سپریم کورٹ کا اس ملک میں ایک طاقت ور ترین تصور ہوتے منصب پر تعیناتی اور مدتِ ملازمت کے حوالے سے تفصیلی فیصلہ آگیا ہے۔اس فیصلے میں بار ہا آئین کے آرٹیکل 243کا حوالہ دیا گیا ہے۔وزیر اعظم کے ’’آئینی اختیار‘‘ کا ذکر بھی ہوا۔ اس فیصلے کو تین سے زیادہ مرتبہ پڑھنے کے بعد قانون کی باریکیوں کے بارے میں قطعی جاہل میرے ذہن نے اخذ یہ کیا ہے کہ شاید معاملے کو طے کرنے کے لئے آئینی ترمیم کی ضرورت ہوگی۔محض Act of Parliamentسے معاملہ طویل المدتی بنیادوں پر طے نہیں ہوگا۔میری ذاتی رائے کی مگر کوئی وقعت نہیں۔بالآخر وہی ہوگا جو ہماری حکمران اشرافیہ میں اقتدار کے کھیل سے جڑے گروہ طے کریں گے۔
صحافت میں بہت لگن سے اپنی جوانی اور توانائی خرچ کرنے کے لئے کئی برسوں بعد بالآخر دریافت کرلیا ہے کہ مجھ جیسے لکھاری ریاستی فیصلہ سازی کے ضمن میں معمولی ساکردار ادا کرنے کی سکت سے بھی محروم ہیں۔خود کو دھوکا دینے کی مجھے عادت نہیں۔خوش گمانی سے خوف آتا ہے۔جو معاملہ سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آجانے کے بعد آنے والے کئی دنوں تک ایوان ہائے اقتدار میںزیر بحث رہے گا اس کے بارے میں میری ہرگز کوئی ذاتی رائے نہیں ہے۔ہورہے گا کچھ نہ کچھ والی امید کے ساتھ زندہ رہنے کی کوشش کرتا ہوں۔قانون سازی ویسے بھی میرا ذمہ یا فرض نہیں ۔ یہ فریضہ قومی اسمبلی اور سینٹ کے معزز اراکین نے نبھانا ہے۔ وہ کیا سوچ رہے ہیں یہ جاننے کے لئے گزشتہ دس دنوں میں حکومت اور اپوزیشن میں مؤثر شمار ہوتے کئی دوستوں سے تنہا ئی میں طویل ملاقاتیں کی ہیں۔وہ سب تفصیلی فیصلے کے انتظار کا مشورہ دیتے ہوئے اپنی جان چھڑاتے نظر آئے۔پیر کی شام تفصیلی فیصلہ آیا تو قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوچکا تھا۔پریس گیلری میں بیٹھے رہنے کے بجائے میں نے وزراء کے کمروں اور اپوزیشن کے چیمبر میں گھس کر ’’ردعمل‘‘ جاننے کی کوشش کی۔ہر جانب سناٹا تھا۔کوئی ایک شخص بھی ’’آف دی ریکارڈ‘‘ گفتگو کو تیار نہیں تھا۔جس معاملے پر ’’عوام کے چنے‘‘معزز اراکین برسوں کی شناسائی کے باوجود لب کشائی سے احتراز کریں اس کی بابت میں دو ٹکے کا رپورٹر اپنی ’’گرانقدر رائے‘‘ کے اظہار کو خواہ مخواہ کا پنگا تصور کروں گا۔ٹھوس ذرائع کی بدولت میرے پاس اطلاع یہ بھی ہے کہ منگل اور بدھ کے روز وطن عزیز میں لوگوں کی ’’ذہن سازی‘‘ پر مامور عوام میں مقبول اینکر خواتین وحضرات کی اہم لوگوں سے ملاقاتیں ہوں گی۔ ان ملاقاتوں کے بعد ٹی وی سکرینوں پر جو رائے آپ کو مقبول ترین سنائی دے اس پر غور کرتے ہوئے اپنی رائے بنا لیجئے گا۔میری کوتاہی پروازکو معاف کرتے ہوئے۔یہ حقیقت یاد رکھنے میں البتہ کوئی عار نہیں کہ اگر سپریم کورٹ کی ہدایت کی روشنی میں واقعتا آئینی ترمیم کی ضرورت پڑی تو عمران حکومت کو دوتہائی اکثریت کی حمایت درگار ہوگی۔اسے یقینی بنانے کے لئے اسے نواز شریف کے نام سے منسوب پاکستان مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے رہ نمائوں سے سنجیدہ مذاکرات کرنا ہوں گے۔ان رہ نمائوں کو لیکن عمران خان صاحب بہت حقارت سے ’’چور اور لٹیرے‘‘ قرار دیتے ہیں۔انہیں “NRO”دینے کو تیار نہیں ہیں۔سوال اٹھتا ہے کہ کسی نہ کسی نوعیت کا NROلئے بغیر اپوزیشن والے عمران حکومت کی مدد کو تیار کیوں ہوں گے۔اس سوال کا جواب ڈھونڈتے ہوئے چند وزراء سے گفتگو کی تو ان کا رویہ بھی مصالحانہ نظر نہیں آیا۔فیصل واوڈا سے میری ملاقات کبھی نہیں ہوئی۔وہ تواتر سے ٹی وی پروگراموں میں اپوزیشن سے تعاون طلب کرنے کے امکان کو شدت سے رد کررہے ہیں۔اطلاع میرے پاس یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم کے چند مخلص مشیران فیصل صاحب کے اپوزیشن کے بارے میں ادا کئے کلمات سے پریشان ہوگئے۔ انہیں خدشہ لاحق ہوا کہ ان کلمات سے اپوزیشن ’’مشتعل‘‘ ہوجائے گی۔ عمران حکومت کے فیصل صاحب جیسے تگڑے وزراء کو مگر کامل یقین ہے کہ اپوزیشن کو جو بھی کہتے رہو وہ ’’اسی تنخواہ‘‘ پر کام کرنے کو تیار ہوگی۔سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں آئینی ترمیم یا محض قانون سازی کی ضرورت ہوئی تو بلاچوں چرا حکومت کے تیار کردہ مسودے پر تصدیقی انگوٹھے لگادے گی۔اپوزیشن کے کئی لوگوں سے ملاقاتوں کے بعد مجھے اندازہ ہواکہ حکومتی ’’رعونت‘‘ بے سبب نہیں۔ فیصل واوڈا کی خوداعتمادی کو بے بنیاد ٹھہرانا شاید غلط ہوگا۔وزیر اعظم عمران خان صاحب بھی میرے پاس پہنچی مصدقہ اطلاعات کے مطابق ان دنوں معمول سے زیادہ Relaxنظر آرہے ہیں۔ کسی بھی نوعیت کی فکرمندی دکھائے بغیر ہنستے مسکراتے کابینہ کے اجلاسوں میں بیٹھتے ہیں۔ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار مارکہ چند ’’آئینی اور قانونی ماہرین‘‘ نے انہیں اپنی ’’قیمتی رائے‘‘ پیش کرنا چاہی تو خان صاحب نے طنزیہ کلمات ادا کرتے ہوئے اسے نظرانداز کردیا۔جو ’’صاحب رائے‘‘ اس ضمن میں بہت نمایاں رہے ان کا نام اس خوف سے نہیں لکھ رہا کہ وہ میرے لکھے سے بہت خفا ہوجاتے ہیں۔مجھے تو ویسے بھی ’’خبر‘‘ دینا تھی۔اپنا فرض ادا کردیا ہے۔لوگوں کے نام لے کر انہیں خود سے ناراض کیوں کروں۔سیاست کا ادنیٰ طالب علم ہوتے ہوئے یہ لکھنے سے مگر باز نہیں رہ سکتا کہ عمران حکومت کے سرکردہ افراد کی یہ سوچ کہ اپوزیشن سرجھکائے ایک اہم اور حساس معاملے میں اس کا ہر صورت اتباع کرے گی ناقابل تلافی نقصان کی حد تک Back Fireبھی کرسکتی ہے۔لچک سیاست کا بنیادی وصف اور تقاضہ ہے۔قومی اسمبلی میں عمران حکومت کو اپنے تئیں اکثریت حاصل نہیں۔وہ کئی اتحادی جماعتوں کے تعاون کی محتاج ہے۔سینٹ میں یہ اتحادیوں کی حمایت کے باوجود قانون سازی کی قوت سے محروم ہے۔ اپوزیشن کی مستقل تضحیک کرتے ہوئے اہم اور حساس ترین معاملات کے ضمن میں قانون سازی کا فریضہ ادا کرنا ناممکن نہ سہی تو مشکل ترین ضرور ہوجائے گا۔سپریم کورٹ سے تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد اب کئی دنوں تک جو معاملہ میڈیا پر حاوی رہے گا اس کی وجہ سے مجھے اصل فکر یہ لاحق ہے کہ ہماری قومی سلامتی سے جڑے دیگر اہم معاملات پر بھرپور توجہ نہیں دی جاسکے گی۔مثال کے طورپر حال ہی میں امریکہ کا ٹرمپ کے بہت قریب تصور ہوتا ایک سینیٹر لنڈسی گراہم پاکستان آیا تھا۔اسلام آباد میں اس نے صحافیوں سے گفتگو نہیں کی۔یہاں سے کابل پہنچنے کے بعد اس نے مگر میڈیا کے روبرو یہ دعویٰ کیا کہ وہ پاکستان کو یہ پیغام دینے گیا تھا کہ طالبان کو ’’سیزفائر‘‘ پر رضامند کیا جائے۔اس دعویٰ کو دہراتا رہا کہ فقط پاکستان ہی طالبان کو ٹرمپ کی ترجیحات کے مطابق افغانستان میں امن کی بحالی میں تعاون پر آمادہ کرسکتا ہے ۔ سادہ لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ امریکہ ایک بار پھر افغانستان کے قضیے کو پاکستان کے سر ڈالتے ہوئے اس ملک سے اپنی افواج نکالنے کی تیاری کررہا ہے۔امریکہ کے طاقتور ترین اخبار ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ نے تین برس تک پھیلی عدالتی کارروائی کی بدولت دوہزار سے زیادہ دستاویزات تک رسائی حاصل کی ہے۔یہ دستاویزات بنیادی طورپر امریکہ کے اہم ترین عہدے داروں سے تفصیلی انٹرویوز پر مبنی ہیں جو گزشتہ اٹھارہ برسوں سے افغان جنگ کے مدارالمہام تصور ہوتے تھے۔ان دستاویزات کی اشاعت کے بعد امریکہ کے لئے افغانستان سے کسی نہ کسی صورت ’’جندچھڑانا‘‘ اب لازمی نظر آرہا ہے۔ٹرمپ تو اقتدار سنبھالنے کے دن ہی سے اس خواہش میں مبتلا رہا ہے۔مجھے فکر یہ لاحق ہے کہ امریکہ 1990کی دہائی کی طرح افغانستان سے ایک بار پھر قطع تعلق کی تیاری کررہا ہے۔اس کی اپنائی لاتعلقی کے بعد افغانستان میں جو انتشار وخلفشار اُبھرے گا اس کے اثرات کا سب سے زیادہ شکار پاکستان ہوگا۔بھارت نے 5اگست 2019کے بعد سے مسلسل پاکستان کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کیا ہوا ہے۔ہماری معیشت آئی ایم ایف کے تیارکردہ منصوبے میں جکڑی سانس لینا بھی دشوار محسوس کررہی ہے۔سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آجانے کے بعد ان معاملات پر ہم مگر کماحقہ توجہ نہیں دے پائیں گے۔کوئی امید بر نہیں آتی والا عالم نظر آرہا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں