• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پاکستان میں”نیلسن منڈیلا”بننے کا سیزن/عبدالستار

پاکستان میں”نیلسن منڈیلا”بننے کا سیزن/عبدالستار

ہم اس لحاظ سے کافی خوش نصیب اور مقدروں والے ثابت ہوئے ہیں کہ ہمارے ہاں کبھی بھی “آغا وقار” جیسے نابغوں کی قلت نہیں رہی اور ان جیسے نابغین کی تصدیق و تائید کے لئے بہت ہائی فائی قسم کے لوگ بھی ہر وقت دستیاب رہتے ہیں۔ آ غا وقار ہمارے معاشرے کا وہ علامتی کردار ہے، جو عطائیت،مصنوعی پن یا دیومالائی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے،اس قسم کے کردار ہمارے ہاں خود رو پودوں کی طرح جابجا ملتے ہیں ان کا تدارک یا سدباب کرنے کی بجائے وقت پڑنے پر ریاست ان جیسوں سے کام لیتی ہے،جو جتنے زیادہ شاطر،چرب زبان اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنی مسحور کن آ واز و شخصیت کے ذریعے سے بےوقوف بنانے کے فن سے آشنا ہوتے ہیں انہیں طاقت ور اپنی چھتر چھایا میں لے لیتے ہیں جہاں ان سے رائے عامہ ہموار کرنے یا وقت کی نزاکتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بیانیہ تشکیل دینے کاکام لیا جاتا ہے اور کبھی کبھار انہی میں سے کچھ کو گود لے لیا جاتا ہے اور کوچنگ کا آ غاز کردیا جاتا ہے تاکہ بوقت ضرورت سیاسی اکھاڑے میں اتارا جاسکے۔

یاد رہے کہ پانی سے گاڑی چلانے کا دعویٰ کرنے والے عطائی انجینئر آغا وقار کے اس دعویٰ کی تصدیق کرنے والوں میں سرفہرست ڈاکٹر عبدالقدیر خان، معروف صحافی حامد میر اور بزرگ سیاستدان خورشید شاہ شامل تھے اور اس جعلی دعوے کے غبارے سے ہوا نکالنے والی ایک جینوئن،نڈر اور توانا آواز تھی جو آج بھی ہمارے ہاں جینوئن سائنسی فکر کی ترویج کے لئے کوشاں ہے، بیرون ملک میں درجنوں مواقعوں کے باوجود بھی ہمارے ہاں خجل ہو رہا ہے، عجیب دیوانہ ہے انہی کے بیچ مر کے مٹی ہونا چاہتا ہے جو اسے تسلیم کرنے سے ہی انکاری ہیں مگر شاید وہ اپنی منفرد آواز کے ساتھ یہیں آخری ہچکی لینے کا فیصلہ کر چکا ہے۔ اس سائنٹیفک برین کا نام پرویز ہود بھائی ہے، جو ہر دور میں اپنی ایک منفرد آواز کے ساتھ ہر دور کے آغاز وقاروں کے آگے ڈٹ کے کھڑا ہو جاتا ہے جس عطائی نے بھی جب کبھی سائنس کا پرسونا ماسک پہن کے شعبدہ بازی کرنے کی کوشش کی اس کا جعلی نقاب اتارنے والوں میں ہودبھائی سرفہرست رہا۔

مگر ہم جس سماج کے باسی ہیں وہاں ملاوٹ رگ رگ میں بلکہ مٹی تک میں بسی ہوئی ہے اسی لئے شائد کچھ بھی خالص نہیں رہا اور یہاں ملاوٹ کا سکہ چلتا ہے۔ ہمیں جینوئن یا اوریجنل کچھ بھی ہضم نہیں ہوتا جن قوموں کو بھی ملاوٹ کا چسکہ لگ جاتا ہے پھر وہاں دیومالائی ذہنیت و کردار پیدا ہونے لگتے ہیں جنہیں ریاست کے طاقت ور اپنے ذاتی مفادات کے حصول یا تحفظ کے لئے سماج میں پنپنے یا پروان چڑھانے کے لیے گنجائش پیدا کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے اس ملک میں شروع دن سے یہی کچھ چلتا آ رہا ہے اور ہم آج تک یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ ہم کون اور کیا ہیں اور ہمارا ریاستی بندوبست ریپبلک ہے یا اسلامک؟

ضرورت یا وقتی مفادات کے لیے جمہوریت اور مذہب کے درمیان وقت کے حساب سے ادھر ادھر سرکتے رہتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ ہم آج 2023 میں بھی دوراہے پر کھڑے ہیں اور اپنا کوئی مجموعی وقار یا ویژن قائم نہیں کر پائے۔لنگڑی لولی جمہوریت”جیتنے والے گھوڑوں” کی بنیاد پر کبھی پرانے چہروں اور کبھی کئی سالوں کی جدوجہد کرکے پروجیکٹ عمران کی صورت میں سامنے لائی جاتی ہے اور وقت پڑنے پر پاؤں کے نیچے سے پھٹا سرکا یا ہٹا دیا جاتا ہے۔ آج کا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آخر کب تک؟

طاقتوروں کے تجربات کا خمیازہ ہم جیسے کیڑوں مکوڑوں کو بھگتنا پڑتا ہے جو آج بھی دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں اور حکمرانوں کی عیاشیوں کا تاوان بجلی کے بلوں اور کھانے پینے کی چیزوں اور انسانی جان بچانے والی ادویات پر مہنگائی اور ٹیکس کے نام پر جبر کی صورت میں گزشتہ 74 سالوں سے ادا کرتے آرہے ہیں۔ ان کا امتحان آخر کب ختم ہوگا؟

صورت حال اس قدر ابتر ہو چکی ہے کہ اکثر اوقات تو سفید پوش طبقے کے گھروں میں بھی پکانے کے لئے کچھ نہیں ہوتا سطح غربت سے نیچے والوں کو تو چھوڑ دیں ان کی تو ہماری نظر میں ویسے بھی کوئی حیثیت نہیں ہے یہ پیچارے تو شروع دن سے ادھار یا مانگ تانگ کر پوری کرتے آ رہے ہیں مگر سفید پوش طبقے کا کیا؟

بس فرق صرف اتنا سا ہے کہ یہ بیچارے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلا سکتے، سماجی بھرم بہت ظالم حقیقت ہوتی ہے جس کے آگے بے بس ہو کر بہت سے والدین خود کشی کرنے پر بھی مجبور ہو جاتے ہیں اس قسم کی ہزاروں مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ اب صورتحال بڑی تیزی سے اسی طرف جا رہی ہے، کچھ عرصہ مزید مہنگائی کا یہ بوم چلتا رہا تو ہمیں بہت سی خودکشیاں دیکھنے کو ملیں گی دوسری طرف ریاستی بڑے گتھم گتھا ہیں ان کا تو کچھ نہیں بگڑے گا مگر غریب عوام کا کچھ نہیں بچے گا۔ کیونکہ آ گ یا طوفان بڑے بڑے محلات کا کچھ نہیں بگاڑتے لیکن غریبوں کے کچے مکان اور جھونپڑیوں کو روند کر یا جلا کر خاکستر کر کے چلے جاتے ہیں۔

دوسری طرف باغیوں کا سیزن چل رہا ہے جو کل کے لاڈلے تھے وہ آج زیر عتاب ہیں ہیں چونکہ ریاست نے رخ دوسری طرف کر لیا ہے اور وہ لاڈلے آج سب باغی ہو چکے ہیں۔ مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ لاڈلے سے باغی بن جانے کا یہ سفر ان وقتی پہلوانوں کو کچھ نہیں سکھا پاتا یا یہ سیکھنا اور سمجھنا ہی نہیں چاہتے؟ وقت گزر جاتا ہے پھر ویسے کے ویسے ہو جاتے ہیں، پھر کوئی آتا ہے انہی وقتی پہلوانوں کو بہلا پھسلا کے اپنے اکھاڑے میں لے جاتا ہے وقت نکلنے پر چلتا بنتا ہے۔ دماغ کا استعمال تو وطن عزیز میں بالکل ہی منع ہے اسی لیے تو حد نگاہ سے آگے دیکھنے کی جرات کرنے والوں کو عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے، ظاہر ہے جہاں ذرا سی بات پر بلاسفیمی کا دھڑکا لگا رہتا ہو وہاں کہاں کوئی دماغ والا رہنا چاہے گا۔ اسی لیے ہم آج دماغ والوں سے محروم ہوتے جا رہے ہیں جہاں دماغ والے رہنا پسند نہ کریں تو پھر وہاں “زومبیز” کا راج ہوتا ہے جو ذرا سی بات پر بھڑک اٹھتے ہیں۔

ہمیں ان وقتی پہلوانوں پر حیرت ہوتی ہے جب یہ ریاست کے “لے پالک” بن کے للکار بازیاں کر رہے ہوتے ہیں اس وقت انہیں ذرا سا بھی خیال نہیں رہتا کہ ایک دن انہیں بھی اپنے پاؤں زمین پر ہی ٹکانا پڑیں گے تو اس وقت کیا بنے گا؟ جیسے ہی وقت ندا آتا ہے یا یہ زیر عتاب آتے ہیں تو نیلسن منڈیلا کی ایکٹنگ شروع کر دیتے ہیں مگر سرکاری مہمان بننے اور وقتی آزمائشوں سے گزرنے کے بعد ٹسوے بہانا شروع کر دیتے ہیں۔فواد چوہدری کا انٹرویو ملاحظہ کرلیں جو انہوں نے رہائی کے فوری بعد کاشف عباسی کو دیا ہے، پوچھا گیا کہ جب بچے آپ کو جیل میں ملنے آتے تھے تو اس وقت ان کی اور آپ کی کیا حالت ہوتی تھی تو جواب میں پھوٹ پھوٹ کے رو دئیے،ان کے ساتھ جو معاملہ ہوا وہ بالکل نہیں ہونا چاہیے تھا اور کسی کو بھی اپنی بات کہنے کی آزادی ہونی چاہیے مگر عاجزانہ سا سوال ہے کہ اگر آپ کے معصوم بچے پلٹ کر آپ سے سوال کرتے کہ
“پاپا آپ جیل میں کس جرم کی وجہ سے قید ہوئے”
تو دیانتداری سے بتائیں کہ کیا آ پ انہیں مطمئن کر پائیں گے اور کوئی تسلی بخش جواب دے پائیں گے؟

اُصولی موقف یا اصولی سیاست کی بات تو براہ کرم مت کیجئے گا اس قسم کی باتیں سن سن کر ہمیں ان شبدوں پر اب کوئی یقین نہیں رہا بلکہ تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں یہ الفاظ آج اپنا تقدس اور معنویت ہی کھو چکے ہیں اب کوئی بھی اس قسم کے الفاظ استعمال کرتا ہے تو ڈر سا لگنے لگتا ہے۔ دوسرے پہلوان جو نیلسن منڈیلا بننے کے مشن پر ہیں جو سرکاری مہمان بننے کی کھینچا تانی میں ہی اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں اور اتنے حواس باختہ ہوچکے ہیں کہ انہیں کلمہ پڑھ کے اپنے کردار کی گواہی دینا پڑ رہی ہے،تاحیات بھوک کا اعلان بھی کر رہے ہیں اور ساتھ ساتھ پانی بھی نوش فرما رہے ہیں۔ سرکار پریشان کیوں ہوتے ہیں یہ سب آپ لوگوں کا ہی بنایا ہوا سماج یا انتظامی ڈھانچہ ہے جس کی گرفت میں چند گھنٹے گزارنے کے بعد آپ کا رونا دھونا ہی بند نہیں ہو رہا، جناب یہ وہی سسٹم اور سماج ہے جس میں آپ بڑے دھڑلے سے مسلسل وزیر بن کر پروٹوکول انجوائے کرتے آرہے ہیں اب یہ تکلیف کیسی اور رونا دھونا کیسا؟

آ پ کی تکلیف تو عارضی ہوگی اور جلد مناسب راستہ بھی مل جائے گا، کل کوئی اور کام یا وزارت آ پ کا مقدر بن جائے گی مگر سرکار ہم جیسے کیڑے مکوڑوں کا کیا جو مسلسل اسی سسٹم کی چکی میں نجانے کب سے پستے چلے آ رہے ہیں؟ جناب فواد چوہدری صاحب دو دنوں میں ہی بچوں کے تذکرے پر آنکھیں بھر آئیں ان والدین کا ذرا سوچیں جو بغیر کسی گناہ کے سالہا سال پیروی نہ ہونے یا وکلاء کی فیس نہ دینے کی وجہ سے اندھیری جیل میں سڑتے رہتے ہیں آخر ان کے بھی تو معصوم بچے ہوں گے جو مسلسل پوچھتے رہتے ہوں گے مگر بدحال و بدنصیب باپ کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا ہوگا؟

سرکار آ پ تو ٹھہرے موقع پرست و موقع شناس اور تقریباً ہر بندوبست کے کسی نہ کسی طرح سے چہیتے بن ہی جائیں گے مگر عوام کا کیا قصور جن کے ساتھ آپ اصولی سیاست و موقف کے نام پر ہر الیکشن میں کھلواڑ کرتے آرہے ہیں؟ کبھی کسی کی گود میں اور کبھی کسی کے کاسہ لیس بن کر اپنے وقتی رہنما کی شان میں قصیدہ گوئی کرنے میں لگ جاتے ہیں،ذاتی مفادات کے کھیل میں اتنا آگے چلے جاتے ہیں کہ پیچھے مڑ کے دیکھنا بھی بھول جاتے ہیں۔ ہم کیسے بھول جائیں کہ بنی گالا کے رجسٹرڈ صادق و امین جسے دنیا پلے بوائے کے نام سے جانتی ہے اور جس کا ماضی وحال بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں تھا اور جو آج بھی ٹیرئین جیسی خوبصورت بچی کو اپنی بیٹی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کو آپ جیسوں نے ایک معجزاتی اور اوتاری شخصیت ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور جان بوجھ کر سب کچھ جانتے ہوئے بھی ان دیکھا کرتے ہوئے وقتی مفادات کے لیے وقتی بندوبست کا ساتھ دیا جو کہ آ پ کا وطیرہ یا طرز سیاست ہے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

مگر اس سماج کا کیا جس میں آ پ جیسوں نے نفرتوں کا الاؤ سلگانے میں ایک بھرپور کردار ادا کیا؟خیر جو مرضی کریں مگر نیلسن منڈیلا کو بد نام مت کریں، اس جیسا حوصلہ و ظرف من میں جگانے کے لئے 27 سال تک کال کوٹھڑی میں اعتکاف کرنا پڑتا ہے تب جاکے کہیں نیلسن منڈیلا بنتا ہے جو رہائی کے بعد انہی لوگوں کو معاف کر دیتا ہے جنہوں نے اس پرنجانے کیسے کیسے ظلم ڈھائے ہوتے ہیں اور آپ تو وقتی یاترا سے ہی ہمت ہار بیٹھے۔ آپ جیسے موقع پرست وقتی پہلوانوں سے عوام کا اتنا پوچھنا تو بنتا ہے کہ کیا آپ کا کام فقط اتنا سا رہ گیا ہے کہ محض ذاتی مفادات کے لئے دوسروں کی غلاظتوں پر”ٹاکیاں” مار کے انہیں چمکاتے رہیں؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply