کرونا وائرس سے بچنے کی دعا۔۔یاسر پیرزادہ

چودہویں صدی کا طاعون انسانی تاریخ کی سب سے خوفناک وبا تھی، یہ وبا چین سے شروع ہوئی اور 1347میں اٹلی کے شہر سسلی پہنچ گئی، دیکھتے ہی دیکھتے اِس نے پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور بستیوں کی بستیاں اجاڑ دیں، ایک اندازے کے مطابق اِس کے نتیجے میں ساڑھے سات کروڑ سے بیس کروڑ لوگ مارے گئے، یورپ کا تقریباً تیس فیصد علاقہ اِس سے شدید متاثر ہوا.

1400ء تک طاعون کی وجہ سے انگلستان کی آبادی نصف رہ گئی اور اگلے ڈیڑھ سو برس تک یورپ اپنی آبادی کی وہ سطح نہ چھو سکا جو طاعون سے پہلے تھی۔ اُس زمانے کے ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ یہ بیماری غیر دفن شدہ لاشوں کے تعفن یا ایسی ہی کسی ماحولیاتی گندگی کی وجہ سے پھیلی ہے جبکہ عام لوگوں کے خیال میں یہ کوئی عذاب تھا یا پھر زلزلوں کا نتیجہ۔

بہت سے عیسائیوں نے اِس کا الزام یہودیوں کو دیا اور کہا کہ انہوں نے پانی میں زہر ملایا تھا جس کی وجہ سے یہ وبا پھیلی اور ’’ثبوت‘‘ کے طور پر وہ یہ کہتے کہ طاعون سے مرنے والے یہودیوں کی تعداد بہت کم ہے، اِس الزام کے نتیجے میں یہودیوں کی بستیوں کو تباہ کرکے انہیں قتل کر دیا گیا۔

اُس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آیا کہ اِس بیماری کا تعلق پسّوؤں میں پائے جانے والے بیکٹیریا سے بھی ہو سکتا ہے۔ اِس خوفناک وبا نے یورپ پر دوررس اثرات مرتب کیے، جاگیرداروں کی زمینوں پر کام کرنے والے مزارع بڑی تعداد میں اِس کا شکار ہو کر مر گئے، نتیجے میں زمینوں پر کاشت نہ ہو سکی، مزارعوں کی اجرتیں بڑھ گئیں اور جاگیرداری کو شدید دھچکا لگا۔

فنونِ لطیفہ میں مایوسی اور قنوطیت غالب آ گئی، مصوری میں زندگی کی بےمعنویت کا اظہار ہونے لگا، عام لوگ زندگی کے بارے میں غیر یقینی پن کا شکار ہو گئے۔ ادھر رومن کیتھولک چرچ کی اجارہ داری کو بھی نقصان پہنچا، لوگ تصوف کی طرف مائل ہو گئے، وہ پادری جو اسے آسمانی عذاب قرار دیتے تھے اور مرنے والوں کی مقدس رسومات ادا کرنے پر مامور تھے، خود بھی طاعون کا شکار ہو کر مر گئے۔ 2010سے 2015کے دوران دنیا بھر سے طاعون کے صرف 3248کیس سامنے آئے جن میں 584اموات ہوئیں، آج اینٹی بائیوٹک کی وجہ سے طاعون ایک قابل علاج بیماری ہے۔

چیچک تین ہزارسال پرانی بیماری ہے، بڑے بڑے بادشاہ اِس بیماری کا شکار ہو کر مرے، اٹھارہویں صدی تک سویڈن اور فرانس میں پیدا ہونے والا ہر دسواں بچہ اور روس میں ہر ساتواں بچہ چیچک سے مر جاتا تھا، اِس صدی میں صرف یورپ میں چھ کروڑ لوگ چیچک سے ہلاک ہوئے۔ پچاس کی دہائی تک ہر سال پانچ کروڑ افراد چیچک کا شکار ہوا کرتے تھے جبکہ 1967تک یہ تعداد کم ہوکر ایک سے ڈیڑھ کروڑ رہ گئی۔

چیچک کا آخری مریض صومالیہ میں1977میں دریافت ہوا اور 1980تک سائنسدانوں کی انتھک کوششوں کے نتیجے میں دنیا میں چیچک کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا۔ وہ بیماری جس نے کئی صدیوں تک انسانیت کو خوف میں مبتلا رکھا بالآخر میڈیکل سائنس کے ہاتھوں شکست کھا کر فنا ہو گئی۔

بیماریوں اور وباؤں کی ایک طویل فہرست ہے جن سے انسان صدیوں سے لڑتا آیا ہے، اِن میں سے بہت سی بیماریوں کو میڈیکل سائنس شکست دے چکی ہے اور کچھ کی ویکسین ایجاد ہو چکی ہے جسے استعمال کرکے پولیو جیسے مرض سے بھی محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ کالی کھانسی، خناق، ٹی بی، ٹائیفائڈ جیسے امراض جو انسان کے لیے وبالِ جان بن جاتے تھے، آج اینٹی بایوٹک اور ویکسین کے سامنے قریباً بےبس ہو چکے ہیں۔

بیسویں صدی میں میڈیکل سائنس کی سب سے بڑی دریافت اینٹی بایوٹک ہے، پینسلین کی ایجاد سے اِس کا آغاز ہوا، اِس سے پہلے لوگ مختلف قسم کے متعدی امراض میں مبتلا ہوکر اسپتال میں ایڑھیاں رگڑا کرتے تھے۔ انسان کے علم میں یہ بات تو تھی کہ بیکٹیریا اور فنگس کے مرکبات مل کر اینٹی بایوٹک بناتے ہیں جو بیماری پیدا کرنے والے بیکٹیریا کا خاتمہ کر سکتے ہیں مگر صحیح معنوں میں پہلی اینٹی بایوٹک بنانے کا سہرا سر الیگزینڈر فلیمنگ کے سر جاتا ہے جنہوں نے پینسلین دریافت کرکے انسانیت پر ایک احسانِ عظیم کیا، دوسری جنگ عظیم میں اِس اینٹی بایوٹک نے کروڑوں انسانوں کی زندگیاں بچائیں۔

اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ وبائی امراض اور بیماریاں اب بھی موجود ہیں جن کا علاج تاحال دریافت نہیں کیا جا سکا جیسے ایچ آئی وی اور تازہ ترین کرونا وائرس مگر یہ بات بھی ہمارے سامنے کی ہے کہ بہت سی وبائی امراض جیسے سوائن فلو، ایبولا، زیکا وائرس یا سارس، اب اُن کا خطرہ اتنا نہیں رہا جتنا غلغلہ چند سال پہلے تھا۔

ایچ آئی وی یا کینسر کا شکار ہونے والے افراد جنہیں تیس چالیس سال پہلے تک یقینی موت کا سامنا ہوا کرتا تھا، اب مہنگا ہی سہی پر اتنا علاج ضرور کروا سکتے ہیں کہ زند ہ رہ سکیں اور کینسر کی تو کئی قسموں کا مکمل علاج بھی ممکن ہے، بےشمار مریض صحت یاب ہوکر بہترین زندگی گزار رہے ہیں۔

میں کوئی ڈاکٹر تو نہیں مگر میڈیکل سائنس سے تھوڑی بہت دلچسپی ضرور ہے، اینٹی بایوٹک کا ’’مداح‘‘ ہوں مگر یہ خوف بھی دامن گیر رہتا ہے کہ کہیں زیادہ استعمال سے اینٹی بایوٹک کے خلاف جسم میں مزاحمت نہ پیدا ہو جائے، طبی زبان میں جسے resistence to antibioticsکہتے ہیں۔

دراصل کچھ بیماریاں وائرل ہوتی ہیں اور کچھ بیکٹیریل، وائرل بیماریاں چونکہ وائرس کی وجہ سے ہوتی ہیں سو اِن میں اینٹی بایوٹک کام نہیں کرتی جیسے کرونا وائرس، مگر بیکٹیریل بیماریوں کیلئے اینٹی بایوٹک تیر بہدف ہے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ چند سال پہلے سائنسدانوں نے Teixobactinنام کی ایک ایسی اینٹی بایوٹک ایجاد کر لی ہے جس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ نہ صرف ہر قسم کے بیکٹیریا کا خاتمہ کر سکتی ہے بلکہ اِس کے استعمال سے جسم میں مزاحمت بھی پیدا نہیں ہوگی۔

وائرل بیماریوں کے لیے سائنسدان ویکسین ایجاد کرتے ہیں جیسے پولیو، خسرہ، فلو، ہیپاٹائٹس وغیرہ جو ہمیں لگوانی چاہئیں۔ کرونا وائرس پر اب تک جو محدود تحقیق ہوئی ہے اس کے مطابق chloroquin جو ملیریا کیلئے موثر دوا ہے، کورونا وائرس کی وجہ سے ہونے والے نمونیا کے علاج میں بھی موثر ہے، ذہن میں رہے کہ اموات وائرس نہیں کرتا بلکہ زیادہ تر کیسوں میں نمونیے کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ سو، خاطر جمع رکھیں کرونا وائرس کی ویکسین بھی بن جائے گی۔

اللّٰہ سے ہمیں دعا مانگنی چاہیے اور ڈاکٹر سے دوا!

Advertisements
julia rana solicitors

جنگ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply