محسن رضا نقوی /محمد اسد شاہ

انتخابات سے قبل منتخب حکومتوں کو ہٹا کر نگران حکومتیں قائم کرنا ایک انوکھا طریقہ ہے جو پاکستان میں رائج کیا گیا- نگران حکومتیں عوامی جذبات سے کوسوں دور ہوتی ہیں- ان کا بنیادی کام خود غیر جانب دار رہ کے صرف انتخابات کروانا ہے- 2018 کے انتخابات میں البتہ نگران حکومتوں کا ایک نیا روپ سامنے آیا جب انھوں نے غیر جانب داری والا برقع اتارا اور کھلم کھلا “ایک پیج” کا حصہ بن گئیں- 2023 میں بننے والی نگران حکومتیں اس لحاظ سے مختلف ہیں کہ انھیں 60 دن یا 90 دن کی بجائے زیادہ وقت ملا ہے- چناں چہ ان کی توجہ صرف انتخابات کے انعقاد تک ہی محدود نہ رہی، بل کہ معاشی بہتری کے لیے بہت سے اقدامات بھی انھیں اٹھانا پڑے- ان اقدامات کے خاطر خواہ نتائج بھی سامنے آئے ہیں- سٹاک مارکیٹ اور روپے کی قدر میں بہتری کے ساتھ ساتھ مہنگائی میں کچھ کمی کے آثار بھی ہیں- یہ کارنامے نگران وفاقی حکومت کے ہیں جس کی قیادت بلوچستان عوامی پارٹی کے سابق سینیٹر انوار الحق کاکڑ کے ہاتھ میں ہے- بلوچستان میں قائم صوبائی نگران حکومت روایتی طور پر روزمرہ امور تک ہی محدود ہے- سندھ کی نگران حکومت پر بعض حلقے انگلیاں اٹھاتے ہیں کہ اس کا رویہ پیپلز پارٹی کی بی ٹیم والا ہے- مسلم لیگ نواز، متحدہ قومی موومنٹ اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس وغیرہ نے اس حوالے سے شکایات ریکارڈ کروا رکھی ہیں- اسی طرح خیبرپختونخوا میں بھی نگران حکومت پر عوامی نیشنل پارٹی وغیرہ کی طرف سے اعتراضات سامنے آئے لیکن پھر تقریباً پوری کابینہ تبدیل ہونے کے بعد وہ اعترضات ختم ہو گئے- پنجاب میں محسن رضا نقوی کی قیادت میں البتہ ایک منفرد نگران حکومت قائم ہے جس پر کسی بھی سیاسی جماعت کی طرف سے کوئی ٹھوس اعتراض سامنے نہیں آ سکا- شروع میں ایک دو سیاسی جماعتوں نے کیچڑ اچھالنے کی کوششیں کیں لیکن نقوی صاحب نے اپنے کردار، محنت، عمل اور رویئے سے تمام ناقدین اور معترضین کے منہ بند کر دیئے- محسن نقوی نے نگران حکومتوں کا تصور ہی بدل کے رکھ دیا ہے- بظاہر وہ ایک غیر سیاسی شخصیت ہیں جن کا بنیادی تعلق ہمارے شعبہ صحافت سے ہے- وہ عالمی خبر رساں اداروں میں کام کا تجربہ رکھتے ہیں، اور پاکستان بھر میں پھیلے اپنے ذاتی نیوز چینلز کے ایک پورے سلسلے کے بھی مالک ہیں- نگران وزارت اعلیٰ کے لیے ان کا نام پاکستان مسلم لیگ نواز کی طرف سے پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ و قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز شریف نے پیش کیا تھا- شاید یہی وجہ تھی کہ مخالفین نے محسن نقوی کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کی کوششیں کیں- لیکن نقوی صاحب نے اپنی کارکردگی کے ذریعے اپنے تجویز کنندگان کی لاج رکھ لی- نگران وزیرِ اعلیٰ بن کر وہ صرف دفتر میں بیٹھ کر دست خط کرنے اور مہمانوں سے ملاقاتیں کرنے تک محدود نہ رہے- بل کہ انھوں نے پورے پنجاب میں گھوم پھر کر ہر ادارے کی کارکردگی پر نظر رکھی ہوئی ہے- صوبے بھر کے ہسپتالوں، سڑکوں، تھانوں، سکولز، کالجز اور دیگر اداروں تک انھوں نے چھاپے مارنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے- ان کے تعینات کردہ افسران کی کارکردگی بھی بہت خوب ہے- ہر ضلع میں ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز بہت مستعد، محنتی، دیانت دار اور برسر میدان کام کرتے نظر آتے ہیں- نگران وزیرِ اعلیٰ نے ہر شہر اور ہر ضلع میں ترقیاتی منصوبوں کی رفتار بہت تیز رکھی ہے- اہل پنجاب کو ان میں شہباز شریف کی تصویر نظر آنے لگی ہے- بل کہ خود شہباز شریف صاحب نے بھی اعتراف کیا ہے کہ محسن نقوی کی رفتار ان سے بھی زیادہ تیز ہے- اہل لاہور تو ان سے دل و جان سے خوش نظر آتے ہیں- سیاسی تقسیم سے ماوریٰ ہو کر ہر طبقے کے افراد ان کی تعریف کرتے ہیں- عوامی خدمت کے ہر ادارے پر ان کی توجہ ہے- صفائی اور نکاسی آب سے آگے بڑھ کر سموگ جیسی بلا سے نمٹنے کی کوششیں بھی وہ کر رہے ہیں- متحدہ عرب امارات حکومت سے تعاون حاصل کر کے دسمبر کے وسط میں لاہور میں مصنوعی بارش کا تجربہ بھی کیا گیا- اگرچہ اس سے صرف وقتی اور محدود بہتری آ سکی لیکن شہریوں کو یہ اطمینان ضرور ہے کہ نگران وزیرِ اعلیٰ ان کے لیے کام کر رہے ہیں- اسی دوران انھوں نے پنجاب بھر کی سڑکوں اور بازاروں سے ناجائز تجاوزات ختم کرنے کا اعلان بھی کیا- اس کے لیے بہت اچھا طریقہ کار اختیار کیا گیا کہ آپریشن سے قبل پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے ناجائز تجاوزات کے ذمہ داران کو خبردار کیا گیا اور مناسب وقت تک مہلت دی گئی کہ وہ از خود اپنی حدود میں چلے جائیں- اس کے باوجود کسی نے بھی تجاوزات از خود ختم نہ کیے، کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے- لیکن اشتہارات و اعلانات کا اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ عوام کی ذہن سازی ہوئی، اور ناجائز قابضین کے پاس آپریشن کی مخالفت کا کوئی بہانہ نہ رہا- اعلان کے مطابق تجاوزات کے خلاف آپریشن شروع ہوا تو ایک بار سڑکوں اور بازاروں میں جیسے “بہار آ گئی”- گزشتہ جمعہ اور ہفتہ کے روز تقریباً لاہور بھر میں سرکاری عملے نے تجاوزات کے خلاف بہت موثر آپریشن کیا- شاہ عالم مارکیٹ، اکبری منڈی اور اردو بازار جیسے گنجان آباد مقامات پر بھی ایک بار تو صفائی ہوئی- ڈیوس روڈ، مزنگ، شارع فاطمہ جناح، سمن آباد، ملتان روڈ اور وحدت روڈ سے بھی ناجائز تجاوزات غائب ہوئیں- ماڈل ٹاؤن اور ٹاؤن شپ میں خود ڈپٹی کمشنر اور دیگر افسران نگرانی کر رہے تھے-۔ماڈل ٹاؤن لنک روڈ پہلے سے بھی کشادہ نظر ائی- ہفتے کے روز نماز عصر کے بعد میں اپنے بیٹے محمد بن اسد شاہ کے ساتھ سیر کو نکلا تو بہت خوش گوار حیرت ہوئی- سڑکیں کشادہ اور دکانیں خوب صورت لگ رہی تھیں- ٹریفک بہت پر امن انداز میں رواں دواں تھی- ہم باپ بیٹا یہی دیکھتے اور باتیں کرتے ہوئے دور تک چلتے رہے- مین بلیوارڈ سے اندر کے بازاروں میں بھی ناجائز تعمیرات کو گرایا جا چکا تھا- بڑے بڑے تاجر اپنی دکانوں کے اگے سے اپنا ہی ناجائز ملبہ خود ہٹا کر صفائی کروا رہے تھے- ریڑھی بانوں کا جم غفیر سڑکوں سے ہٹ کر ارد گرد کی گلیوں میں منتشر ہو چکا تھا- لیکن افسوس کہ یہ سارا منظر عارضی ثابت ہوا-

Advertisements
julia rana solicitors

مغرب کی نماز کے بعد جب ہم واپس گھر کی طرف چلے تو ماحول بدل چکا تھا- بہت سے ریڑھی بان دوبارہ انھی سڑکوں پر قابض ہو چکے تھے- دکان دار اپنی دکانوں کے اندر سے سامان اٹھا اٹھا کر دوبارہ فٹ پاتھ اور سڑکوں کے کناروں پر رکھ رہے تھے- یعنی حکومت کی ساری محنت پر پانی پھیرا جا رہا تھا- میرے بیٹے نے حیران ہو کے مجھ سے پوچھا؛ “پاپا، یہ کیا ہو رہا ہے؟” اور میں نے بتایا کہ یہ وہی ہو رہا ہے جو یہاں کے عوام کی روایت ہے- لوگ ہر معاملے میں گالی حکومت کو دیتے ہیں لیکن دراصل خرابی اپنے اندر ہے- بیوروکریسی کو چاہیے کہ اس معاملے میں کوئی ٹھوس منصوبہ بندی کی جائے اور تجاوزات کو یوں ختم کیا جائے کہ پھر کسی کو دوبارہ یہ حرکت کرنے سے پہلے سو بار سوچنا پڑے- ایک اور درخواست یہ ہے کہ صرف لاہور پنجاب نہ سمجھا جائے، بل کہ پورے پنجاب کو ہی لاہور سمجھ لیں مزہ آ جائے, یعنی اٹک سے لاہور اور صادق آباد تک، ہر جگہ برابر محنت کی جائے-
کالم کے اختتام پر لاہور پریس کے پرامن اور غیر متنازعہ انتخابات پر منتظمین کو شاباش- اور ارشد انصاری صاحب کو بھی ایل پی سی کا ایک مرتبہ پھر صدر منتخب ہونے پر مبارک باد – اللّٰہ انھیں صحافی برادری کی جائز امیدوں پر پورا اترنے کی توفیق بخشے – آمین !

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply