شدت پسندانہ روش

شدت پسندانہ روش
سانول عباسی
شدت پسندانہ روش ہماری سوسائیٹی کا عمومی رویہ ہے ،جو ہمارے ہر کام ہر سوچ میں چھلکتا ہے ۔جس کا نتیجہ معاشرتی انحطاط کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ اس کا شکار چند لوگ نہیں بلکہ اس ناسور نے ہمارے ہر مکتبہ فکر کو گھیرا ہوا ہے۔ حالانکہ تمام مکاتب فکر اس روش کا شکار ہیں ۔مگر بات بے بات دوسروں کو طعنہ دیتے نطر آئیں گے ۔ہر ایک نے اپنی دانست میں اپنے گرد ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کا حصار بنا رکھا ہے اور وہ اس حصار سے باہر آنا بھی گناہ جانتے ہیں ۔اس شدت پسندانہ سوچ نے معاشرتی عدم برداشت کو جنم دیا ہے اور اس عدم برداشت کے رویے کا ہی شاخسانہ ہے کہ تکفیری فیکٹریاں عام ہیں ۔کہیں ذرا سی سوچ کا اختلاف ہوا نہیں کہ کفر کا لیبل چسپاں ہو جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ امت فرقوں میں بٹتی جا رہی ہے اور ہر طرح کا طبقہ اس کا شکار ہے۔ کیا جدت پسند، کیا قدامت پسند، اور کیا سائنسی سوچ رکھنے والے، بلکہ پسندانہ رویے کی بجائے پرستانہ روش نے ذہنوں کو جکڑا ہوا ہے اور یہ رویہ اس قدر سرایت کر چکا ہے کہ کوئی بھی کسی کی سوچ کو برداشت کرنے کا سوچنا بھی گوارا نہیں کرتا ۔ہر انسان اپنی سوچ کو حرف آخر سمجھتا ہے۔ سوچنے والے یہ بھی نہیں سوچتے کہ جس طرح ہم انسان ہیں اسی طرح دوسرے بھی انسان ہیں ،وہ بھی ویسے ہی سوچتے ہیں جیسے کہ ہم، ہمارا خیال اگر صحیح ہو سکتا ہے تو دوسروں کا بھی، ہم کوئی مافوق الفطرت نہیں اور نہ ہی کوئی خدائی صفت ہے ہمارے اندر کہ غلط ہو ہی نہیں سکتا۔ ضرورت ہے تو صرف اتنی کہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی انسان سمجھا جائے۔
قدامت پسند طبقہ بھی اپنی قدامت پرستی میں اس قدر گم ہے کہ زمانہ حال میں رہتے ہوئے ماضی میں زندگی گزارنا چاہتا ہے ۔ماضی کے سپنے دیکھتا ہے اور حقیقتوں سے نظریں چرائے رکھتا ہے اپنی قدامت پسندانہ روش پہ اس قدر کاربند رہنا چاہتا ہے کہ کسی بھی قسم کی جدت کو بدعت سمجھتا ہے شخصیت پرستی نے اس بری طرح سے ان کو جکڑا ہوا ہے کہ لگتا ہے کہ ان شخصیات کو انہوں نے الہ بنا دیا ہے تمام مکاتب فکر نے اپنے اپنے بت تراش رکھے ہیں اور ان بتوں کے بارے میں بات سننا تک گوارا نہیں کرتے ہر بات کو اپنی قدامت پرستانہ روش کی بھینٹ چڑھانے پہ مصر ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں، اور جو قومیں ماضی میں زندگی گزارتی ہیں وہ کبھی بھی اپنے حال کو بہتر نہیں بنا سکتیں اور نہ ہی اپنے آنے والوں کو مستقبل کی کوئی فکر دے پاتی ہیں۔
دوسری طرف جدت پسند طبقہ ہے انہوں نے جدیدیت کو اپنے اوپر اس قدر مسلط کر لیا ہے کہ ماضی کی ہر بات ہر شخصیت ان کے نزدیک قابل تضحیک ہے، اور یہ مرض ایک فیشن کی صورت اختیار کر چکا ہے ۔ اس میں بھی سب سے بڑی قباحت یہ ہے کہ سب سے پہلے اپنے بزرگوں کو برا بھلا کہتے ہیں ان کو راندہ درگاہ خیال کرتے ہیں ۔تاریخ و روایات کے سارے دفتر کو جھوٹ کا پلندا تصور کرتے ہیں ۔صحیح کیا ہے، بس وہی جو یہ سوچتے ہیں ان میں بھی ربط کا فقدان ہے۔ ماضی سے رشتہ جوڑے بغیر حال کی حالت پہ غور کئے بناں صرف مستقبل کے سہانے سپنے دیکھتے ہیں۔ حقیقت پہ غور کیے بناں سمجھے بناں صرف اپنی سوچ و فکر کا پرچار چاہتے ہیں۔ جدیدیت میں بھی خیالات کی چاشنی کے سوا کچھ نہیں ،یہ بھی خاص قسم کے متشدد رویے کا شکار رہتے ہیں جیسے قدامت پسند ہیں بلکہ ان سے بھی دو ہاتھ آگے اپنی جدیدیت کے زعم میں خود کو مافوق الفطرت سمجھنے لگتے ہیں ۔جدیدیت اور قدامت پرستوں کی صرف باتوں میں تھوڑا سا فرق ہے وگرنہ سوچ اور رویہ ایک سا رہتا ہے اور یہ لوگ صرف جدت کا نام استعمال کرتے ہیں ان کو معلوم بھی نہیں کہ جدیدیت کیا ہے ہر علم ہر فکر کو اپنی سوچ کی بھینٹ چڑھانا چاہتے ہیں اور دیکھا دیکھی اپنا منہ بھی لال کرنے پہ مصر رہتے ہیں اور اگر ان کی سوچ کا ساتھ نہ دیا جائے تو ہوبہو تکفیری رویہ سامنے دیکھنے کو ملتا ہے ۔یہ بھی ذرا بھی توقف نہیں کرتے کفر کا فتویٰ صادر کرنے میں، جہاں قدامت پسند غلامانہ حد تک ماضی سے جڑے رہنا چاہتے ہیں اسی طرح جدیدیت کے پیروکار بھی مغرب زدہ نظر آتے ہیں اور دونوں طبقے اپنی غلامانہ روش کو اپنی معراج سمجھتے ہیں ۔
نہ تو ماضی میں رہ کر زندگی گزاری جا سکتی ہے اور نہ ہی اسے جھٹلایا جا سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حال میں رہتے ہوئے ماضی کو دیکھتے ہوئے مستقبل کی پلاننگ کی جائے۔ ماضی و حال میں ربط پیدا کئے بغیر ہم کبھی بھی مستقبل کی نعمتوں سے مستفید نہیں ہو سکتے اور نہ ہی آنے والی نسلوں کو کوئی خیال کوئی فکر دے سکتے ہیں، جس کو بنیاد بنا کے وہ آنے والی قوموں میں اپنا آپ قائم رکھ سکیں دنیا کی نظروں میں اپنا مقام پیدا کر سکیں۔
میری تمام مکاتب فکر سے گذارش ہے ذرا ٹھہریں اپنا محاسبہ کریں کہ ہم اپنی متشددانہ سوچ سے اسلام کی وحدت کو تارتار کر کے فرقوں کی بنیاد کو مضبوط تو نہیں کر رہے؟ اسلام ایک ایسا نظریہ ہے جو انسانوں کو ایک وحدت میں پرونا چاہتا ہے۔ پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اس کا نام بھی لیں اور تفرقہ بازی کا شکار بھی ہوں۔ ہمارے دل ایک دوسرے کے لئے محبت سے عاری ہوں ۔کہیں نہ کہیں کوئی جھول ہے اور یہ جھول ہمیں خود دور کرنا ہو گا۔ اپنا محاسبہ کئے بنا ایسا ممکن نہیں۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ نام لیوا تو ہم اسلام کے ہوں اور دل درد انسانیت سے کوسوں دور ہوں ۔ہم محبت کے سفیر ہیں اور سفیر محبت ،نفرت کا پرچار کیسے کر سکتا ہے ؟سوچنے کی بات ہے، ہمارا ایمان محبت ہے یگانگت ہے بھائی چارہ ہے ۔ہم ایک خدا اور ایک رسول کے امتی ہیں ۔ہمارے خمیر میں ایک انفرادیت ہے ۔ضرورت ہے تو اس انفرادیت کو تلاش کرنے کی، محسوس کرنے کی، سوچنے کی، اور اس پہ عمل کرنے کی۔ جبکہ ہمارا یقین ہے کہ اسلام میں کوئی جھول نہیں ،یہ مکمل ہے تو باقی کیا رہ جاتا ہے ؟ہماری اپنی سوچ فکر صرف اس کو اسلام کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے ۔راستے خود بخود کھلتے چلے جائیں گے۔ یہ معاشرتی حسن ہے اور زندہ معاشرے کی دلیل ہے کہ ہر شخص اپنی سوچ رکھتا ہے اور اپنی سوچ کو کوئی خدائی وصف نہیں جانتا، بلکہ دوسرے کی سوچ کو برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی سوچ میں بہتری کا موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتا ۔

Facebook Comments

سانول عباسی
تعارف بس اتنا ہی کہ اک عام انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply