الیکشن2024، اسٹبلشمنٹ کو وارننگ/ارشد بٹ

فروری انتخابات میں قبل از الیکشن انجینئرنگ اور  مینجمنٹ کی منصوبہ بندی مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ اسٹبلشمنٹ کی کھلی یا پس پردہ مداخلت کو عوام نے بھرپور انداز میں مسترد کر دیا۔ عوام نے ثابت کر دیا کہ سیاسی جماعتوں کی توڑ پھوڑ اور کنٹرول کے ذریعے نہ نام نہاد مثبت نتائج برآمد کیے  جا سکتے  ا ور نہ ہی عوام کے دل جیتے جا سکتے ہیں ۔ یاد رہے یہ پاکستان کی انتخابی تاریخ کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ عوام کو جب بھی آزادانہ رائے دہی کا موقع میسر ہوا انہوں نے غیر جمہوری قوتوں کے عزائم کو بُری طرح شکست سے دوچار کیا ہے۔ منصوبہ سازوں کی عوامی رائے کو تبدیل یا مینج کرنے کی کاوشوں میں کامیابی یا ناکامی، دونوں صورتوں میں ملک کسی نہ کسی بحران کا شکار ہوتا رہا ہے۔ فروری انتخابات کے نتائج اسٹبلشمنٹ کے لئے کسی وارننگ سے کم نہیں ۔اب وقت تقاضا کرتا ہے کہ اسٹبلشمنٹ ماضی کے تجربات سے سبق سیکھے۔ سیاسی معاملات میں عدم مداخلت اور غیر جانبداری کی پالیسی اختیار کرنے کا عملی مظاہرہ کرے۔ کیونکہ اسٹبلشمنٹ کی سیاسی مداخلت سے پاک جمہوری نظام پاکستان کو جمہوری، خوشحال اور مستحکم معاشی مستقبل کی جانب گامزن کر سکتا ہے۔

پی ٹی آئی سے برآمد اسٹبلشمنٹ کے بغل بچے استحکام پارٹی اور پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین انتخابی عمل میں تنکے کی طرح بہہ گئے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اور پارٹی کے متعد لیڈروں کی گرفتاریاں، سزائیں، اور پی ٹی آئی کی انتخابی نشان سے محرومی، انتخابی سرگرمیوں پر پابندیاں بھی پی ٹی آئی کی عوامی حمایت کم کرنے میں ناکام رہی  ہیں۔ پی ٹی آئی کے ووٹ بنک کو منتشر کرنے کےتمام ہتھکنڈے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے قومی اسمبلی اور کے پی کے اسمبلی میں نمایاں کامیابی حاصل کرکے منصوبہ سازوں کی سوجھ بوجھ پر سوالات اٹھا دئیے ہیں۔

یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ ریاستی اداروں نے مذہبی سیاسی جماعتوں کی ہمیشہ آبیاری کی ہے۔ فروری انتخابات میں اسٹبلشمنٹ کی بظاہر پشت پناہی نہ ہونے کی وجہ سے مذہبی سیاسی جماعتوں کے غباروں سے ہَوا نکل گئی۔ عوامی حمایت سے محروم مذہبی سیاسی جماعتوں کو کبھی پاکستان قومی اتحاد، کبھی اسلامی جمہوری اتحاد، کبھی متحدہ مجلس عمل اور کبھی کسی اور نام سے منتخب اداروں تک پہنچائے جانے کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے۔ دہائیوں ریاستی اداروں کی پشت پناہی کے باوجود مذہبی سیاسی جماعتیں عوام میں جڑیں بنانے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ شاہ احمد نورانی مرحوم کی جمیعت العلما  پاکستان کئی دہائیوں سے انتخابی سیاست سے باہر ہو چکی ہے۔ سب سے زیادہ منظم کہی جانے والی جماعت ِاسلامی عوام میں بتدریج اپنی ساکھ کھوتی رہی ہے ۔ فروری کے انتخابات میں ملک بھر کے عوام نے جماعت اسلامی کو مسترد کر دیا اور وہ سارے ملک سے قومی اسمبلی کی ایک نشست بھی نہیں جیت سکی۔ مولانا فضل الرحمان کی جمیعت العلما  اسلام صوبہ پختون خوا  اور بلوچستان میں تاریخی جڑیں رکھتی ہے۔

اسٹبلشمنٹ سے پینگیں بڑھانے کے بعد جے یو آئی عوام سے دور ہٹتی گئی۔ جمیعت فروری انتخابات میں قومی اسمبلی کی چار جبکہ صوبہ پختون خوا  میں بڑی مشکل سے اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب ہو سکی۔ مگر بلوچستان اسمبلی میں کچھ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ایک اور مذہبی جماعت تحریکِ  لبیک کی دھرنوں کے ذریعے دھاک بٹھانے کی کوشش کی گئی مگر انتخابات میں عوام نے اس کے غبارے سے بھی ہوا نکال دی۔ آج یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ ریاستی اداروں کی کئی دہائیوں سے پشت پناہی کے باوجود مذہبی سیاسی جماعتیں عوام کے دل جیتنے سے قاصر رہی ہیں۔ اگر مستقبل میں ریاستی سرپرستی حاصل نہ ہوئی تو مذہبی سیاسی جماعتیں انتخابی سیاست میں کوئی نمایاں مقام حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گی۔

یہ حقیقت بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ اسٹبلشمنٹ کےہمدردانہ رویہ کے باوجود ن لیگ پنجاب میں کوئی کارنامہ سر انجام نہیں دے سکی۔ پنجاب کے عوام نے ن لیگ کی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ پینگیں بڑھانے کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا۔ جس کا جواب لاہور، فیصل آباد، گجرانوالہ اور دیگر کئی شہروں میں ن لیگ کے بڑے بڑے لیڈروں کو شکست دے کر دیا گیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ گٹھ جوڑ نے شریف خاندان کی قربانیوں کو عوام کی نظروں سے اوجھل کر دیا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ میاں نواز شریف نے عمران خان سے انتقام کی خاطر جمہوری اصول قربان کرکے اسٹبلشمنٹ کی جانب    دستِ  تعاون بڑھایا۔ عام انتخابات میں جس کا خمیازہ عوامی مقبولیت میں کمی کی صورت میں بھگتنا پڑا ہے۔

ایک حوصلہ افزا سیاسی پہلو یہ ہے کہ انتخابات کے نتیجہ میں پی ٹی آئی، ن لیگ اور پیپلز پارٹی ملکی سطح پر مضبوط سیاسی جماعتیں بن کر ابھری ہیں۔ وفاق میں  ن لیگ اور پی پی پی کی مخلوظ حکومت بننے کے آثار ہیں ۔ جبکہ پنجاب میں ن لیگ، سندھ میں پی پی پی اور پختون خوا  میں پی ٹی آئی کی صوبائی حکومتیں بنتی نظر آ رہی ہیں۔ اس لئے ان تینوں جماعتوں میں ورکنگ ریلیشن شپ ملک کے جمہوری مستقبل کے لئے بہت اہم ہے۔ ریڈیکل پوزیشن ترک کرتے ہوئے اب پی ٹی آئی کو ن لیگ اور پی پی پی کے ساتھ سیاسی ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرکے ایک نئے جمہوری سفر کا آغاز کرنا چاہیے۔ یاد رہے پی پی پی اور ن لیگ کے درمیان میثاق جمہوریت نے جمہوری قوتوں کے لئے سسٹم میں مزید جگہ حاصل کرنے کے لئے راہ ہموار کی تھی۔ مگر سیاسی قوتوں کی موقع  پرستی نے اسٹبلشمنٹ کے پیچھے ہٹتے قدموں کو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کیے۔

ہر جمہوریت پسند تبصرہ نگار یہی کہہ رہا ہے کہ ملک کے جمہوری مستقبل کے لئے ان تینوں جماعتوں کا مِل کر بیٹھنا انتہائی ضروری ہے۔ اگر عمران خان سیاسی معاملات میں اسٹبلشمنٹ کی مداخلت کا خاتمہ چاہتے ہیں تو انہیں اسٹبلشمنٹ کی طرف دیکھنے کی بجائے سیاسی قوتوں کی جانب تعاون کا ہاتھ بڑھانا ہو گا۔ جتنی جلدی ممکن ہو عمران خان کو یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ انکا  اور انکی   پارٹی کا مستقبل صرف اور صرف سیاسی و جمہوری قوتوں کے طاقتور ہونے میں ہے۔ سیاسی جماعتوں سے نفرت اور محاذ آرائی کی سیاست ترک کرکے اور مقتدرہ کی بیساکھیوں کے   سہارے کے لئے تگ و دو چھوڑتے ہوئے عمران خان کو سیاسی و جمہوری قوتوں سے رشتے استوار کرنے کی طرف بڑھنا ہو گا۔ عمران خان جن حالات میں گھر ے ہوئے ہیں وہ تقاضا کرتے ہیں کہ عمران خان آئین و قانون کی حکمرانی اور سول بالادستی کے لئے سیاسی قوتوں کی طرف ہاتھ بڑھا ئیں۔ ایسا عمران خان پہلی بار نہیں کریں گے۔ کیا عمران خان دوسری نواز حکومت کے خلاف پی پی پی، جے یو آئی، نوابزادہ نصر اللہ مرحوم اور دیگر جماعتوں کے ساتھ متحد ہو کر گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کا حصّہ نہیں بنے تھے۔؟ کیا عمران خان نے مشرف دور کی پارلیمنٹ میں مولانا فضل الرحمان کو وزیر اعظم کے انتخاب میں اپنا ووٹ نہیں دیا تھا۔؟ کیا عمران خان لندن میں نواز شریف کی قیادت میں مشرف مخالف اتحاد میں شامل نہیں ہوئے تھے۔؟ کیا عمران خان اور نواز شریف   ایک پلیٹ فارم سے پی پی پی حکومت کے خلاف جسٹس افتخار بحالی تحریک کا حصہ نہیں بنے تھے۔ ؟

اب پھر وقت آ گیا ہے کہ عمران خان  ذاتی دشمنی، نفرت، سیاسی محاذ آرائی اور انتقام کی سیاست ترک کرکے جمہوری قوتوں کے ساتھ یعنی ن لیگ اور پی پی پی کے ساتھ ایک نئے میثاق آئین و جمہوریت کی طرف قدم بڑھائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہاں یہ نشاندہی کرنا بھی ضروری ہے کہ ن لیگ اور پی پی پی کی مجوزہ مخلوط وفاقی حکومت کو بھی سیاسی مفاہمت کے لئے سازگار ماحول پیدا کرنے کے لئے عملی اقدامات اٹھانے کا سوچنا ہو گا۔ ن لیگ اور پی پی پی کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی اور مکالمہ کا فقدان ، باہمی الزام تراشی اور منافرت کی سیاست کا چلن اسٹبلشمنٹ کے کھیل کو آسان بنا دیتا ہے۔ یہ سوچ جمہوریت کو نہیں پنپنے دے گی جب تک یہ کہا جائے گا کہ کل ہم اسٹبلشمنٹ کی چیرہ دستیوں کا شکار تھے، آج عمران خان کی باری ہے۔ یہ محض ایک غلط فہمی ہو گی۔ یاد رکھیے عوام میں طاقت پکڑتی کوئی بھی سیاسی جماعت کسی وقت بھی اسٹبلشمنٹ کی چیرہ دستی کا شکار ہو سکتی ہے۔ نئی قائم ہونے والی وفاقی حکومت کو جتنی جلد ممکن ہو ماضی کی تلخیوں کو بھلاتے ہوئے پی ٹی آئی کی طرف ڈائیلاگ اور مصالحت کا ہاتھ بڑھانا چاہے۔ ریاستی اداروں کے جبر سے بچنے، ہائیبرڈ نظام سے نجات حاصل کرنے، جمہوری اداروں کو طاقتور کرنے اور استحکام فراہم کرنے کا یہی راستہ ہے۔ یہ ہی راستہ آئین و قانون کی حکمرانی اور منتخب اداروں کی بالادستی کی جانب گامزن کرتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply