دستور ہند کے مطابق سیکولرازم کا معنی کیا ہے؟-رشیدودود

میں نہ مفکر ہوں، نہ راہنما، نہ دانشور، نہ اہل علم۔ میں بس طالب علم ہوں۔ لاک ڈاؤن میں جب دنیا تھم گئی تو فرصت کے لمحات میں ایک بزرگ دوست کے ساتھ بیٹھا اور بیٹھے بٹھائے ایک عدد کتاب تیار ہو گئی۔ نام رکھا ہندوستانی مسلمانوں کی ترجیحات۔ آج کل عام ہو گیا ہے کہ ہر مفکر ہندوستانی مسلمانوں کی کم علمی پر پہلے تو ماتم کرتا ہے پھر ان کے ہاتھوں میں وہ علم نامی جادو کی چھڑی دے دیتا ہے۔ میں جادوگر تو ہوں نہیں ,اس لئے اس کتاب میں ایسی کوئی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ ان دنوں یہ کتاب اور اس کے مشمولات مجھے بہت یاد آ رہے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ میں نے مقدمہ پہلے لکھا تاکہ اسی کی روشنی میں کتاب مرتب کی جا سکے لیکن پھر جیسا کہ میری عادت ہے کتاب تو مکمل ہو گئی لیکن مقدمہ ادھورا رہ گیا۔ کتاب کئی مراحل سے گزری، ایک ایک فقرے پر میں نے گھنٹوں سر کھپائے ہیں لیکن اس کے باوجود ابھی بھی چاہتا ہوں کتاب پر مزید وقت دوں لیکن یہ ہو نہیں پا رہا۔ میرے پاس فیس بک کے علاوہ ایسا کوئی ذریعہ نہیں جہاں میں اسے شائع کر سکوں رہے, اخبارات کے مدیر تو پھر وہ مجھے کیوں چھاپیں گے؟ اسی لئے آج بہت سوچ سمجھ کر اس کا نامکمل مقدمہ اہل علم کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔
_____________
آزادی کے بعد ہی سے مسلمانانِ ہند پوری طرح سے ‘بیمار، ہو گئے ہیں، بیمار ہونا کوئی عیب کی بات نہیں ہے، نہ ہی بیماری کوئی بہت بڑا مسئلہ ہے، اس لئے کہ انسانی جسم کی طرح قومیں بھی بیماری کا شکار ہوتی ہیں، مرحوم خلافت عثمانیہ کو ‘یورپ کا مرد بیمار، کہا جاتا تھا، آج ہمیں ‘ہند کا مرد بیمار، کہا جا سکتا ہے اور ہم ہیں بھی۔

ہماری بیماری اتنی بڑی بھی نہیں تھی کہ ہم اس کا علاج نہ کر پاتے لیکن اتنی چھوٹی بھی نہیں تھی کہ ہم اسے نظرانداز کر کے آگے بڑھ جاتے، ہم سے غلطی یہی ہوئی کہ بیماری کو ہم نے ہلکے میں لیا، اگر ہم نے فوری طور پر علاج پر دھیان دیا ہوتا تو آج ہم صحت مند ہوتے، بیماریوں کی گٹھڑی لئے نہ گھوم رہے ہوتے۔

ہماری بیماری ہے کیا؟ کوئی ایک ہو تو بتایا جائے، بروقت علاج نہ ہونے کی وجہ سے ‘بیماری، نے ‘ بیماریوں، کی شکل اختیار کر لی ہے، ہٹ دھرمی، احساس کمتری، غیر ذمے داری، نااہلی، لاپرواہی، عدم رواداری، تنگ نظری، حقائق سے چشم پوشی، حالات سے بے خبری، تعلیم سے کوسوں دوری، بے ایمانی، بے ضمیری، بزدلی، کنجوسی اور فضول خرچی وغیرہ، یہی تو وہ بیماریاں ہیں جن کی وجہ سے ہمارے جسد ِقومی کا ہر عضو کمزور سا ہو کر رہ گیا ہے، ایسا نہیں ہے کہ اب تک علاج کی کوئی کوشش نہیں ہوئی، شاہ ولی اللہ سے لے کر آزاد تک ہر چارہ گر نے چارہ گری کی کوشش کی لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ ہم وہ مریض ہیں جو ڈاکٹر کی بتائی ہوئی دوا سے نہیں بلکہ اپنی پسند کی دوا کھا کر ٹھیک ہونا چاہ رہے ہیں جو کہ ممکن نہیں، اگر ہم من پسند دوا کھانے پر مصر ہی ہیں تو یاد رکھیں! ہم کبھی صحتیاب نہیں ہو سکتے۔

ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک بیمار آدمی بہت ہی زیادہ ‘محتاط، رہتا ہے اگر وہ ‘محتاط، نہ رہے اور اس سے ‘بد پرہیزی، سرزد ہوتی رہے تو وہ کبھی ‘صحتیاب، نہیں ہو سکتا، اگر اسے صحتیاب ہونا ہے تو اس کیلئے لازم ہے کہ وہ کھانے پینے اٹھنے بیٹھنے چلنے پھرنے سونے جاگنے حتی کہ اپنے ہر عمل کا حساب رکھے۔

مسئلہ صرف یہی نہیں ہے کہ ہم بیمار ہیں ،مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم صحیح علاج نہیں کر پا رہے ہیں، ہم نے جن لوگوں کو مسیحا سمجھا، وہ ہمارے لئے قاتل ثابت ہوئے، جس علاج کو ہم نے اپنے لئے اکسیر سمجھا وہ ہمارے لئے مہلک ثابت ہوا، اسی لئے مرض بڑھتا گیا ،جوں جوں دوا ءکی، آزادی کے 74 سال بیت گئے لیکن آج بھی ہم تاریک راہوں کے مسافر ہیں، منزل کی تلاش میں ادھر اُدھر بھٹک رہے ہیں، مرض کا احساس تو ہمیں ہے لیکن اپنی سادہ لوحی کی وجہ سے ہم بار بار وہی مہلک دوا استعمال کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ہم بیمار ہوئے تھے۔

آزادی کے بعد ہم نے ایک بار بھی اس بات پر غور نہیں کیا کہ ایک آزاد ملک کی تعمیر و ترقی میں ہم کس طرح سے کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں یا ایک آزاد، سیکولر اور جمہوری ملک نے ہمیں کون سے حقوق دیئے ہیں اور ان حقوق کو حاصل کر کے ہم کس طرح سے اپنی حیثیت مستحکم کر سکتے ہیں، یہ صحیح ہے کہ اس دوران زندگی کا ہر لمحہ ہم پر مشکل رہا لیکن ان مشکلات سے ہم دوچار کیوں ہوئے اور ان مشکل لمحوں کو ہم آسان کس طرح بنائیں؟ یہ ہم نے کبھی نہیں سوچا اور کبھی سوچا بھی تو اس کا اثر اُلٹا ہُوا، ہم چلے تھے روزے بخشوانے اور اُلٹی نماز گلے پڑ گئی۔

ہماری عادت ہو گئی ہے مشکلات کا رونا رونے کی، ہم عام طور پر یہی سمجھتے ہیں کہ پوری دنیا کا بس یہی ایک کام ہے کہ وہ ہماری راہوں میں روڑے اٹکاتی رہے، ہمیں مشکلات سے دوچار کرے، اصل میں یہ جو لفظ ‘مشکل، ہے نا تو یہ بہت ہی بھاری بھرکم لفظ ہے، اسی کی وجہ سے ہماری مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ان مشکلات کا ذمے دار کون ہے اور اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ خود ہم نے اپنے اور اپنوں کے ساتھ کیا کیا؟ کیا ہم نے اپنے اور اپنوں کیلئے آسانی پیدا کی یا مشکلات؟ جب ہمیں ان سوالوں کے جواب مل جائیں تو ہمارے ان نام نہاد مشکلات کا غم بھی ممکن ہے کہ ہلکا ہو جائے، بفرض محال اگر ہم مشکل میں ہوں بھی تو اس مشکل سے ہمیں چھٹکارہ حاصل کرنے کا راستہ تلاش کرنا چاہیے  نہ کہ اس کا بوجھ سر پر لاد کر گھومتے رہنا چاہیے۔

اب لاکھ ٹکے کا سوال یہ بھی ہے کہ آزاد ہندوستان میں ہماری اولین ترجیحات کیا ہونی چاہئیں؟ ملک آزاد ہو گیا، ہم آزاد ہو گئے، اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ مشکلات کا رونا رونا چاہیے یا آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرنا چاہیے؟ ہم یہ جانتے ہیں کہ ملک آزاد ہونے کے ساتھ ساتھ تقسیم بھی ہوا، اس تقسیم کے نتیجے میں ایک ملک ایک خاص مذہب کا علمبردار بنا جبکہ دوسرا ملک مذاہب کا علمبردار بنا، اسی لئے آزاد ہندوستان کی بنیاد سیکولرزم پر رکھی گئی، اب عمارت بنانے کی ذمے داری ہماری تھی لیکن ہم عمارت تو کیا بناتے بنیاد کی بھی حفاظت نہ کر سکے، ایک طرف ہماری علمیت کا حال یہ ہے کہ ہم دنیا و جہان کے لوگوں کے افکار و آرا کی روشنی میں سیکولرزم کا غلط مطلب سمجھتے اور سمجھاتے رہے، دوسری طرف ہماری لاعلمی کا حال یہ ہے کہ ہم نے دستور ہند کی روشنی میں سیکولرزم کا معنی و مفہوم سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش نہیں کی، سوال یہ نہیں ہے کہ پوری دنیا کے علما سیکولرزم کا کیا معنی و مفہوم بتا رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ دستور ہند نے سیکولرزم کا کیا معنی و مفہوم بتایا ہے، یہ بہت ہی اہم لسانیاتی نکتہ ہے اگر یہ نکتہ ہمارے علما کو سمجھ میں آ جائے تو ہماری بہت سی الجھنیں ختم ہو جائیں  گی۔

لسانیات کی رو سے مطلق لفظ کا کوئی معنی نہیں ہوتا، لفظ معنی کا جامہ اسی وقت پہنتا ہے جب اسے کسی محاورے میں استعمال کیا جائے، ایسا کرنے سے کسی طرح کا کوئی ابہام بھی نہیں رہتا، مطلق لفظ ہے سیکولرازم، ہمارے یہاں جھٹ سے اس کا معنی لادینیت متعین کر لیا جاتا ہے جبکہ معنی کے  اس تعین میں ہم جن ذرائع کا استعمال کر رہے ہیں ان کی استنادی حیثیت بھی جانچنی بہت ضروری ہے، چلیے مان لیتے ہیں کہ سیکولرازم کا معنی لادینیت ہے ،تو کیا اب یہ معنی ہمیشہ کیلئے متعین ہو گیا؟ تغیر و تبدل تو زندہ زبانوں کا مزاج ہوتا ہے یہ نہ ہو تو زبان مردہ ہو جائے، فلاں لفظ فلاں زبان کا ہے اور اُس زبان میں اِس لفظ کا یہی معنی ہے، بالکل درست لیکن یہی لفظ جب کسی دوسری زبان میں استعمال ہوگا تو کوئی ضروری نہیں کہ اب یہاں بھی وہی معنی مراد لیا جائے جو فلاں زبان میں ہے، معنی میں کسی کی اجارہ داری نہیں چلتی، معنی کا دائرہ محدود نہیں لامحدود ہوتا ہے، معنی کے  تعین میں ہمیشہ استعمال کرنے والے کی صوابدید کا بھروسہ کیا جائے گا، اب آ جائیں لفظ سیکولرازم پر، سیکولرازم کا معنی مغربی لغات میں جو درج ہے، اسے درج رہنے دیں، اب یہ دیکھیں کہ سیکولرازم کا معنی دستور ہند نے کیا بتایا گیا ہے۔

دستور ہند نے ریاست کو سیکولر مانا ہے یعنی ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوگا، ریاست کا مذہب اس لئے نہیں ہوگا کہ ہندوستان مذاہب کا گہوارہ ہے، اگر ریاست کا بھی کوئی مذہب ہو جائے تو پھر ہندوستان ہندوستان نہیں رہے گا، ہندو راشٹر ہو جائے گا، جبکہ ہمارے دستور سازوں نے اوّل روز ہی یہ کنفرم کر دیا تھا کہ ریاست ہمیشہ سیکولر رہے گی، بڑی خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ ایک ایسے دگرگوں ماحول میں جب ریاست مذہب کے نام پر تقسیم ہو گئی تھی، تقسیم کے نتیجے میں بننے والی ریاست نے خود کو ‘اسلامی، گھوشت کر دیا تھا، ایسے ماحول میں ہندوستان جیسی ریاست کو غیر مذہبی رکھنا بڑے دل گردے کی بات تھی لیکن ہمارے دستور سازوں نے اس ناممکن کو بھی ممکن کر دکھایا، اس لئے کہ وہ ایسا نہ کرتے تو بچی کچی ریاست کی سالمیت بھی ہمیشہ خطرے سے دوچار رہتی۔
ریاست سیکولر ہے، یعنی ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہے لیکن ریاست نے باشندوں کے مذاہب سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی ہے، مطلب ریاست سیکولر تو ہے لیکن کمیونسٹ نہیں ہے، کمیونسٹ ریاستیں ‘مذہب دشمن، ہوتی ہیں جبکہ ہندوستان کے دستور نے اپنے باشندوں کو پوری مذہبی آزادی دی  ہے، پتہ نہیں کیوں اتنی سی آسان بات ہمارے لوگوں کی  سمجھ میں کیوں نہیں آتی۔

آزاد ہندوستان میں ہماری پہلی ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ ہم ملک کے سیکولر ڈھانچے کو مضبوط کریں، پہلے خود سیکولر ہوں، بعد میں دوسروں سے سیکولرازم کی امید رکھیں۔

ایک اعتراض یہ کیا جا سکتا ہے کہ تم مسلمانوں کو سیکولرازم کی طرف بلا رہے ہو اور یہ چاہ رہے ہو کہ مسلمان اپنا دین چھوڑ کر ‘بے دین ہو جائیں، بھئی کتنی بار کہا جائے کہ ہندوستانی سیکولرازم کا یہ مطلب بالکل بھی نہیں ہے کہ باشندگان ملک ‘بے دین، ہو جائیں، ہندوستانی سیکولرازم تو باشندگان ملک کو پوری آزادی دیتا ہے کہ وہ اپنے دین پر عمل کریں، ہندوستانی سیکولرازم بس یہ چاہتا ہے کہ ہندوستان کے باشندے ریاست کو سیکولر رکھنے میں اس کی مدد کریں تاکہ ملک کی سالمیت برقرار رہے، اب اکثریت سے زیادہ اقلیت کی یہ ذمے داری ہے کہ ریاست کی یہ حیثیت برقرار رہے لیکن سب سے بڑی اقلیت کے بعض افراد ہی ناسمجھی میں یہاں تک کہہ  جاتے ہیں کہ مسلمان ہی کیوں سیکولرازم کا بوجھ ڈھوئیں؟ ارے بھئی! جس کا دروازہ لوہے کا ہو، مضبوط ہو، اسے رات بھر جاگنے کی کیا ضرورت؟ ضرورت تو اس کو ہے جس کا دروازہ کمزور ہو، مسلمان اس وقت ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہیں، اپنی سادہ لوحی کی وجہ سے یہ اقلیت اس حد تک کمزور ہو چکی ہے کہ اسے اب ‘مستضفین، کی کٹیگری میں رکھنا زیادہ مناسب ہے۔
تو ایسے میں زیادہ مناسب یہی ہے کہ مسلمان اس ملک میں پوری ایمانداری کے ساتھ سیکولرازم کی بنیادوں کو مضبوط کریں اور پوری قوت کے ساتھ سیکولر حضرات کے قدم سے قدم ملا کر کھڑے ہوں تاکہ سیکولرزم کی عمارت اپنی بنیادوں پر باقی رہ سکے۔

ہندوستان ایک رنگا رنگ ملک ہے اور ہر رنگ اپنے آپ میں نہایت ہی شوخ ہے، دستور ہند ان رنگوں کو مدھم نہیں رکھنا چاہتا بلکہ انہیں ابھارنا چاہتا ہے تاکہ ملک میں کوئی ایک خاص رنگ ابھر نہ سکے، یہاں ہر رنگ اپنی انفرادیت کے ساتھ زندہ و تابندہ رہے اور یہ تبھی ممکن ہے کہ جب ہم سیکولر ہوں، سیکولر ہونے کا یہ مطلب بالکل بھی نہیں ہے کہ ہم اپنا رنگ کھو دیں یا کسی دوسرے رنگ میں رنگ جائیں یا اپنی شناخت کھو دیں، سیکولر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے رنگ کو باقی رکھ کر، اپنی انفرادیت بچا کر دوسرے رنگوں کے ساتھ مل جل کر ہنسی خوشی سے رہنا سیکھ لیں، ہندوستان کی مثال ایک باغ کی طرح ہے، جہاں طرح طرح کے خوش رنگ پھول ہیں اور انہیں پھولوں کی وجہ سے باغ کی زینت بھی برقرار ہے، اس باغ کی خصوصیت یہ نہیں ہے کہ گلاب کا پھول گیندے کے پھول میں ضم ہو کر اپنا وجود ختم کر دے بلکہ اس باغ کی خصوصیت یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے میں ضم نہ ہوں بلکہ مل جل کر اپنی خوشبو بکھیرتے رہیں تاکہ باغ کی خوبصورتی برقرار رہے۔
آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کی دوسری ترجیح یہ ہونی چاہئے کہ مسلمان علیحدگی پسندی سے چھٹکارہ حاصل کریں، آپ کھ سکتے ہیں کہ یہ مسلمانوں پر بہت بڑا الزام ہے، مسلمان اور علیحدہ پسند؟ یہ ہو نہیں سکتا، سچی بات یہ ہے کہ ہندوستان میں پچھلی ایک صدی سے مسلمان علیحدگی پسندی کا مظاہرہ بڑی مستقل مزاجی سے کرتے چلے آ رہے ہیں، مسلم لیگ کے قیام سے لے کر پاکستان کی بنا تک، آزادی سے لے کر مسلم سیاسی پارٹیوں کے قیام تک زندگی کے ہر شعبے میں مسلمانوں نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ ہی بنائی ہے، مسلمان دوسروں کی علیحدگی پسندی کو تو فرقہ پرستی کا نام دیتے ہیں لیکن فرقہ پرستی کے اس آئینے میں مسلمان اپنی بدنما شکل نہیں دیکھنا چاہتے۔

مسلمانوں کی تیسری ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ مسلمان اپنے لوگوں کے شعور کی تربیت کریں، اس لئے کہ باشعور افراد جماعت کیلئے زیادہ کارآمد ہوتے ہیں، وہ غصہ، جھنجھلاہٹ اور جلد بازی سے کوسوں دور رہتے ہیں، وہ ٹھنڈے دماغ سے ہر مسئلے پر غور و فکر کرتے ہیں، اس کا مالہ وما علیہ سمجھتے ہیں، پھر سلیقے سے اپنی رائے رکھتے ہیں، ہر مشکل موقعے پر ان کا شعور ان کی رہنمائی کیلئے موجود رہتا ہے، وہ انہیں بہکنے نہیں دیتا اور جب وہ خود نہیں بہکتے تو پوری جماعت بھی انہیں کی وجہ سے صراط مستقیم پر گامزن رہتی ہے۔

باشعور افراد کبھی لکشمن ریکھا پار نہیں کرتے، وہ لکشمن ریکھا کے دائرے میں رہتے ہوئے ہی اپنی ذمے داریوں پر عمل کرتے ہیں، حق تلفی پر آپا نہیں کھوتے، ایک قدم پیچھے ہٹ کر وہ پوری جماعت کو دس قدم آگے لے کر چلے جاتے ہیں، آگہی کا ادراک جیسا انہیں ہوتا ہے ویسا کسی کے پاس نہیں ہوتا، اس لئے پہلی فرصت میں ہمیں اپنے لوگوں کے شعور کی تربیت کرنی چاہیے لیکن کیسے کریں؟ اس کا جواب آپ کو آئندہ کے صفحات میں ملے گا۔

آزاد ہندوستان میں ہماری چھوتھی ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ مسلمان اپنا کیریکٹر مضبوط کریں، اس لئے کہ کیریکٹر کی مضبوطی ہی سے کوئی آپ سے متآثر ہوگا، آپ زندگی بھر پروچن دیتے رہیں لیکن اس کا عملی نمونہ نہ پیش کریں تو آپ گفتار کے غازی تو ہو سکتے ہیں لیکن کردار کے غازی کا سرٹیفکیٹ آپ کو کبھی نہیں آپ کو ملے گا۔

آپ بلاشبہ ‘خیر امت، ہیں لیکن آپ اس پر گھمنڈ نہ کریں بلکہ اس کے تقاضوں کو پورا کریں، ایک داعی اپنے مدعو سے محبت کرتا ہے، اتنی محبت کہ وہ اپنے مدعو کی ‘گمراہیوں، کو دیکھ کر افسردہ رہتا ہے، داعی مدعو سے نفرت کبھی نہیں کرتا، نہ ہی خود کو مقدس سمجھتا ہے، وہ حکمت سے، سلیقے سے مدعو تک اپنا پیغام پہنچاتا ہے، پہلے خود درست ہوتا ہے پھر لوگوں کو درستگی کی طرف بلاتا ہے، وہ ‘امین، ہوتا ہے، ‘صادق، ہوتا ہے، ‘انصاف پسند، ہوتا ہے، تب لوگ اس سے متآثر ہوتے ہیں، اس کی ‘امانت و دیانت، ایسی ہوتی ہے کہ دشمن بھی اس کے مداح ہوتے ہیں۔

عیسائیوں سے کسی نہ کسی شکل میں ہماری جنگ آج بھی جاری ہے، یہودیوں سے بھی ہمارا چھتیس کا آنکڑہ ہے لیکن اس بھری پری دنیا میں ایک قوم ایسی بھی ہے کہ جس سے صدیوں سے ہماری کوئی ‘جنگ، نہیں ہوئی، ہم جنگ کی بات کر رہے ہیں ‘چھیڑ چھاڑ، اور ‘جھڑپ، کی نہیں، یہ قوم ہماری مسجدوں کے دروازے تک آئی لیکن ہم انہیں اندر نہیں لا سکے، یہ آج بھی ہماری مسجدوں کے دروازے تک آ کر واپس چلے جا رہے ہیں لیکن ہم انہیں اندر نہیں لا پا رہے ہیں، ہم اہل کتاب سے معاہدے کر سکتے ہیں، ہم ان سے ‘رشتے، بنا کر رکھ سکتے ہیں، ہم حالت جنگ میں بھی ان کیلئے اپنے دلوں میں جگہ پاتے ہیں لیکن وہ بدقسمت قوم جس نے ہمیں کبھی ‘باہری، نہیں سمجھا، جن کی بدولت ہم ہندوستان میں مضبوط ہوئے، جنہوں نے ہماری ‘قیادت، قبول کی، جنہوں نے ہمارے شانہ بشانہ جنگیں لڑیں، ہماری زبان قبول کی، ہماری تہذیبی بالادستی تسلیم کی، آج بھی ہم ان سے کوسوں دور ہیں، ہم ان کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتے، ان کے ساتھ مل جل کر رہ نہیں سکتے، ایک انجانے ‘خوف، کے ہم شکار ہیں اور ہماری یہی خوفزدگی ہی ہمارے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

ترجیحات کی یہ فہرست مزید لمبی ہو سکتی ہے اور اس پر مزید گفتگو ممکن ہے جو کہ ہوگی بھی لیکن ہم اپنے مقاصد میں کامیاب اُس وقت تک نہیں ہو سکتے جب تک کہ ہم اسلام کا صحیح فہم نہ حاصل کریں، اس لئے کہ اسلام کا صحیح فہم اور اس کی درست تعبیر ہی ہمیں ایک اچھا مسلمان بناتی ہے، ایک اچھا مسلمان ایک اچھا انسان بھی ہوتا ہے اور محب وطن بھی ہوتا ہے۔
اسلام کے صحیح فہم ہی سے ہمیں اس حقیقت کا ادراک ہوگا کہ ہماری بنیادی حیثیت ایک داعی کی ہے، داعی اپنی پوزیشن سے کماحقہ واقف ہوتا ہے اور اسی پوزیشن کے حساب ہی سے وہ اقدامات کرتا ہے تاکہ تصادم کی نوبت نہ آئے، تصادم سے گریز بہادر کرتے ہیں بزدل نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

 نوٹ:تحریر میں بیان کردہ  خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، مکالمہ  ویب کا ان سے اتفاق  ضروری نہیں  اور نہ ہی یہ خیالات ادارے کی پالیسی کا اظہار ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply