ڈیڑھ انچ کا کیڑا۔۔۔۔گل نوخیز اختر

نام آپ کو کچھ عجیب سا لگے گا لیکن سارا محلہ اُنہیں ’چاچا سوفیصد‘ کے نام سے جانتا ہے۔ چاچے کو اپنی ہر بات کا سو فیصد یقین ہوتاہے۔ چاچا عام موضوعات پر بحث کرنا پسند نہیں کرتا، اس کے پسندیدہ موضو عات سیاست، سائنس اور عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیاں ہیں۔ ’چاچا سوفیصد‘ ایک چھوٹے سے پھٹے پر فرنچ فرائز اور انڈا برگر لگاتاہے لیکن اپنی بات میں اس قدر قطعیت کا قائل ہے کہ جو جملہ ایک دفعہ اس کے منہ سے نکل گیا پھر کوئی اسے ذرا غلط کہہ کے دکھائے۔

ایک دفعہ پوچھا گیا کہ چاچا، ٹرمپ اور پیوٹن میں سے کون زیادہ بہتر ہے۔ چاچے نے ٹرمپ کی شان میں تین چار اعلیٰ نسل کی گالیاں ارشاد فرمائیں اور پیوٹن کو سائنس کا باپ قرار دے دیا۔ سب لوگ ہکا بکا رہ گئے۔ میں نے ہمت کرکے زبان کھولی کہ چاچا، پیوٹن اور سائنس کا کیا تعلق؟۔ چاچے نے دانت پیس کر مجھے گھورا’اوئے پڑھے لکھے جاہل، تجھے یہ بھی نہیں پتا کہ پیوٹن نے کتنا بڑا سائنس کا فارمولا ایجاد کیا تھا، وہ جسے گریوٹی کہتے ہیں۔‘ میں نے فوراً اپنی جہالت پر معذرت کی کہ آج تک خوامخواہ گریوٹی کا کریڈٹ پیوٹن کی بجائے نیوٹن کو دیتا رہا۔چاچے کی ہر بات میں قطعیت ہوتی ہے۔ وہ یہ سننے کو تیار ہی نہیں کہ وہ کبھی غلط بھی ہوسکتا ہے۔

ایسے کئی چاچے ہمارے درمیان بھی موجود ہیں۔ یہ سیاست سے معاشرت تک ہر بات قطعی طور پر کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے آپ بے شک نیوکلیئرٹیکنالوجی پر بات کرلیں، یہ کبھی نہیں کہیں گے کہ ہمیں نہیں پتا، بلکہ فوراً ایک دوٹوک بیان داغیں گے اور اگر پوچھا جائے کہ آپ کو کتنا یقین ہے کہ آپ کی رائے ٹھیک ہے تو پکا پکایا جواب آتاہے’سو فیصد‘۔ان لوگوں کا چیک کرنے کا بڑا آسان طریقہ ہے۔ مثلاً اگر یہ سیاست پر دو مخالفین کے بارے میں نہایت قطعیت سے بات کررہے ہوں تو ان سے صرف دو سوال پوچھیں۔

آپ نے کوئی بھی آخری کتاب کب پڑھی تھی؟۔۔۔

اور کیا آپ کی اِن دونوں سیاسی مخالفین سے کبھی کوئی ملاقات ہوئی؟۔

انشاء اللہ دونوں سوالوں کا جواب نفی میں آئے گا۔

کبھی نوٹ کیجئے گا کہ اپنی رائے کو سوفیصد درست قرار دینے والے ایسے لوگ عموماً ذہنی طور پر بانجھ ہوتے ہیں، عملی زندگی میں اپنے جیسا ہی سوشل سرکل رکھتے ہیں اورہائی بلڈ پریشر کے مریض ہوتے ہیں۔ان کے نزدیک یہی باشعور اور ذہین ہوتے ہیں۔آپ ان سے کبھی بحث کرکے دیکھیں، آپ کو لگے گا کہ آپ لومڑ کے آگے بین بجا رہے ہیں۔یہ گھریلو معاملات میں بھی ’وڈ قصائی‘ ہوتے ہیں۔ نہ بیوی کو بولنے دیتے ہیں نہ بچوں کو۔ جو بھی ان کی بات سے اختلاف کرتاہے اسے نشانے پر رکھ لیتے ہیں۔ اِنہیں ہر وہ بات اچھی لگتی ہے جو ان کی رائے کو تقویت بخشے۔ ایسے لوگوں کی اکثریت فیس بک پر نظر آنے والی اپنی مرضی کی جعلی خبروں کو فوراً سینے سے لگا کر قبول کرتی ہے اور بلا تحقیق مخالفین کے منہ پر مارتی ہے کہ دیکھو، میں نے کہا تھا ناں ایسا ہوگا۔چونکہ ساری زندگی تحقیق انہیں چھو کر نہیں گزری ہوتی لہذا اِنہیں اس لفظ سے چڑ ہوتی ہے۔ یہ چاہتے ہیں کہ نہ صرف ان کے نقطہ نظر کو تسلیم کیا جائے بلکہ اِن کی ذہانت کے لیے پرائڈ آف پرفارمنس بھی اناؤنس کیا جائے۔

ایسے جتنے بھی لوگ ہیں ان سے کبھی بات کرکے دیکھیں۔ یہ نہایت مدلل انداز میں ڈیڑھ سو من کی بونگی ماریں گے۔ان کی اپنی کبھی کوئی رائے نہیں ہوتی، یہ ہمیشہ کسی کی رائے کو اپنی بنا کر پیش کردیتے ہیں۔ نہ ان کے منہ سے ڈھنگ کا جملہ سننے کو ملتا ہے نہ دلیل۔ ان کا سارا علم دوسروں کی چبائی ہوئی دلیلوں کو اگلنے پر مشتمل ہوتاہے۔ مزے کی بات کہ جن دلیلوں کو یہ پیش کرتے ہیں خود اگر اُن پر پھنس جائیں تو وہی دلیلیں ماننے سے انکار کردیتے ہیں۔بظاہر ایسے لوگ آپ کو نارمل دکھائی دیں گے لیکن جونہی یہ آپ سے کسی معاملے پر بحث شروع کرتے ہیں یکدم اِن کے اندر کا گدھا بیدار ہوجاتاہے، پھر یہ چپ کرجاتے ہیں اور گدھا بولتا رہتاہے۔اپنے حوالے سے اِن کو زعم ہوتاہے کہ یہ ماشاء اللہ ہر لحاظ سے مکمل ہیں اورحق سچ کے ساتھ کھڑے ہیں۔یہ 2 پرسنٹ ہر چیز کے بارے میں علم رکھتے ہیں مثلاً مذہب، سیاست، سائنس، معاشرت وغیرہ۔ اور یہی دو پرسنٹ ان کے لیے کافی ہوتاہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

آپ کبھی ایسے لوگوں کے منہ سے تخلیقی جملہ نہیں سنیں گے، او ر اگر کبھی سننے کو مل بھی جائے تو یقین کرلیجیے کہ یہ جملہ کسی اور کا ہے۔میرا مشاہدہ ہے کہ ایسے لوگ سطحی ذہن کے مالک ہوتے ہیں،لگی بندھی زندگی گذارتے ہیں اوراکثر دوستوں سے محروم ہوتے ہیں۔ جن لوگوں کے دوست نہیں ہوتے وہ اختلافی بات سننے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے کیونکہ دوست ہی وہ شخصیت ہوتے ہیں جوآپ کے منہ پرنہ صرف آپ سے اختلاف کرتے ہیں بلکہ ٹھوک بجا کر کرتے ہیں۔ آپ اپنے اردگرد موجود ایسے لوگوں کی ایک فہرست بنا کر دیکھ لیجئے، سب میں کچھ چیزیں کامن ہوں گی مثلاً انتہائی چڑچڑے ہوں گے۔دوسروں کے معاملات میں جان بوجھ کر ٹانگ اڑائیں گے۔بے ہنگم اور فضول گفتگو کریں گے اور کرتے چلے جائیں گے۔فیس بکی آرٹیکلز پر بہت زیادہ انحصار کریں گے۔محلے بھر میں بدتمیز مشہور ہوں گے۔چھوٹی چھوٹی باتوں کو ہزار سے ضرب دے کر پیش کریں گے اوردوسروں کا تمسخر اڑانے میں سرفہرست ہوں گے۔ایسے لوگوں سے بحث سے مکمل پرہیز کیجئے، یہ اپنا وائرس دس منٹ میں آپ کے دماغ میں منتقل کرنے کی صلاحیتوں سے مالا مال ہوتے ہیں۔میں نے ایک دفعہ ’چاچا سو فیصد‘ سے ضد کرکے اُن کا سی ٹی سکین کروایا تھا، میرا خیال تھا کہ ان کے دماغ میں کوئی وائرس ہوگالیکن رپورٹ آنے پر پتا چلا کہ وائرس نہیں ڈیڑھ انچ کا کیڑا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply