سیاق و سباق کا طریقہ مع مثال/یحییٰ تاثیر

سیاق و سباق عموماً تین مراحل سے گزر کر تکمیل تک پہنچتا ہے۔ وہ تین مراحل یہ ہیں:

  • متن کا حوالہ:یہ پہلا مرحلہ ہے جو مزید ذیلی حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

۱۔ عنوان: یہاں ہم تشریح طلب اقتباس ، جہاں سے لیا گیا ہے، اس سبق  یا نظم کا عنوان لکھتے ہیں۔چاہے شاعری کی عبارت ہو یا نثر کی۔

۲۔ ادیب کا نام: یہاں ہم نظم و نثر کے خالق کا نام لکھتے ہیں۔

۳ ۔ صنفِ ادب : اس حصے میں ہم ادب پارے کے صنف کا تعین کرتے ہیں۔ اگر نثر ہے، تو نثر کے اندر داستان، ناول، افسانہ، مضمون ، انشائیہ اور خاکہ وغیرہ کے اصناف موجود ہیں۔ اگر شاعری ہے، تو شاعری میں نظم حمد، نعت، قصیدہ، مرثیہ، منقبت، مناجات، مثنوی اور ہجو وغیرہ کے اصناف موجود ہیں۔ اس طرح ’’غزل‘‘ بھی شاعری کی ایک مشہور صنف ہے۔ مذکورہ تفصیل کے مطابق صنف کا انتخاب کیا جاتا ہے۔

۴۔ ماخذ :اس مرحلے میں مذکورہ ادب پارے کی بنیاد  یا منبع کا تعین کیا جاتا ہے کہ یہ ادیب کی کون سی کتاب سے لیا گیا ہے۔

  • سیاق و سباق :

سیاق کا لفظی معنی ہے ’’تعلق قائم کرنا‘‘ اور سباق کا لفظی معنی ہے ’’آگے بڑھنا‘‘۔ مجموعی طور پر  اس کا معنی ہے، ’’آگے پیچھے کی عبارت یا کلام جس سے مفہوم متعین ہوتا ہے‘‘۔

یہ ایک اہم مرحلہ ہے جہاں تشریح کرنے والے کےلیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ مذکورہ ادب پارے کے چیدہ چیدہ نکات بیان کرے۔ یہاں پر مذکورہ عبارت سے پہلے جو کچھ ہوتا ہے ، اس کا بیان اور مذکورہ عبارت کے بعد جو کچھ ہوتا ہے، اس کا ذکر ترتیب کے ساتھ کرنا ضروری ہے تاکہ تشریح طلب عبارت اور سبق کے درمیان ایک ربط پیدا ہوجائے۔ سیاق و سباق کا حصہ سبق اور تشریح طلب اقتباس کے درمیان ایک پُل کا کام دیتا ہے۔

  • تشریح :

یہ سیاق و سباق کا اہم اور ذرا تفصیلی مرحلہ ہے۔ تشریح کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ مشکل الفاظ کے معنی و مفاہیم بیان کیے جائیں بل کہ مرکزی نکتوں  تک رسائی حاصل کرنا انتہائی ضروری ہے۔یہ مرحلہ سیاق و سباق سے تفصیلی ہونا چاہیے۔یہاں ضروری ہے کہ تشریح کرنے والے کے ذہن میں سبق کا پورا پس منظر ہو۔

اس حصے کو خوب صورت اور مُدَلَّل بنانے کےلیے قرآنی آیات، احادیثِ مبارکہ، متعلقہ اشعار اور دانش وروں کے اقوال لکھے جاتے ہیں۔

                                                (مثال)

تشریح طلب عبارت :

’’مجلسِ نبویﷺ میں جگہ بہت کم ہوتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔احساسِ غیرت میں کمی نہ آجائے۔

متن کا حوالہ :

سبق کا عنوان :               اخلاقِ نبویﷺ

مصنف کا نام :                مولانا شبلی نعمانی

صنفِ ادب :                 مضمون

ماخذ :                          سیرۃ النبی ﷺ، جلد دوم

سیاق و سباق :

مضمون ’’اخلاقِ نبویﷺ‘‘ میں مولانا شبلی نعمانی نے نبی کریمؐ کی شخصیت کی مختلف خصوصیات بیان کی ہیں۔نبی کریمؐ نے اپنی زندگی مستقل مزاجی کے ساتھ بسر کی۔ آپؐ انتہائی نرم مزاج اور ملن سار طبیعت کے مالک تھے۔ مجلسِ نبویﷺ میں لوگوں کی کثیر تعداد ہوتی تھی۔ آپؐ ہر کسی کے ساتھ خوش مزاجی سے پیش آتے تھے۔ قربانی و ایثار آپؐ کی شخصیت کا خاصہ تھا۔ گھر کے کام کاج میں بغیر عار محسوس کیے بھرپور حصہ لیتے تھے۔ بچوں کے ساتھ انتہائی شفقت سے پیش آتے تھے۔ طبیعت میں مقتضائے حال ظرافت کا عمل دخل بھی تھا۔ اولاد سے انتہائی محبت تھی۔ اپنی بیٹیوں اور نواسوں کے ساتھ شفقت و محبت کا سلوک کرتے تھے۔ آپؐ حسنِ خلق کا اعلیٰ نمونہ تھے۔ اخلاق کے تمام پہلو معاملاتِ زندگی کے ہر مرحلے اور شعبے میں نبی کریمﷺ کی زندگی کا حصہ رہے۔

تشریح :

مذکورہ عبارت میں مولانا شبلی نعمانی نے مجلسِ نبویﷺ کا منظر اور حال بیان کیا ہے۔ نبی کریمﷺ انتہائی خوش مزاج اور ملن سار  شخصیت تھے۔ لوگ آپؐ کے حضور میں آکر فیض یاب ہوتے تھے اور مختلف مسائل پر گفتگو کرکے ان کا حل نکالتے تھے۔ کیوں کہ نبی کریمؐ کے فیصلے منصفانہ اور معتبر ہوتے تھے۔ مجلسِ نبویﷺ میں اتنے زیادہ لوگ بہ یک وقت موجود ہوتے کہ بیٹھنے کےلیے اکثر جگہ کم پڑ جاتی۔ ایسے موقعوں پر آپؐ اپنی ردائے مبارک لوگوں کی سہولت کےلیے بچھا دیتے۔ ان تمام خصوصیات سےنبی کریمؐ یقیناًاخلاق کا اعلیٰ نمونہ ثابت ہوتے ہیں۔نبی کریمؐ کے اُسوہ حسنہ کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’لَقَد کَانَ لَکم فِی رَسُولِ اللہِ اُسوَۃٌ حَسَنۃ ٌ۔‘‘ یقیناً تمھارے لیے رسولؐ کی زندگی میں بہترین نمونہ موجود ہے۔

نبی کریمﷺ کی محفل میں حاضری کا اولین مقصد اصلاح کا ہوتا تھا۔ آپؐ کو اگر کسی کی بات بُری معلوم ہوتی تو آدابِ مجلس کو خاطر میں لاتے ہوئے براہ راست مذکورہ شخص کا ذکر نہیں کرتے بل کہ بالواسطہ ذکر فرماتے تھے کہ لوگ ایسا کرتے ہیں، ایسا کہتے ہیں۔ اس قسم کی عادتوں سے بغیر کسی کی دل آزاری کیے منع فرماتے تھے۔ اس طریقۂ ابہام کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ مذکورہ شخص کی تذلیل نہ ہو۔ نبی کریمؐ دوسروں کے عزتِ نفس کا بھرپور خیال رکھتے تھے۔ بہ قول علامہ محمد اقبالؒ :

Advertisements
julia rana solicitors london

؎               نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰسیں، وہی طٰہٰ

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply