مستونگ میں ایک اور اندوہناک سانحہ

مستونگ میں ایک اور اندوہناک سانحہ
نادر بلوچ
آج مستونگ میں پیش آنے والے سانحہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، شہداء اور پسماندگان کے ساتھ دلی ہمدردی کا اظہار ہے اور دعا ہے رب جلیل سے کہ تمام متاثرین کے لواحقین کو صبر و جمیل عطا فرمائے، مستونگ میں یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، اس سے قبل بھی زائر کی بسوں پر حملے ہوچکے ہیں۔ آج کے سانحے کے بعد جہاں ملک بھر کی فضاء سوگوار ہوگئی ہے وہیں کچھ سوالات نے بھی جنم لیا ہے۔ نوٹ کیا گیا ہے کہ فاٹا، کرم ایجنسی اور دیگر دور دراز علاقوں میں ہونے والے سانحات پر نہ تو میڈیا میرٹ کے مطابق کوریج دیتا ہے اور نہ ہی سیاسی قیادت اس طرح کھل کر سامنے آتی ہے جیسے آج مولانا عبدالغفور حیدری کے قافلے پر ہونے والے خودکش حملے کے بعد سامنے آئی یا پھر سانحہ اے پی ایس کے موقع پر سامنے آئی۔ اسی طرح دہشتگردی کے سینکڑوں واقعات ہوئے لیکن مولانا فضل الرحمان آج پہلی مرتبہ دہشتگردوں کو للکارتے ہوئے نظر آئے، گزارش ہوگی کہ اُن کی شخصیت اور قدکاٹھ جن چیزوں کا تقاضا کرتا ہے وہ ان کا ضرور لحاظ رکھا کریں اور ہر واقعہ پر اسی طرح سامنے آیا کریں۔ آج مولانا فضل الرحمان کی جانب سے دہشتگردوں کے خلاف جو موقف سامنے آیا ہے وہ قابل ستائش ہے اور انہوں نے پوری قوم کی ترجمانی کی ہے لیکن اسے فقط اپنی جماعت کے خلاف ہونے والے سانحہ تک محدود نہیں رہنا چاہیئے۔
ایک اور پہلو جس کی طرف نشاندہی ضروری ہے کہ وہ یہ کہ شہداء بھی تقسیم کردئیے گئے ہیں، بعض شخصیات کھل کر اس لئے سامنے نہیں آتیں کیوں کہ ان کا کوئی اپنا نشانہ نہیں بنا ہوتا۔ سچ یہ ہے کہ دہشتگرد پاکستان کے عوام کےخلاف یکسو ہیں، جبکہ متاثرین اپنے اپنے مذہبی، سیاسی اور لسانی خول میں بند ہیں اور فقط مخصوص واقعات کی مذمت کرتے دکھائی دیتے ہیں، یا پھر ایک لائن کا مذمتی بیان دیکر سمجھتے ہیں کہ حق ادا ہوگیا ہے۔ حق تو یہ ہے کہ جس بھی مکتب، مسلک یا شخصیت پر حملہ ہو تمام سیاسی و مذہبی قائدین وہاں جائیں اور اظہار یکجہتی کریں۔ اگر دہشتگردی اور دہشتگردوں کا مقابلہ کرنا ہے تو سب کو بلاتفریق مذہب و مسلک سامنے آنا ہوگا اور دہشتگردوں، ان کے سہولتک اروں اور ان کے آقاوں کو واضح پیغام دینا ہوگا کہ ہم ایک ہیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ کے اپنے نشانہ بنیں تو آپ سامنے آئیں اور کارروائی کا مطالبہ کریں جبکہ دوسرے کسی پاکستانی یا مسلک و مذہب سے تعلق رکھنےو الے کو نشانہ بنایا جائے تو آپ فقط بیان دیکر جان چھڑا لیں۔
یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اپنی اَنا کے خول سے نکل کر سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی 8 اگست 2016ء کے اندوہناک سانحہ کوئٹہ پر تیار کی گئی رپورٹ پر من وعن عمل درآمد کراتے تو قوم آج ایک سانحہ نہ دیکھتی، لیکن وہ چوہدری نثار ہی کیا جو اس طرح کے اقدامات اٹھائے جس سے ملک میں سکون ہو اور امن کے دشمنوں کو شکست ہو۔ سچ یہ ہے کہ بہت سارے واقعات اس لئے رونما ہوتے ہیں کہ ریاست اور ادارے اپنی ذمہ داریاں درست طریقے سے انجام نہیں دیتے جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی رپورٹ میں انہی کوتاہیوں کی نشاندہی کی ہے۔ سیاسی و مذہبی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ وزیر داخلہ سے سوال کریں اور پوچھیں کہ آپ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی انکوائری رپورٹ کی سفارشات پر کتنا کام کیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ میڈیا کو بھی اپنی روش تبدیل کرنا ہوگی، اگر پارا چنار، فاٹا یا کسی اور ایجنسی میں کوئی سانحہ رونما ہوتا ہے تو اسی طرح کوریج دینی چاہیئے جیسے باقی سانحات میں دی جاتی ہے۔ عموماً نوٹ یہی کیا گیا ہے کہ چھوٹے علاقوں میں ہونے والے سانحات و واقعات پر میڈیا ایک چھوٹی سی خبر چلا کر نکل جاتا ہے لیکن کوئی بڑی شخصیت نشانہ بنے یا کسی بڑے شہر (کراچی، لاہور اسلام آباد) میں واقعہ پیش آئے تو پھر میرا تھن کوریج کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ سب پاکستانی ہیں، سب مسلمان ہیں اور سب کا درد سانجھا ہے جسے محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔

Facebook Comments

نادر بلوچ
نادر بلوچ، ڈان نیوز اسلام آباد میں سینئر اسائمنٹ ایڈیٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں، 2007 سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں، اس کے علاوہ اے آئی وائے، اپنا نیوز، سماء ٹی وی، ابتک ٹی وی میں کام کرچکے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے امور پر خاص نگاہ رکھتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply