قہقہے ۔۔۔ عارف

مغل بادشاہ اورنگزیب نے خوشحال خان خٹک کو گرفتار کرنے سرخ پوش سپاہیوں کا دستہ دہلی سے اکوڑی بھیجا۔ یاد رہے کہ مغلدربار کے یہ سپاہی موت کے ہرکارے تصور کئے جاتے تھے۔ یہ دستہ جن کو گرفتار کرتا تو سمجھو وہ بندہ موت کا حقدار بن جاتا۔

اس دستے نے خوشال خان خٹک کو گرفتار کیا تو خوشحال خان نے آخری بار اپنی بیوی سے ملنے کی اجازت مانگی۔ اجازت ملنے پر وہاپنی بیوی سے ملے۔اور اُسے کہاخاتون گھر کو چاروں طرف  سے موت کے ہرکاروں نے گھیرا ہوا ہے۔ میں گرفتار ہو چُکا ہوں۔بس آخری بار تم سے ملنے کی اجازت ملی ہے۔بیگم نے مسکراتے ہوئے کہاخوشال جب دہلی سے واپس آنا ہوا،تو میرے لئےریشم کے کپڑے ساتھ لے کر آنا۔۔

گھر کی دہلیز پار کی تو بھرپور قہقہہ لگایا۔ دستے کا کمانڈر حیران کہ یہ کیسا بندہ ہے۔ اس کو معلوم  بھی ہے کہ اورنگزیب اس کو پھانسیدے گا پھر بھی قہقہے لگا رہا ہے۔ دریائے اٹک پار کرنے کےلئے سپاہی جیسے ہی کشتیوں میں سوار ہوے سامنے کچھ خواتین دریاکنارے کپڑے دھو رہی تھیں۔ خوشال خان نے ان کو دیکھا اور پھر قہقہہ لگایا۔ کمانڈر مزید پریشان ہوا۔

دہلی لے جا کر ان کو اورنگزیب کے رُوبرو پیش کیا گیا۔ جُرم یہ تھا کہ خوشال نے بغاوت کی تھی۔ سزا سُن کر خوشحال خان خٹکنے بھرپور قہقہہ لگایا۔ بادشاہ نے حیرت سے اُسے دیکھا کہ کیسا پاگل انسان ہے موت کو سامنے دیکھ کر بھی قہقہے لگا رہا ہے۔ پوچھاتم ہنس کیوں رہے ہو؟” “۔ خوشال خان کے بجائے کمانڈر بول پڑاجناب یہ گرفتاری کے وقت بھی قہقہے لگا رہا تھا۔ بادشاہ نےپُر تجسس لہجے میں خوشحال سے پوچھاماجرا کیا ہے؟

خوشحال خان خٹک ہنستے ہوئے گویا ہوئےعالی مرتبہ آپ کے سُرخ پوش سپاہیوں نے مجھے گرفتار کیا۔ میری موت یقینی ہے لیکنبیوی نے دمِ رُخصت  دہلی سے ریشم کے تھان  لانے کی فرمائش کردی۔دریائے اٹک پر زنجیروں میں جکڑا کشتی میں سوار ہوا۔سامنے ایک خاتون کپڑے دھو رہی تھی۔ اس کے بڑے گلے میں اس کے بڑے بڑے پستان نظر آئے تو نفس بے قابو ہوگیا۔ہنسی آئی کہ موت کا سامنا ہے مگر نفس کی مُنہ زوریاں پھر بھی جوبن پر ہیں۔

اورنگزیب نے پوچھا۔اب کیوں قہقہہ چُھوٹ گیا ہے؟ جواب دیاآپ کی شان و شوکت اور دہلی کی خوبصورت خواتین دیکھ قہقہہچُھوٹ گیا کہ اگر بادشاہ سلامت صرف اتنی اطلاع دیتے کہ اتنی رنگینیاں دہلی میں آپ کی مُنتظر ہیں تو بخدا اپنے بُراق گھوڑے کی پیٹھپر خود آکر گرفتاری دے دیتا۔ مگر جناب میری بیوی، میرا عضو تناسل اور آپ کی عقل میں کوئی فرق نہیں ہے۔ تینوں ایک جیسےہیں۔

تین مہینوں کے لاک ڈاؤن نے قوم کو دانے دانے کا محتاج بنایا ہوا ہے۔ نوکریاں ختم ہوگئیں، کاروبار تباہ ہیں۔ کھانے کے لالےپڑے ہوئے ہیں۔ اور  بیگم کہہ رہی ہیں کہ عید پر بڑا بیل لیکر آئیں گے تاکہ محلے میں رُعب بڑھ جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

صُبح سے میرے قہقہے چُھوٹ رہے ہیں۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply