خوف ۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

اپنی بقاء کے ارتقائی سفر میں مغرب کو جس چیلنج کا سامنا رہا وہ موسم کی شدت تھی، شدید تر موسموں کے خلاف جدوجہد میں مغربی فرد کی توجہ کا مرکز اس کا اپنا جسم رہا، جسے صحتمند رکھنے کیلئے اس نے اپنی تحقیق کے دائرے کو مادّی علوم پر مرکوز رکھا، جبکہ مشرق میں موسموں کا اتار چڑھاؤ اس حد تک قابلِ برداشت تھا کہ مشرقی آدمی ایک دھوتی اور کُرتے میں درخت کے نیچے بِچھی چٹائی پر پورا سال گزار سکتا تھا، مشرق کو اپنی گنجان آبادی کی وجہ سے اپنی بقاء کیلئے ذہنی مشقت کا سہارا لینا پڑا کیونکہ اس کا حریف اس کے سامنے کھڑا انسان تھا، اور مشرقی فرد کو ہر حال میں اس سے برتر ہونا تھا کہ سلسلۂ زندگی چلتا رہے،
ایسا نہیں کہ مغرب نے غیر مادّی علوم میں بڑے اذہان پیدا نہیں کئے، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ایسے عظیم ذہنوں کی تعداد مغرب میں کہیں زیادہ ہے، لیکن عام آدمی کی سطح تک مغربی لوگوں کی اکثریت جسمانی طور پر زیادہ صحتمند ہے جبکہ مشرقی آدمی بقاء کے سفر میں ذہنی مقابلے کی وجہ سے کچھ معاملات میں عقلی طور پر زیادہ ہوشیار واقع ہوا ہے۔
مشرقی فرد کے اس ذہنی ارتقاء میں ذہن کے جس حصے نے سب سے زیادہ ترقی کی، طب کی زبان میں اس کا نام Prefrontal cortex ہے، جو ماتھے کی پچھلی طرف واقع ہے, اس حصے کی فعالیت نے دماغ کے دوسرے حصوں پر بھی اپنا اثر ڈالا کیونکہ دماغ ایسی مشین ہے کہ اس کا ہر پرزہ اپنی فعالیت میں دوسرے پر اثر انداز ہوتا ہے، مشرقی فرد کے دماغ کی اس غیرمعمولی فعالیت نے اس کی سوچ کی پرواز اور زاویے کو بدلا، اور اگر دماغ کی فعالیت میں زیادتی یا جھول پیدا ہوتو پھر اس کو لگام دینا آسان نہیں ہوتا، نتیجتاً مافوق الفطرت پر یقین، توہم پرستی، چاپلوسی و چالاکی ، چرب زبانی، مبالغہ آرائی ، عقلی پہیلیوں پر فورا ردعمل اور مواصلات میں مہارت جیسے لوازمات مزید فعال بن کر سامنے آئے، ان خصائل کو لوازمات کا نام اس لیے دیا کہ مشرقی آدمی کو معاشرے میں اپنی بقاء کیلئے انہی خصوصیات کا سہارا لینا ضروری تھا، بالخصوص سیاسی، سماجی و مذہبی رہبروں کی آنکھ کا تارا بننا کیلئے، کہا جا سکتا ہے کہ یہ رویہ اس آدمی کی مجبوری رہی، وقت کے ساتھ دماغ کے ان افعال کی یہ زیادتی نسل در نسل منتقل ہوتی رہی، یہی وجہ ہے کہ مشرق کے لوگ آج مافوق الفطرت اور اساطیری کہانیوں پر زیادہ یقین رکھتے ہیں، ہماری شاعری میں مبالغہ آرائی، ہمارے نوجوانوں کے اچھے کمیونیکیشن سکِلز، توہم پرستی، دوسروں پر انحصار، اعتماد کا فقدان، فنِ خوشامد و چاپلوسی وغیرہ دیکھنے میں آتے ہیں، ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کی قبیح حرکت بھی اسی ارتقائی سفر کی مرہونِ منت ہے کہ فرد کا مقابلہ فرد سے تھا۔
آپ دیکھئے کہ لڑائی جھگڑے کے دوران مغربی آدمی مکّا مارنے کو ترجیح دیتا ہے کہ اپنے دشمن کو زیادہ سے زیادہ جسمانی نقصان پہنچا سکے جبکہ مشرق میں تھپڑ مارنے کا رواج ہے کیونکہ مقصد فرد کی عزت کو نقصان پہنچانا ہے ، وہی عزت جو معاشرے میں اس کی بقاء و وقار کی ضامن ہے۔ مغربی انسان کی ترجیح حیاتیاتی بقاء ہے جبکہ مشرقی فرد سماجی بقاء کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔
دماغ کی اس مخصوص فعالیت نے مشرقی فرد کے رویوں میں جن خامیوں کو جنم دیا، اگر انہیں ایک لفظ میں سمیٹا جائے تو وہ لفظ، خوف، ہے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ خوف اور ایمان، ان دونوں کا تعلق مافوق الفطرت پر یقین سے ہے یعنی کہ ان دونوں کے تانے بانے ضرور کہیں ایک جگہ جا کر ملتے ہیں، عجب نہیں کہ فرد کو ایمان پر قائم رکھنے کیلئے خوف کے عنصر کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔
انسان کے شعور اور لاشعور کی سرحد جہاں ملتی ہے ، فرد کی ذات سے جڑے تمام بڑے فیصلے وہیں پر ہوتے ہیں، شعور کا مرکز انا ہے جس کی مدد سے انسان اپنی شخصیت کا اظہار سماج کے سامنے کرتا ہے، جبکہ لاشعور کے مرکز کو بس ایک پرچھائی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، اسی پرچھائی میں فرد کی وہ تمام خواہشیں جنم لیتی ہیں جنہیں فرد سماجی دباؤ کی وجہ سے عموما آشکار کرنے سے قاصر رہتا ہے، حالانکہ فرد کی حقیقی شخصیت یہی خواہشات ہیں، اسی لئے شخصی آئینے میں شعور اور لاشعور کے یہ مراکز ایک دوسرے کے بالکل مقابل بلکہ متبادل دکھائی دیتے ہیں، لاشعور کا مرکز انسان کی حیاتیاتی بقاء جبکہ شعور کا مرکز فرد کی سماجی بقا کا ضامن ہے، اگر لاشعور کی پرچھائیوں میں بزدلی کا عنصر ہے تو شعور کا مرکز، انا، اس بزدلی کو سماج کے سامنے بلند آواز، گھنی مونچھوں اور متکبر چال کی صورت میں پیش کرے گا تاکہ کسی حد تک تلافی ممکن ہو سکے۔
فرد خوف سے مکمل یا جزوی آزادی تب ہی حاصل کر سکتا ہے اگر وہ سماجی بقاء کی بجائے حیاتیاتی بقاء کو اہمیت دے، ہمارے اجداد کی توجہ کا حقیقی مرکز حیاتیاتی بقاء تھی اسی لئے وہ خوف و دیگر منفی احساسات سے مبرا تھے، جدید دور میں سہولتوں کے میسر آنے سے حیاتیاتی بقاء کو زیادہ خطرات لاحق نہیں، اب انسان کا وجود سماج میں اپنی عزت و مقام کو ترجیح دیتا ہے، جدید انسان کیلئے سماجی بقاء کی اہمیت بڑھنے سے حیاتیات سے جڑی وہ تمام خواہشیں، جو لاشعور کی پرچھائی میں پروان چڑھتی ہیں، آشکار نہیں ہو پاتیں، نتیجے میں جو تنازعات سامنے آتے ہیں وہ فرد کی تمام تخلیقی صلاحیتوں، شادمانی اور بھرپور زندگی کے اولین دشمن ہیں، کیونکہ حیاتیاتی بقاء کی بجائے سماجی بقاء کی ترجیح جس خوف کو جنم دیتی ہے، وہ خوف فرد کو ایک غلام میں بدلتے ہوئے دو وقت کی روٹی یا معاشرے میں نام نہاد عزت و مقام تو دے سکتی ہے لیکن حقیقی سکون سے بھرپور اور آزاد زندگی سے انسان بہرہ ور نہیں ہو پاتا۔
مغرب میں آج بھی حزوی طور پر حیاتیاتی بقاء کو لوگ اہمیت دیتے ہیں، سماج کے دباؤ کو زیادہ خاطر میں نہیں لاتے، جبکہ مشرق کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے، یہی وجہ ہے کہ بڑی سے بڑی کارپوریشنز نچلی اور درمیانے درجے کی ملازمت کیلئے مشرقی آدمی کو ترجیح دیتی ہیں کہ وہ حکم عدولی نہ کرے گا۔
فرد حقیقی خوشی اسی صورت حاصل کرتا ہے جب وہ خوف پر قابو پا لے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply