مُدرَکات۔۔مختار پارس

جب جب نظر نے دھوکا کھایا، سب کو سب یاد ہے۔ تسلیم کی خو کو ثابت نہ کیا جاۓ تو قصہءِ دگر ورنہ مسلمہ امر تو یہ ہے کہ نگاہ کو اختیارِ ذات پر اختیار نہیں۔ سوچ اورعمل اسی پردے کے ہٹنے کے منتظر رہتے ہیں مگر مانتے نہیں۔ کائنات میں زندگی کی علامت صرف انسان ہے اور انسان میں زندگی صرف اس کی آنکھ میں نظر آتی ہے۔ جسم و جان ایک تصور کے محتاج ہیں اور ایک کا تصور کسی کا محتاج نہیں۔ ایک سے صفر تک کی الٹی گنتی گننے میں وقت ہی کتنا لگتا ہے مگر کچھ نہیں سے پہلے کی ساعت پر نظر نہیں ٹکتی۔ کاروانِ حیات نے یہ ثابت کیا کہ سب کچھ ، کچھ نہیں کی طرف لوٹ جاۓ گا۔زمینایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے عدم کی طرف رواں دواں، اپنے ہی گرد مسلسل گھوم رہی ہے مگر انسان کو یقین ہے کہ وہ اس کرہءارض کو اپنی انگلی پر گھما رہا ہے۔ اس دنیا میں سب سے بڑا التباس یہ ہے کہ وہ نہیں ہے۔

ہر انسان کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے جنم لیا ہے۔ ہونے کی حقیقت کچھ کر گزرنے سے جڑی ہے۔ جس نے حکایتِ خونچکاں میں کسی نئے   باب کا اضافہ نہیں کیا، وہ سمجھیں کہ جنم ہونے سے رہ گیا۔ یہ آدرش صرف ان جوانمردوں کی مرہونِ منت ہے جنہوں نے کوئی ایسی نئی بات کہی یا کوئی ایسا نیا کام کر ڈالا جس سے گردشِ ایام ایک لمحے کو ٹھٹکی اور پھر تیزی سے آگے بڑھ گئی۔ یہ علم کی کتھا ہے جو نہ قلم کی محتاج ہے اور نہ مکتب کی تمنا رکھتی ہے۔ خدا نے پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ پڑھنے کی شرط کتاب تک محدود نہیں۔ جو حدوں کو پار نہ کر سکا، وہ جنم لینے سے قاصر رہا۔ تاریخ اسے بطور جنس اعداد میں شمار کرے گی اور اس کو کسی نام سے یاد نہیں رکھ سکے گی۔

کسی دوسرے شخص کی زندگی کو اپنے پیمانوں سے دیکھنا بھی فریبِ نظر ہے۔ کمالِ فن کا مال و زر سے کوئی تعلق نہیں حالانکہ دونوں رزق ہیں۔ فراخی اور تنگدستی میں مشترک صرف عطا ہے۔ عزت اور ذلت کوئی نقد نہیں  خرید سکتا کہ اس سودے میں نسل در نسل تربیت کام آتی ہے۔ فقر اور فاقے کو کام و دہن کی خواہشوں پر فوقیت دینے کا عمل انسان ایک جست میں نہیں سیکھ سکتا۔ ایک واقعہ انسان کی زندگی تبدیل کرنے کےلیے کافی رہتا ہے مگر ایک زندگی انسان کو دریافت کرنے کےلیے تھوڑی ہے۔ کسی دوسرے کی خوشیوں میں خوش ہونا ایک اعلیٰ انسانی عمل ہے۔ کسی کے دکھ میں ساتھ بیٹھ کر رو لینا انسانیت کی دریافت کی جانب پہلا قدم ثابت ہے۔ اعلیٰ اقدار کو ہستی میں شامل کرنے کےلیے آنکھوں پر لگے فریب کے آبگینے توڑنے پڑتے ہیں؛ خود کی تلاش میں دوسروں کا عکس دیکھنا بہت ضروری ہے۔ خود سے زیادہ دوسروں کی تکریم کرنا اس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔

کسی نقطہءنظر کو تعمیر ہونے میں وقت لگتا ہے۔ زمانہ سامنے حقائق کے انبار لگا دیتا ہے اور یہ اختیار ہمارا ہے کہ ہم اپنی مرضی کے تیشے اٹھا کر خود کو کیسے تراشتے ہیں۔ کسی راستے پر چل نکلنے کا الزام کسی اور کے سر لگانا سراسر دھوکہ دہی ہے۔ انسان کو اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی منزلوں کا تعین اپنے خوابوں میں کرلے۔ منازل مل جائیں تو بھی نامکمل رہتی ہیں اور نہ ملیں تو خواب، سراب اور شتاب مل کر دھمال ڈالتے ڈالتے بےحال ہو جاتے ہیں ۔ یوں لگتا ہے جیسے زمانے میں عداوت اور بے عدلی کے سوا کچھ نہیں رکھا۔ مگر سچ یہ ہے کہ ہر شخص کو وہی ملتا ہے جس کا وہ حقدار ہے۔ جس میں جتنی سکت وہ اتنا پہلوان، جس کی جتنی سوچ وہ اتنا رازدان، جس میں جتنا ظرف وہ اتنا بھاگوان۔

انسان کی خدا کو فراموش کر کے خود کی تلاش میں نکلنے پر حیرت ہوتی ہے۔ قطرے کے گہر بننے کے عمل کو کس نے دیکھا ہے؟ نایاب اسے کہتے ہیں جو قسمت میں نہیں لکھا ہوتا۔ نادان اسے گردانتے ہیں جو سمجھنا نہیں چاہتا۔ ناراض وہ ہوتا ہے جو راضی رہنے پر مستعمل نہ ہو۔ اس جہانِ خاک میں کتنے ہونگے جو اپنی قسمت پر شاکر ہونگے؟ کیا ایسے بھی کوئی ہیں وہ جو ذانوۓ تلمذ تہہ کیے رکھتے ہیں اور ماتھے پر شکن بھی نہیں آنے دیتے؟ ہم ایسے کتنے شمار کر سکتے جو حالتِ حرب میں بھی مسکرانا جانتے ہیں؟ کتنے التباس ہیں جنہوں نے ہمیں گھیر رکھا ہے۔ ہر طرف شور کا سکوت ہے۔ چراغ تو تاکِ نسیاں میں رکھ کر بھلا دیے گئے ۔اندھیری رات میں مسافروں کو کیا خاک نظر آنا ہے۔ عالمِ غیب سے ہر شخص پر وحی تو آنے سے رہی۔ کاش ہر کوئی سمجھ جاۓ کہ جو کچھ ہمیں نظر آتا ہے وہ عکس کا بھی عکس ہے اور کچھ نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

التباس بےوجہ نظر نہیں آتے۔ یہ ایک حیرت کدہ ہے۔ یہاں رات اس لیے حسیں لگتی ہے کہ گیسوۓ فراق کی طوالت دردِ دل کی روشنی سے زیادہ دلفریب ہے۔ گردشِ دوراں کی رفتار کامل لگتی ہے مگر کسی ساعت کا کوئی اعتبار نہیں۔ تروتازہ خوشبودار گلاب ایک روز مہک کر مغالطے میں سوکھ جاتا ہے۔ یونہی کسی ایک روز آبِ رواں نے بادِ صرصر کے سامنے گھٹنے ٹیک کر خاکِ خشک کا روپ دھار لینا ہے۔ پھر اس کے بعد کانوں پڑی آواز بھی واہمہ بن کر سنائی دے سکے گی۔ یہ دنیا ایک مزار ہے جہاں زندگی کبوتروں کی طرح طوافِ محبت میں مبتلا ہے۔ اگر زندگی اس زمین کے علاوہ کہیں اور نہیں تو پھر اس کہکشاں کے سارے سورج اسی زمین کے گرد گھوم رہے ہیں۔ ضروری نہیں کہ خدا نے آدم کہیں اور بھی اتارے ہوں۔ میرے خدا نے مجھے کچھ اور بنایا تھا مگر میرے مُدرَکات نے مجھے یہاں تشکیل کچھ اور کر دیا ہے۔ میں کہیں اور نہیں مل سکوں گا۔ مجھے ڈھونڈنا ہے تو ملاقات وہیں ہو گی جہاں سے میرا رختِ سفر باندھا گیا تھا۔

Facebook Comments

مختار پارس
مقرر، محقق اور مصنف، مختار پارس کا تعلق صوفیاء کی سر زمین ملتان سے ھے۔ ایک عرصہ تک انگریزی ادب کے استاد رھے۔ چند سال پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک کرنٹ افیئرز کے پروگرام کی میزبانی بھی کی ۔ اردو ادب میں انشائیہ نگار کی حیثیت سے متعارف ھوئے ۔ان کی دو کتابیں 'مختار نامہ' اور 'زمین زاد کی واپسی' شائع ہو چکی ھیں۔ ادب میں ان کو ڈاکٹر وزیر آغا، مختار مسعود اور اشفاق احمد جیسی شخصیات سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ٹوئٹر پر ان سے ملاقات MukhtarParas@ پر ھو سکتی ھے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply