نقصان۔۔مختار پارس

بڑا نقصان ہو گیا۔ خدا نے وقت کی قسم کھا کر احساس دلایا مگر ہم سیلِ رواں کو روک نہ سکے۔ آبِ رواں پر سوار ملاحوں کا بہتے پانیوں پر اختیار نہیں۔ زمانے کی رفتار کو روکنا تو ممکن نہیں تھا ،تو ہم خود کو تو آہستہ روی پر قائل کر سکتے تھے۔ ہمیں تو رک کر تماشا دیکھنا تھا کہ یہ وقت کدھر کو جاتا ہے مگر ہم بھی یہ جانے بغیر بھاگ کھڑے ہوۓ کہ سفر تیزی میں نہیں سکون سے کٹتا ہے۔ جلدی میں تو مسافر صرف ہلکان ہوتے ہیں، زادِ راہ بھی بکھر جاتا ہے، ہمراہ بھی لوگ نہیں رہتے اور منزل بھی بیتاب نہیں ہوتی۔ مقصدِ زیست سفر ہے، مقام نہیں۔ دورانِ سفر جو حاصل ہوتا ہے، اسے سمیٹنے کا حوصلہ چاہیے۔ سفر شہسواروں کا نصیب نہیں۔ خاکِ پا کو سنبھالنے والے نقصان سے بچ سکتے ہیں۔

میٹھی رُت بیت گئی۔ سچے لمحوں میں ساتھ بیٹھنے والے گزر گئے۔ کئی خود دور ہو گئے اور بہت سوں کو ہم نے خود دور کر دیا۔ انسان اپنے اصل سے دوری اختیار کرتا ہے تو چاہنے والوں سے دور ہو جاتا ہے۔ جبلتیں انسان کو اس کے اصل مقام سے دور کر دیتی  ہیں۔ خود پرستی نفرتوں کا پرچار کرتی ہے اور کسی کو تسلیم نہیں کرنے دیتی۔ انسان جب صرف اپنے بارے میں سوچتا ہے تو وہ انسان نہیں رہتا۔ وہ دوسروں کے بارے میں سوچنا شروع کرے تو ناخدا بن جاتا ہے۔ جس نے کسی کے سر پر ہاتھ رکھ دیا، تخلیقِ ارض و سما کو ثابت کر دیا۔ ظرف بڑا کرنے میں محنت زیادہ لگتی ہے لیکن یہی وجہِ رضا و عطا ہے۔ دست دراز سے دلگداز ہونے کا سفر بہت دلچسپ ہے۔

کیوں کی تلاش رک گئی۔ ہم نے اپنے دیکھے کو سچ مان لیا۔ ہر شخص کے گلے میں دروغ کا طوق ڈال کر اسے سرِ بازار گھسیٹا۔ لوگوں کی کہانیوں کو اپنی مرضی کے انجام دینے کی کوشش میں تہذیبوں کا تصادم کروایا۔ تفریق اور تقسیم میں پسے ہوۓ لوگوں کی زبانیں سلب کر دی گئیں۔ جس نے آواز اٹھائی، اسے ناہنجار کہا۔ جس سے بولا نہ گیا، اسے نادار پکارا۔ حق بات کہنے والے کی ہزیمت کی۔ ہم جھلستے رہے اور سمجھتے رہے کہ یہ دنیا ہم سے روشن ہے۔ خاک جب بھسم ہو کر راکھ ہوئی اور اڑی تو ٹھکانہ نہ ملا۔ کوہکن اور کوہسار میں ایک قدر مشترک ہے، کوہکن سچ کی تلاش میں مگن رہتا ہے اور پہاڑ سچ کے انتظار میں کھڑا رہتا ہے۔ ہم نے بہت ظلم کیا کہ سچ کی تلاش کو روک دیا۔ سورج پہاڑ کے اس پار طلوع ہونے کے انتظار میں رکا رہا اور ہم سمجھتے رہے کہ ہم نے دنیا کو حدت سے بچا لیا۔
ہم شک میں پڑ گئے۔ یقین کو تارتار کر دیا۔ بے یقینی میں ایک دوسرے کی پہچان کو کھو دیا۔ آوازِ دل کو واہمہ جان کر خرد کی تلاش میں خرچ ہو گئے۔انتظارِ اجل میں ہم نے زندگی کو زنگ آلود کر ڈالا۔ سب قریب قریب بھٹکتے رہے مگر منزلِ مراد نہ پا سکے۔ لگن میں استقلال ہوتا تو یوں جگ ہنسائی نہ ہوتی۔ لوگ تاریخ کی منڈیر پر بیٹھ کر یوں کائیں کائیں نہ کرتے۔ فلسفہ، استدلال اور نفسیات صرف یقین رکھنے والوں کے میڈیم ہیں۔ بے یقینوں کو نہ سمجھ آتی ہے اور نہ سنائی دیتا ہے۔ شور بھی سب سے زیادہ وہی مچاتے ہیں جنہیں دکھائی نہیں دیتا۔ جو دیکھ پاتا ہے وہ چپ سادھ لیتا ہے۔ خاموشی یقین کی علامت ہے اور ہم اسی لیے خاموش نہیں ہیں۔

پھر نقصان یہ ہوا کہ حیا آنکھوں کے دروازے کھول کر نکل گئی۔ پردوں میں بھی نہ کہی جانے والی بات زبان پر آگئی تو پرندے خاموش ہو گئے ۔ بتیس محافظ گوشت کے لوتھڑے کی حفاظت نہ کر سکے۔ جس نامراد کو اپنی نیت پر اختیار نہ ہو، وہ کہاں کا پردھان۔ وقت کے لقمان نے حفظِ مراتب کا دھیان نہ رکھا اور نگاہِ یار میں ذلیل و خوار ہو گیا۔ لفظوں سے کھیلنے والے لہجوں پر قابو نہ پا سکے اور غفلت کی دلدل میں دھنس گئے۔ کس کام کی لیاقت جب کردار میں دیانت شیوہ نہ ہو سکے۔ جس نے مریم سے شرم نہ سیکھی وہ چاہے نام حیادار رکھے، رہے گا سزاوار۔ جو نقصان ہو گیا، اس سے بڑا نقصان انجام میں ہے۔ کسی کو اس انجام کا انتظار نہیں۔ آنکھوں میں جو شرم رہ گئی ہے اس کی بقا صرف اختصار میں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جب تارے ٹوٹ کر گر چکے ہوں تو استعارے کون تلاش کرے۔ کس کو اتنا حوصلہ میسر کہ حریمِ جاں کو حازم قرار دے اور ابتلا کی طرف کھلنے والے دروازے مقفل کر دے۔ یہ سارا عالم خسارے کی بساط پر بسا ہوا ہے۔ حقیقت بھی نظر کا دھوکا ہے اور افسانے صرف اختراع۔ موجود نے ناموجود کو مبہم کر دیا ہے۔ لامتناہی اب ایک جست کے فاصلے پر ہے اور نقصان اس آوازِجرس کا ہے جو قافلے کو دور اور دہر کی جانب کوچ پر راضی کر چکی تھی۔ کوئی اس نقصان سے ماورا ہے تو وہ خدا ہے۔ مخلوق تو جنم بھی لیتی ہے تو مصائب کے درمیان اور پروان بھی چڑھتی ہے تو آزمائش میں۔ کوئی اس نقصان سے بچ سکتا ہے تو وہ بندہءخدا ہے۔

Facebook Comments

مختار پارس
مقرر، محقق اور مصنف، مختار پارس کا تعلق صوفیاء کی سر زمین ملتان سے ھے۔ ایک عرصہ تک انگریزی ادب کے استاد رھے۔ چند سال پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک کرنٹ افیئرز کے پروگرام کی میزبانی بھی کی ۔ اردو ادب میں انشائیہ نگار کی حیثیت سے متعارف ھوئے ۔ان کی دو کتابیں 'مختار نامہ' اور 'زمین زاد کی واپسی' شائع ہو چکی ھیں۔ ادب میں ان کو ڈاکٹر وزیر آغا، مختار مسعود اور اشفاق احمد جیسی شخصیات سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ٹوئٹر پر ان سے ملاقات MukhtarParas@ پر ھو سکتی ھے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply