بالکنی۔۔عنبر عابر

یہ ایک حیرت انگیز بات تھی اور میرا دوست ارسلان یہ معمہ سمجھنے سے قاصر تھا۔

میرے سامنے اس کا وسیع و عریض بنگلہ تھا جو اس نے حال ہی میں تعمیر کرایا تھا۔بنگلہ اگرچہ شاندار تھا لیکن اس کا مکین تنہا تھا۔ہم دونوں چند لحظے بنگلے کی اس بالکنی کو تکتے رہے جس کا رخ مغرب کی جانب تھا اور جہاں سے ڈوبتے سورج کا نظارہ کیا جاسکتا تھا، پھر وہ میری طرف مڑا اور اپنی بوجھل آنکھوں سے مجھے دیکھتے ہوئے بولا۔
“یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں پہلی دفعہ ہاسٹل میں رہائش پذیر ہونے جا رہا تھا۔۔میں ایک ایسا کمرہ لینا چاہتا تھا جس کے متصل کوئی بالکنی نہ ہو۔یہ جان کر تم حیرت زدہ رہ جاؤگے کہ درجنوں کمرے ٹٹولنے کے بعد مجھے ایک ایسا کمرہ پسند آیا جس کے ساتھ بالکنی موجود تھی۔۔۔ اس کا رخ مغرب کی جانب تھا جہاں کھڑا ہوکر میں ڈوبتے سورج کا نظارہ کرتا تھا۔ مجھے پورے پانچ سال اس کمرے میں گزارنے پڑے تھے“۔

وہ اپنی پرانی باتیں بیان کر رہا تھا۔۔۔شاید بالکنی اور اس کا ساتھ پرانا تھا،اگرچہ اسے بالکنی سے خدا واسطے کا بیر تھا لیکن یہ اس کی زندگی میں سرائیت کر گئی تھی۔
“جب مجھے جاب ملی اور میں کراچی سدھار گیا تو مجھے اپنے محکمے کی طرف سے رہائش کیلئے ایک فلیٹ ملا، میں خوش تھا، کیونکہ اس فلیٹ میں کوئی بالکنی نہیں تھی، لیکن جانتے ہو میں نے کیا کیا؟“ اس نے دفعتاً مجھ سے پوچھا
”کیا کیا؟“ میں بے اختیار بول اٹھا

“میں نے محکمے کے چند بڑوں کو دام میں لاکر اس فلیٹ میں تبدیلی کی اور اس میں ایک بالکنی بنا دی۔۔ اس کا رخ مغرب کی جانب تھا اور وہاں سے ڈوبتے سورج کا نظارہ کیا جاسکتا تھا“
میں حیرت سے اسے تکتا رہ گیا۔۔۔۔اگر وہ بالکنی سے نفرت کرتا تھا تو وہ اس کے قریب کیوں جاتا تھا؟

“آج جبکہ میں ریٹائر ہوگیا ہوں،تو میں ایک ایسا بنگلہ بنا سکتا تھا جس میں بالکنی نہ ہو،میں نے ڈیزائنر سے گفت و شنید کی،اس نے میری پسند کا نقشہ بنا دیا۔۔۔ اور اب تم سامنے وہ بالکنی دیکھ سکتے ہو جس کا رخ مغرب کی طرف ہے“
ہم دونوں خاموش نظروں سے بالکنی کو دیکھنے لگے۔

یہ سال بعد کی بات ہے جب مجھے خبر ملی کہ میرا دوست اسی بالکنی سے گر کر جاں بحق ہوگیا ہے جو وہ نہ چاہتے ہوئے بھی بنوا چکا تھا۔
مجھے اس کی ساری باتیں یاد آئیں۔۔۔کیا اسے پہلے سے پتا تھا کہ وہ بالکنی سے گر کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا جو وہ ساری زندگی بالکنی سے نفرت کرتا رہا؟ میرے جسم میں خوف کی ایک لہر سی دوڑ گئی۔
اس کا کچھ ذاتی سامان، جن کے بارے اس نے پتا نہیں کب وصیت لکھ رکھی تھی، میرے حوالے کیا گیا۔یہ چند کتابیں تھیں، رجسٹر تھے، بچپن کے کھلونے تھے۔
ایک دن میں اس کا سامان دیکھ رہا تھا تو جماعت چہارم کی کسی کتاب میں سے ایک تصویر ملی۔۔۔یہ اس کے بچپن کی تصویر تھی۔۔۔ اس کے ساتھ کوئی دوسرا بچہ بھی تھا۔دونوں ایک بالکنی میں کھیل رہے تھے اور پسِ منظر میں سورج غروب ہورہا تھا۔
نیچے لکھا تھا۔۔” اعوان، میرا دوست، جو دس سال کی عمر میں بالکنی سے گر کر فوت ہوگیا اور میں موت کو ایک لاینحل معمہ سمجھنے لگا۔ “

Advertisements
julia rana solicitors london

میں دیر تک اس تصویر اور عنوان کو دیکھتا رہا۔۔۔۔پھر ایک طویل سانس لیکر میں نے وہ تصویر واپس کتاب میں رکھ دی۔۔۔
“تو کیا ساری زندگی وہ اس لئے غیر اختیاری طور پر بالکنی کے قریب جاتا رہا کہ وہ اپنے لاشعور میں اٹکے موت کے معمے کو حل کرنا چاہتا تھا؟
میں نے لرزتے دل کے ساتھ کرسی کی پشت سے ٹیک لگا لی اور بالکنی سے ڈوبتے سورج کا نظارہ کرنے لگا!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply