تجدید ۔۔مختار پارس

امکانِ تجدیدِ وفا کی کوئی صورت نکالی جاۓ، مالک سے یوں بے رخی تو حیوان بھی نہیں کرتے۔ یہ طبیعت کی نارسائی ہے یا اذہان کی ابتلا کہ انسان کسی کرم، کسی مہربانی کو خاطرِ پریشاں میں جگہ ہی نہیں دیتا۔ خود کو ذرا سی ٹھیس پہنچے تو دوست، دوست نہیں رہتے۔ یہ تک یاد نہیں رہتا کہ جس ہاتھ کو ہم نے جھٹکا ہے، وہ کبھی ہمارے سروں پر دستِ شفقت تھا۔ بزرگوں کے پاس سر جھکا کر اپنی غلطیاں تسلیم کرنے کی روایت ہی ہم نے اس ڈر سے ختم کر ڈالی کہ کہیں ہمیں کسی کو بزرگ تسلیم نہ کرنا پڑ جاۓ۔ بِن مرشد کے لوگ انا کی آگ میں جل کر راکھ ہو جاتے ہیں مگر انہیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ یہ چنگاری ان کے اندر کے چقمقاق کا نتیجہ ہے۔ پتھر، پتھر پر گرتے ہیں تو ٹوٹ جاتے ہیں اور آگ لگا دیتے ہیں۔ انسان کا اس آگ کو بجھانا بہت ضروری ہے۔

حیوانوں کو ہم خواہ مخواہ ہی بے زبان کہتے ہیں۔ عقل والوں کےلیے ان کے طریقِ زندگی میں نشانیاں ہیں۔ یہ کیا راز ہے کہ وہ نطق نہیں رکھتے، عقل نہیں رکھتے، نگاہ بھی نہیں رکھتے، مگر یاد رکھتے ہیں۔ انہیں آگ کی پہچان ہے، وہ اس کے قریب نہیں جاتے۔ یہ کیوں ہے کہ احساسِ محبت انہیں سرکشی پر مائل نہیں کرتا۔ وہ مالک کا دیا ہوا کھا کر کسی اور گھر میں جا کر مالک کی شکایت کیوں نہیں کرتے۔ کسی ناگہاں تکلیف میں آ جائیں، بیمار ہو جائیں یا بھوک سے گر جائیں تو بھی اپنے پالنے والے کو غصے سے نہیں دیکھتے۔ اگر انسان اس سے برعکس کرتا ہے کہ اس کے پاس سوچ اور سمجھ ہے تو پھر حیف ہے۔ اگر حیوان یہ سب کر گزرتے ہیں کہ وہ بے زبان ہیں اور عقل و خرد سے عاری ہیں تو یہ بات ماننے کے قابل نہیں۔ یہ مقامِ حزیمت ہے کہ جس مخلوق کو انسان کےلیے بنایا گیا، اس نے اپنے مالک سے کبھی منہ نہیں موڑا اور جس کےلیے یہ دنیا تخلیق کی گئی، اس نے مالک کو کبھی پہچانا ہی نہیں۔

رات کی تاریکی جب امیدِ صبح میں تحلیل ہوتی ہے تو گھونسلوں میں سرِ شام سو جانے والے پرندے اٹھ جاتے ہیں۔ ان کی حمد و ثنا کا وقت خدا نے مقرر کر رکھا ہے۔ یہ حضرتِ سلیمانؑ کی تاکید ہے یا ان پر بھی کوئی نبی اُترا ہے، یہ معلوم نہیں۔ مگر پو پھٹتے ہی شاداب چہچہاٹوں کا ایک ہجوم فضاؤں میں بکھر جاتا ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ دانے دنکے کی تلاش میں نکلیں، وہ شکر بجا لاتے ہیں کہ مولا تم نے ہمیں ایک اور دن دے دیا۔ ہمیں گھونسلوں سے اڑان بھر کرخود کو ثابت کرنے کی کچھ اور مہلت مل گئی۔ ہے کوئی خوش نصیب جس نے علی الصبح پرندوں کی یہ موسیقیت سنی ہے تو وہ بتا سکتا ہے کہ طائرانِ سحر کا شور کسی کے خوف میں منعقد نہیں ہوتا۔ ان صداؤں میں صرف محبت کے لہجے ہوتے ہیں۔ پھر اس کے بعد دن بھر وہ بیٹھتے نہیں۔ کوئی رزق کی تلاش میں اڑ جاتا ہے، کوئی تنکے ڈھونڈ کر گھونسلے بناتا ہے، کوئی کسی کو اڑنا سکھاتا ہے۔ کسی کے ذمہ نظامِ قدرت کے کچھ نہاں کارھاۓ عظیم ہیں تو کسی نے فلسفہء تسلیم و رضا کو ثابت کرنا ہے۔ جب ان ننھے ننھے پرندوں کی صبح ہوتی ہے اور وہ خدا کے حضور ‘اللہ ھو’ کر رہے ہوتے ہیں، اس وقت ہم میں سے کتنے ہیں جن کو اپنا مالک یاد آتا ہے؟ کیا نظامِ حیات میں انسان کا سویرا نہیں ہوتا؟

انسان گھر سے دعا کر کے نکلے تو اس کے ذمہ کوئی ذمہ داری لگے۔ ذمہ داریاں بھی اس وقت سمجھ آتی ہیں جب کوئی انہیں فطرت سے سیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ پیغام رسانی صرف کبوتروں کا کام نہیں اور ہجرت صرف مرغابیاں نہیں کرتیں۔ جب ذمہ داری لگتی ہے تو پھر غار کے منہ پر مکڑی جالا بن دیتی ہے اور کبوتر انڈے دے دیتے ہیں۔ یونس کو ماہی کے شکم میں کچھ نہیں ہوتا اور دنبہ اسماعیل کی جگہ گردن حاضر کر دیتا ہے۔ قصویٰ نے بھی تو سرکارؐ کو قبا کے مقام پر اتارنا تھا۔ کچھ تو تھا کہ لوگوں کو ان کا اصل نام بھول گیا مگر ان کا ‘ابو ھریرۃ’ ہونا تاریخ میں محفوظ ہو گیا۔ کوئی ‘باز الشہاب’ ہو تو سمجھے کہ کتابِ حکیم میں دو صد دفعہ تذکرۃ الحیوانات کی بابت کیا ہے۔ یہ ‘نمل’ کیا ہے، یہ نحل کیا ہے۔ کبھی ذباب، کبھی جراد، کبھی فراش کبھی قمل۔ کبھی ہمیں بتایا گیا کہ انسان جب اپنی بلندیوں سے گرتا ہے تو ‘قردۃ خاسعین’ کی صورت بن جاتا ہے اور کبھی ہمیں سمجھایا گیا کہ فراعین کا سامنا ہو تہ موسیٰ کا عصا بھی خدا کے حکم سے ثعبان بن جاتا ہے۔ کہا گیا کہ مچھر جیسی مثال میں بھی حکمت ہے مگر ہماری فرعون بننے کی روایت نہ ٹوٹ سکی۔ ہم نے سمجھنے کی کوشش ہی نہ کی اور عنکبوت سے ڈرتے رہے اور کہف و کلب سے نفرت کرتے رہے۔ ہم نے خنزیر کو نجس العین جان لیا مگر حرام نہ چھوڑ سکے۔ ابابیلوں نے جب ہاتھیوں کو خس و خاشاک کر ڈالا، ہم نے پھر بھی کعبہ پر چڑھائی نہ چھوڑی۔ انسان نے سورۃ بقرہ تو پڑھ لی مگر سونے کے بچھڑے کو پوجنا نہ چھوڑا۔
نبیوں کی تربیت گدڑیے کے روپ میں ہوتی ہے۔ ان کے کاندھوں پر احترامِ آدمیت کا بوجھ ڈالنے سے پہلے انہیں بھیڑوں بکریوں کا نگہبان بنایا۔ انہیں بتایا کہ شیطان، چنچل، بے صبری، ٹکریں مارتی بکریوں کو قابو کیسے کرنا ہے۔ انہیں بتایا کہ بیشتر بھیڑیں بیچاری مسکین ہوتی ہیں اور سر جھکا کر ایک دوسرے کے پیچھے چلتی رہتی ہیں۔ ان کے ذمہ لگایا کہ ریوڑ کو منزل تک کیسے لے کر جایا جاتا ہے۔ حضرتِ داؤدؑ اس وقت اپنا ریوڑ لے کر جا رہے تھے جب انہوں نے شکست کھاتی ہوۓ بادشاہ کی فوج کو اپنی دانش سے یوں سہارا دیا کہ اس فوج نے ان کو ہی بادشاہ بنا دیا۔ ہر شخص اپنے ریوڑ کا بادشاہ ہے۔ ایک دن آۓ گا جب اس سے اس کے ریوڑ کی بابت پوچھا جاۓ گا۔

مالک کی پہچان ہو گی تو کوئی جواب بن پاۓ گا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ لوگ سگ باشی سے کیوں ڈرتے ہیں؟ اس لیے کہ وہ محبت اور وفا نہیں کرنا چاہتے اور یہ جانور انہیں یاد دلاتا ہے کہ ان کا مالک سے کیا رشتہ ہے۔ وہ اپنے مالک کو اپنے سے زیادہ چاہتا ہے۔ وہ اس کے ریوڑ کی حفاظت کرتا ہے اور اس کو کبھی شکایت کا موقع نہیں دیتا۔ وہ اپنے مالک کو دیکھ کر ایسے خوش ہوتا ہے جیسے اسے دنیا جہان کی خوشیاں مل گئی ہوں۔ اس کا بس نہیں چلتا کہ وہ اس کے قدموں میں بیٹھا رہے۔ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا رہتا ہے اور مالک کے بولنے سے پہلے سمجھ جاتا ہے کہ اسے کیا کرنا ہے۔ وہ جو وحدانیت کا چراغ لے کر غار میں چھپ کر سو گۓ تھے، کلب کو یونہی تو ساتھ نہیں لے کر گۓ تھے۔ خدا نے سگ دریدہ شکار کو حلال قرار دیا ہے اور جس فن سے وہ شکار کرتے ہیں، اسے سراہا ہے۔ کسی کو معلوم ہے کہ وہ فن کیا ہے اور وہ شکار کیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

شکار وہ ہے جو خود شکار ہو گیا۔ فن یہ ہے کہ جو سمیٹنا ہے، مالک کے قدموں میں لا کر رکھ دینا ہے۔ اس سے طلب کرنا ہے مگر شکوہ نہیں کرنا۔ اس سے محبت کرنا ہے مگر اسے مجبور نہیں کرنا۔ ریگِ جاں میں ایک پرسکون سکوت ہے۔ چاندنی رات میں یہ ریگزار سونے کی طرح چمکتا ہے۔ غزالوں کا غول اٹھکیلیاں کرتا پھر رہا ہے۔ مرغِ سخن اپنے گھونسلے میں صبح کے انتظار میں ہے۔

Facebook Comments

مختار پارس
مقرر، محقق اور مصنف، مختار پارس کا تعلق صوفیاء کی سر زمین ملتان سے ھے۔ ایک عرصہ تک انگریزی ادب کے استاد رھے۔ چند سال پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک کرنٹ افیئرز کے پروگرام کی میزبانی بھی کی ۔ اردو ادب میں انشائیہ نگار کی حیثیت سے متعارف ھوئے ۔ان کی دو کتابیں 'مختار نامہ' اور 'زمین زاد کی واپسی' شائع ہو چکی ھیں۔ ادب میں ان کو ڈاکٹر وزیر آغا، مختار مسعود اور اشفاق احمد جیسی شخصیات سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ٹوئٹر پر ان سے ملاقات MukhtarParas@ پر ھو سکتی ھے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply