• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ہم جنس پرستی۔پُرسکون زندگی گزارنے کے لیے پناہ گاہ کی تلاش۔۔۔۔اسد مفتی

ہم جنس پرستی۔پُرسکون زندگی گزارنے کے لیے پناہ گاہ کی تلاش۔۔۔۔اسد مفتی

ایک خبر کے مطابق ہالینڈ میں مسلمانوں کی ایک ٹیم نے ہم جنس پرستوں کے خلاف فٹ بال میچ کھیلا ،جس میں فٹ بال کے مداحین کی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔اس میچ کا مقصد ہالینڈ میں بڑھتے ہوئے “ہومو فوبیا” کا توڑ کرنا تھاجس کا الزام اکثر تارکین وطن پر لگا یا جاتا ہے۔ڈچ ادارے کے چئیر مین  فرینک خان  ڈبلن نے کہا ہے کہ ہم جنس پرستتوں اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی پائی جاتی ہے جس کا سب سے بڑا سبب لاعملی ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ دنیا  پر ثابت کردیں کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ تمام تر اختلافات کے باوجود  زندہ رہ سکتے ہیں ،اس ٹورنامنٹ کا بنیادی مقصد ہم جسن پرست کہلائے جانے والے  تارکین کے خلاف امتیازی رویہ اپنانے کے خلاف جدوجہدکرنا ہے ،خاص طور پر دوسرے مسلمانوں کی جانب سے جنس پرست مسلمانوں کے خلاف کسی قسم کے امتیاز کا خاتمہ۔ہالینڈ میں گزشتہ دنوں ایک سروے کیا گیا تھا،جس میں بتایا گیا تھاکہ سروے میں حصہ لینے والے ہم جنسوں نے کہا ہے کہ ان کے خلاف تشدد ،نفرت اور جارحیت بڑھتی جارہی ہے ،ہم جنس پرستوں کے مطابق خاص طور پر سکولوں میں یہ روش اور رویہ بڑھ رہا ہے اس موقع پر ایک کانفرنس بھی منعقد کی گئی جس سے ہالینڈ کے تیسرے بڑے شہر  اُترخت کے لیبر پارٹی کے راہنما نے بھی خطاب کیا جس نے بتایا کہ یہ بات سچ ہے مسلمان جنس پرستوں کے خلاف امتیاز خاص طور پر بڑھ رہا ہے۔اور مخالفین کی نفرت میں اضافہ ہورہا ہے،میرے حساب سے خطہ ارضی پر ہم جنس پرستی کوئی انوکھی ،نئی یا غیر معمولی عادات میں شمار نہیں ہوتی۔

یہی وجہ ہے کہ ہم جنس پرستی کے موضؤع پر بنائی گئی برطانوی فلم کو چار برٹش فلم اکیڈیمی ایوارڈ ملے ہیں ۔”بروک بیک ماؤنٹین” نامی اس فلم کو آسکر ایوارڈ کے لیے بھی نامزد کیا گیا تھا ۔اپنے موضوع کے لحاظ سے اس نے پہلا انعام حاصل کیا ۔یہی نہیں پچھلے دنوں یہ خبر بھی بربرطانوی پریس کی زینت بنی تھی۔کہ سکائس ممبر پارلیمنٹ 45 سالہ سمتھ سپلی جو کہ ایک خاتون ہیں اپنی خانون استھی ہم جنس پرست کے ساتھ شادی کررہی ہیں جس کا نام سوزین ہے۔دونوں نے اخباری نمائندوں کے سامنے آکر اپنی شادی کی تصدیق کی اور کہا کہ شادی کی رسوم ایڈنبرا میں ان کے خاندان اور دوستوں کی موجودگی میں ادا کی جائیں گی، دولہادلہن” نے یہ بھی بتایا کہ وہ اپنے اس نئے رشتے ایک نئی زندگی کا آغاز سمجھتے ہوئے خوش ہیں ۔

قارئین کی دلچسپی اور معلوما ت کے لیے  یہ بھی بتاتا چلوں کہ سمتھ جو اس سے قبل بھی شادی شدہ اور دو بچوں کی ماں ہیں کو اپنی نئی  دوست سوزین سے لافانی محبت ہوگئی تھی،اس پر اس نے اپنے خاوند سے طلاق لے کر اپنی دوست کے ساتھ رہنا شروع کردیا ہے۔

وہ کہتی ہے کہ یہ بتاتے ہوئے میں نہایت خوش ہوں کہ میرے ایک خاتون کے ساتھ تعلقات ہیں ،اورمیرے والدین کو بھی ان تعلقات کا علم ہے۔وہ مجھے پوری طرح سپورٹ کرتے ہیں ۔اگر ٹرمپ کے امریکہ سے بھی پچھلے دنوں ایک سیاستدان کے بارے میں ایسی ہی خبریں ملی تھیں ۔امریکہ کے ایک ممتاز عیسائی مبلغ اور سیاستدان ریورینڈ ٹیڈ نے اس الزام کے بعد کہ ان کے گزشتہ تین برسوں سے ایک مرد جسم فروش سے جنسی تعلقات تھے استعفٰی دے دیا تھا۔بظاہر یہ شخص جنس پرستوں کی شادیوں کےسخت  خلاف ہے۔اور اس نے خود پر لگائے جانے والے الزامات کی تردید کی ہے۔جنسی تعلقات کا دعویٰ کرنے والے 49 سالہ مائیک جونز نے کہا ہے کہ اس نے مسٹر ریورینڈ ٹیڈ کے ساتھ اپنے تعلقات کی تفصیل منظر عام پر لانے  کا فیصلہ اس وقت کیا جب انہوں نے اپنے جلسے میں ہم جسن پرستوں کے خلاف دھواں دھار تقریریں کیں مجھے یہ سب سن کر کر بہت غصہ آیا کہ ایک ایسا شخص ہم جنس افراد کی شادی کے خلاف تبلیغ  کررہا ہے۔جو پردے کے پیچھے خود مل رہا ہے۔جہاں دنیا میں یہ سب کچھ ہورہا ہے،وہاں ہم برصغیر کے باشندے بھی کیوں پیچھے رہیں ،

گزشتہ دنوں بھارت کے دارلحکومت سے یہ خبر آئی تھی کہ ہزاروں افراد نے ہم جنس پرستی  کی حمایت میں “نیشنل پرائیڈ “کے جھنڈے تلے دہلی کی سڑکوں پر مارچ کیا۔اس مارچ میں بھارت اور بیرونِ بھارت سے قریباً تین چار سو نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں نے حصہ لیا ۔

اس رنگا رنگ مارچ میں شریک افراد”ہندو مسلم سکھ عیسائی گے بائی سیکشوئیل بھائی بھائی “اور بین الاقوامی نعرہ”ہم ہوں گے کامیاب”کے نعرے بلند کررہے تھے۔ان افراد کا مطالبہ تھا کہ تعزیراتِ ہند کی دفعہ 377 کے تحت ہم جنس پرستی کو مجرمانہ فعل قرار دینے والے قانون کو کالعدم قرار دیا جائے اور ہم جنس پرستی کو قانونی حیثیت دی جائے۔۔۔مارچ میں شریک ایک انگریزی روزنامہ کے صحافی نے بتایا کہ یہ جلوس دراصل  ہم جنس پرستوں کو حوصلہ دینے اور بیادری پیاد کرنے کے لیے دیا گیا  ہے۔

واضح رہے کہ 29 جون کودنیا بر میں ہم جنس پرست”گے پریڈ” کا اہتمام کیا جاتا ہے۔جس میں ایمسٹرڈیم اور کیلے فورنیا کی “گے پریڈ “ کو بے حد اہمیت حاصل ہے ۔ادھر کینیڈا میں مقیم برصغیر کے تارکین وطن  جس میں کشور حسین شاد باد کے باشندے بھی شامل ہیں ،نے ایک شاندار گے مارچ کا اہتمام کیا اس جلوس کو بھی  “پرائیڈ ٹورونٹو” کے بینر تلے نکا لا گیا ۔یہ جلوس شرکا کی تعداد کے اعتبار سے ایمسٹر ڈیم کے بعد دنیا میں دوسرا بڑا جلوس تھا ۔اس جلوس کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس میں بڑی تعداد میں پاکستانی و بھارتی ہم جنس پرستوں  سمیت جنوبی ایشیا کے بہت سے باشندوں نے شرکت کی ۔بھارتی گانوں پر رقص کرتے ہوئے  دو دشمن ملکوں کے “گے لزبین “ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کے محبت کے باغ کھلا رہے تھے ۔پریڈ میں شامل فردوس علی نے بتایا کہ “ہم کینیڈا میں ہندوستان اور پاکستان  سے تعلق رکھنے والے ایڈز کے مریٖضوں کے  لئیے بھر پور کام کر رہے ہیں “۔۔۔”گے “ افراد کے  حوالے سے دیکھا جائے تو ایک بات جو سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ ہم جنس پرستوں کی شادیوں  کی محالفت میں پہلے سے کمی آئی ہے ۔یورپ اور امریکہ کے “گے”شادیوں پر بندش کے لئیے امریکی آئین  میں ترمیم کی مخالفت کی گئی ہے لیکن برطانیہ نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ برطانوی  شہریت حاصل کرنے والے ہم جنس پرست “ہم جنس پرستوں کی شادی سے نئے قانون میں قانونی حیثیت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔شادی رجسٹراروں نے بتایا ہے کہ اگر غیر ملکی روائیتی شادیوں کی بجائے پارٹنر شپ کے ذریعے شہریت حاصل  کرنا چاہیں تو انہیں کم مشکل ٹیسٹ کا سامنا کرنا پڑتاہے۔۔یاد رہے کہ یورپ کے بیشتر ملکوں میں ہم جنس پرستوں کو امیگریشن کے وہی حقوق حآصل ہیں جو دوسرے شادی شدہ لوگوں کو ہیں اور  وہ دوسال کے بعد بغیر کسی تگ و دو کے شہریت حاصل کر سکتے ہیں جس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ ایک غیر ملکی (گے یا عام فرد)برطانوی شہری (گے یا عام فرد)کے ساتھ دو سال رہ کے برٹش بن سکتا ہے اور  یہ کہ بعد میں وہ طلاق بھی دے سکتا ہے اس کے بعد دونوں الگ الگ “ہنسی  خوشی “زندگی گزار سکتے ہیں ۔۔۔۔

 

؎بہتر ہے کہ  سجدوں سے جبیں اپنی سجا لو

Advertisements
julia rana solicitors

کچھ اور مسلمان کی پہچان نہیں ہے ۔۔۔!

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply