہونے سے باز نہیں آتا۔ جس نے بہت دور جانا ہو وہ زنجیریں پہن کر رقصِ بسمل کو مطاف بنا دیتا ہے۔

انسان کی بے حرمتی کے نئے اسلوب۔۔ڈاکٹر اختر علی سید

مجھے اس عنصر کی تلاش ہے جو مجھے زندہ رکھنے پر مامور ہے۔ میں پابند ہوں کہ مجھےاس حیرت کدے میں پہنچنا ہے جہاں سارے ذی روح دم سادھے نیلے آسمان تلے کھڑے ہونگے اور سنہری چاند سدرۃ المنتہیٰ کی شاخوں سے صدیوں کی مسافت پر پھیلی برف پر اندھیرے میں عجیب رنگوں سے دیکھتا ہو گا۔ جہاں جسم کا جاں سے فاصلہ مٹ چکا ہو گا، اور جہاں سانسیں بادلوں کی مانند روح کے اردگرد غلطاں ہونگی۔ مجھے آسمان سے ان پھوٹتے رنگوں کو دیکھنا ہے۔ دلِ خراب کا اصرار ہے کہ میں ان آنکھوں میں ڈوب جاؤں جو مجھے میسر ہیں۔ جو میسر ہے وہ منزل نہیں اور جو منزل ہے وہ پاس نہیں۔ میرے پاس اور کوئی چارہ نہیں۔ مجھے ہر صورت میں اپنے سفرِ عظیم کو جاری رکھنا ہے۔

ایک متنازعہ مراٹھی نظم (سرکاری طور پہ ضبط شدہ نظم)۔۔۔وسنت دتا تریہ گرُجر/ترجمہ:یقعوب راہی(انتخاب :احمد نعیم)

Advertisements
julia rana solicitors london

خواہشیں بہت جلد دم توڑ دیتی ہیں۔ اس لیے سفرِِ حیات میں ان کا ساتھ آزمائش کو بڑھا دیتا ہے۔ یہ احساس مار دیتا ہے کہ میرے ساتھ بہت لوگ ہیں۔ یہ غلط فہمی اپاہج کر دیتی ہے کہ میں بہت کچھ کر چکا ہوں۔ راستے میں پڑے پتھروں کو منزل سمجھ کر ہم گھوڑوں سے اُتر آتے ہیں جبکہ ابھی کوسوں دور جانا ہوتا ہے۔ ایک احساسِ تفاخر کی ضرورت ہے کہ مجھے کہیں نہیں پہنچنا، بس مجھے جانا ہے۔ کوئی ہجوم جسے آگے بڑھ جانے کی جلدی ہو، کسی کی تنہا پیشرفت کا گلا نہیں گھونٹ سکتا۔ ہم سفر اور ہم رکاب نہ ہم نشیں بن سکتے ہیں اور نہ دلنشیں۔ جو سفر اکیلے کاٹنا ہے، وہی ان راستوں کی نوید دے گا جو بہت دور تک جاتے ہیں، جن پر ہمیں چلتے رہنا ہے، جو ہمیں وہاں لے جائیں گے جہاں ہمیں گرفتارِ حسنِ جاوداں ہونا ہے۔ عدم آباد کے ان مکینوں کو نہ کوئی حزن ہو گا اور نہ حزیں۔ وجہ یہ کہ جنبشِ مژگاں نے وہاں وہ عنصر ڈھونڈ لیا ہو گا جو دل پر لکھی تحریر کو پڑھ لیتا ہے۔

Facebook Comments