جب کووڈ 19 کی تاریخ لکھی جائے گی۔۔ذیشان نور خلجی

یہ چین ہے۔ 2019ء کے اواخر میں جیسے ہی یہاں کرونا وائرس پھیلنا شروع ہوا تو لاک ڈاؤن لگا دیا گیا اور سخت حفاظتی تدابیر اختیار کی گئیں۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ انہوں نے بہت جلد ہی اس وباء پر قابو پا لیا۔
اور تب ابھی پاکستان میں یہ وائرس نہیں پہنچا تھا لیکن یہود و نصاریٰ کی سازشوں والا وائرس تو یہاں تب سے براجمان ہے جب سے ہم نے علم و فن کے دروازے اپنے اوپر بند کر لئے ہیں۔ اور مزے کی بات ہے کہ چین جیسی ابھرتی ہوئی سپر پاور کو تو اس بات کا ادراک نہ ہو سکا لیکن پاکستانیوں نے دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے انکشاف کرنا مناسب سمجھا کہ یہ وائرس دراصل امریکہ کا چین پر حملہ ہے تاکہ اس کی معیشت کو تباہ کیا جا سکے اور دنیا پر اپنی اجارہ داری قائم کر سکے۔

ابھی یہ باتیں جاری ہی تھیں کہ کرونا وائرس بیڈ منٹن کی شٹل کی طرح اڑتا اڑتا امریکہ کے کورٹ میں بھی جا گرا۔ اور پھر کب کے خاموش بیٹھے بھارتیوں کی بھی جان میں جان آئی۔ اب گاؤ ماتا کے پجاریوں نے ہاتھ باندھتے ہوئے کہا کہ دراصل یہ وائرس چین کی سازش ہے جس کا مقصد امریکہ کو تباہ کرنا ہے۔ لیکن صرف یہی تک اکتفاء نہ کیا گیا بلکہ ساتھ ہی جے شری رام کا نعرہ لگاتے ہوئے وہاں کی مسلم اقلیت پر بھی چڑھ دوڑے۔ دراصل بھارت جیسے پسماندہ معاشرے میں مذہبی تڑکے والی دال خوب پسند کی جاتی ہے نا، تو یہ تو ہونا ہی تھا۔ کہا گیا کہ یہ وائرس مسلمان اپنی تھوک، لعاب اور لمس سے پھیلا رہے ہیں لہذا ان کا سماجی بائیکاٹ کیا جائے اور ان سے کسی قسم کا تعلق نہ رکھا جائے۔

اب پاکستان میں چونکہ بھارت کی طرح کوئی بھی مذہبی اقلیت اتنی کثیر تعداد میں نہیں ہے کہ انہیں خاص اہمیت دی جائے تو پھر بغض نکالنے کو مسلمانوں کے دوسرے فرقے ہی بچتے ہیں۔ لہذا کہا گیا کہ دراصل ایرانی زائرین ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہ وائرس پاکستان لے کر آئے ہیں۔ اور دوسری طرف ہمارے تبلیغی بھائیوں نے اپنی بے وقوفیوں کی بدولت سارا گناہ اپنے سر لے لیا۔
ابھی یہ سازشی تھیوری گھڑی جا رہی تھی کہ سروں پر سچ مچ کا کرونا وائرس آن ٹپکا اور پھر وہ ہاہا کار مچی کہ الامان والحفیظ۔

کسی نے کہا کہ یہ ایک خالص وبائی مرض ہے تو کسی نے کہا کہ یہ اللہ کا عذاب ہے جو عورتوں کی فحاشی کی وجہ سے ہم پر مسلط ہوا ہے اور کسی کا کہنا تھا کہ بس ایک افواہ ہی ہے اور اس کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں۔ اور کچھ لوگ جو کہ غیر معمولی عقل کے حامل تھے لیکن یہ طے کرنا باقی تھا کہ یہ غیر معمولی پن، عقل کی زیادتی کی وجہ سے ہے کہ کمی کی وجہ سے، ان کا کہنا تھا کہ دراصل سب ہی جھوٹ ہے۔ امریکہ اور یورپ میں ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا اور وہاں کوئی موت نہیں ہوئی بلکہ زندگی اپنے معمول پر چل رہی ہے۔ بس تیسری دنیا کو ڈرانے کے لئے میڈیا پر یہ ڈرامہ رچایا جا رہا ہے۔ اور کوئی پوچھنے والا پوچھ رہا ہے کہ جب آپ یا آپ کا کوئی عزیز رشتہ دار بھی اس کرونا کا شکار نہیں ہوا تو پھر آپ کیسے اس کو سچ مان رہے ہیں۔

اور پچھلے دنوں کی بات ہے لاہور کے ایک ہسپتال میں کرونا سے متاثرہ ایک شخص کو رکھا گیا اور جناب چپکے سےوہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے پھر خوشاب انٹر چینج سے انہیں پکڑا گیا۔ جب کہ کراچی میں ایک گھر میں کرونا وائرس کا انکشاف ہوا۔ امدادی ٹیم ان کے گھر پہنچی، آگے سے کسی نے دروازہ کھولنا ہی مناسب نہ سمجھا۔ اور اہل خانہ چونکہ صاحب حیثیت تھے اور ایک طاقتور ادارے سے تعلق رکھتے تھے لہذا میڈیا کو بھی کچھ خاص مصالحہ لگانے کو نہ مل سکا۔ اور گجرات کی صورتحال یہ تھی کہ یہاں کے یورپ پلٹ شہری گھروں میں چھپ کے بیٹھے رہے اور باوجود حکومتی اصرار کے اپنے ٹیسٹ نہ کروائے۔

اور اب ایک نئی بے پر کی چھوڑی جا رہی ہے کہ اگر کوئی مریض مر جاتا ہے تو ڈاکٹر حضرات اسے کرونا کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں اور خوامخواہ لوگوں کے جنازے خراب کر رہے ہیں۔ میں تو کہتا ہوں، ہو نہ ہو وہ ڈاکٹر بھی یہودی ہی ہوں گے۔ مگر افسوس ہم ان کے ختنوں سے اندازہ نہیں لگا سکتے۔
خیر ! یہ قصہ تو عوام کا تھا لیکن یہاں کے حکمرانوں کا حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ پہلے کہا گیا کہ ہم لاک ڈاؤن نہیں لگائیں گے۔ اور پھر لگا بھی دیا گیا اور کہا گیا کہ عوام سختی سے اس پر عمل کریں یہ آپ کے فائدے کے لئے ہے۔ بعد میں اسے اٹھا دیا گیا کیوں کہ اسے تو اشرافیہ نے لگایا تھا۔ اللہ جانے وہ کون سی اشرافیہ تھی جس کے ہاتھ میں حکومت ہے۔ اگر خان صاحب اتنے ہی بے بس ہیں تو اٹھ کے گھر چلے جائیں۔

دراصل قوموں کی زندگی میں ایسا وقت آتا رہتا ہے جب ان کے مجموعی اطوار کھل کر سامنے آتے ہیں۔ در حقیقت یہی ان کے امتحان کا وقت ہوتا ہے کہ لوگ کیسے فراست کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جب کہ ادھر تو یہ حال ہے کہ جیسے لوگ پہلے سے ہی تیار بیٹھے تھے کھڑاک کرنے کو۔ لہذا کرونا کے شوشے کی دیر تھی کہ وفاق صوبوں کے در پے ہو گیا اور عوام خود ہی اپنے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ جب لوگ کرونا سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر نہیں اپنائیں گے تو یہی کہا جائے گا نا، کہ وہ اپنے ہی دشمن بن گئے ہیں۔
اس سارے پس منظر میں ایک بات تو طے ہے آنے والی نسلیں جب ہمیں تاریخ کے اوراق میں دیکھیں گی تو بجائے وہ 2019ء کی اس وباء سے عبرت پکڑیں، الٹا ہم پر ہماری بے وقوفیوں ہی کی وجہ سے ہنسیں گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خیر ! اگر دیکھا جائے تو ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا۔ کرونا کون سا کہیں چلا گیا ہے۔ اور جو ہماری حرکتیں ہیں یہ جاتے جاتے بھی ساتھ بہت کچھ لے کر ہی جائے گا۔ لیکن اگر ہم چاہیں تو اسے اکیلے بھی بھیج سکتے ہیں اور اپنے دوست ملک چین کی طرح وقت سے بہت پہلے بھی بھیج سکتے ہیں۔ بلکہ ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اگر ہم اپنے رویوں میں سدھار لے آئیں تو تاریخ میں کرونا کے باب میں ایک مہذب قوم کے طور پر اپنا نام بھی لکھوا سکتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply