الطاف حسین کی پاکستان سے دشمنی کیوں؟

قریباً چار سال پہلے اسٹیبلشمنٹ نے متحدہ قومی موومنٹ(ایم کیو ایم)سےعملاً کسی بھی قسم کے مذاکرات سے انکار کردیا تھا، اسٹیبلشمنٹ کا کہنا تھا کہ جب تک وہ اعتماد سازی کے لیے بعض شرائط پوری نہیں کرتے ان سے بات چیت نہیں ہوسکتی۔ گزشتہ سال جولائی تک اسٹیبلشمنٹ ایم کیو ایم سے چاہتی تھی کہ پہلے وہ اس کی شرائط پوری کرے پھر مذاکرات ہونگے، شرائط میں مائنس الطاف حسین، پارٹی کی مکمل تنظیم نو، عسکریت پسندی سے قطع تعلقی(جس میں پارٹی کے بعض سینئر رہنما بھی شامل ہیں)، پارٹی میں شفافیت لانا ، نائن زیرو اور خورشید میموریل ہال میں24گھنٹے سروس خاص طور پر آدھی رات کے بعد ہونے والی سرگرمیوں کا خاتمہ شامل تھا۔ ایم کیو ایم کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی سب سے مشکل شرط مائنس الطاف حسین تھی۔ ایم کیو ایم احتجاجی ریلیاں بھی نکال رہی تھی، شہری علاقوں میں وال چاکنگ بھی ہورہی تھی جس میں کہا جارہا تھا کہ ’’الطاف ہمارا روحانی باپ ہے‘‘۔ اس زمانے میں ذرائع بتاتے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ ایم کیو ایم کو کوئی بھی ریلیف دینے کو تیار نہیں تھی، ریلیف اسی صورت میں ملتا جب ایم کیو ایم اسٹیبلشمنٹ کی شرائط پوری کرتی۔ ایم کیو ایم الطاف حسین کو اپنی سیاست کا محور اوراہم جزو سمجھتی تھی اس لیے وہ اپنے اس موقف کو دہراتی تھی کہ’’ ہمیں منزل نہیں رہنما چاہیے‘‘۔
دوسری طرف ایم کیو ایم کی باقی قیادت چار سال سے الطاف حسین کی تقاریر اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیانات سے بہت پریشان تھی، جب الطاف حسین نے اپنی ایک تقریر میں ریڈ لائن کو عبور کیا تو میڈیا پر ان کی تقاریر نشر ہونے پر پابندی لگ گئی، جس سے ایم کیو ایم کو نہ صرف بڑا نقصان ہوا بلکہ سندھ اور وفاق میں سیاسی قیادت اور حکومتوں نے بھی خود کو ایم کیو ایم سے دور کرلیا۔ ایم کیو ایم سے علیحدگی کے بعد سابق ناظم کراچی سید مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی نے اپنی تین سالہ خود ساختہ جلا وطنی ختم کرکے تین مارچ2016کو کراچی میں ایک پریس کانفرنس کی جہاں انہوں نے اپنی سیاست کے مستقبل کا ذکر تو کیا ہی ساتھ پورے میڈیا کے سامنے یہ انکشاف بھی کیا کہ الطاف حسین پہلے رات میں نشہ کی حالت میں ہوتے تھے لیکن اب وہ چوبیس گھنٹے مدہوش ہوتے ہیں۔ ایم کیو ایم کے بانی کو اتنا کچھ ہونے کے باوجود ہوش نہیں آیا اور22اگست2016کو پاکستان اور پاکستان کے عسکری اداروں کے خلاف اپنا سارا زہر اگل دیا۔22اگست کو الطاف حسین نے اپنی تقریر میں پہلے تو پاکستان اور پاکستانی فوج کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف اور ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال کے خلاف انتہائی نازیبا زبان استعمال کی اس کے بعد کہا کہ پاکستان پوری دنیا کےلیے ایک ناسور ہے، پاکستان پوری دنیا کیلئے ایک عذاب ہے، پاکستان پوری دنیا کےلیے دہشتگردی کا مرکز ہے، اس پاکستان کا خاتمہ عین عبادت ہوگا، ہم اس پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالیں گے۔ اس زہر یلی لفاظی کے بعد الطاف حسین نے نہ صرف خود بلکہ پنڈال سے بھی پاکستان مردہ باد کے نعرئے لگوائے۔ الطاف حسین کی22اگست کی تقریر ایم کیو ایم پر ایک سیاسی خود کش حملہ تھا، اس تقریر نےایم کیو ایم کی سیاست کو تباہ کردیا، کراچی کے دو کروڑ سے زیادہ لوگ پریشان ہوگئے، اس تقریر کا ردعمل صرف ایک ٹی وی چینل تک ہوا، یہ بڑھ بھی سکتا تھا۔ رینجرز کے جنرل بلال اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے فوری اقدامات سے اس شرانگیز تقریر پر فوری قابو پا لیا گیا، اس رات کراچی کے عوام بہت پریشان رہے، وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ جن کے والدین نے پاکستان کے لیے اپنا سب کچھ قربان کیا وہ پاکستان مردہ باد بھی کہہ سکتے ہیں۔120گزکے مکان میں رہنے اور ہنڈا ففٹی پر سفر کرنے والا الطاف حسین کراچی پریس کلب کے سامنے تقریر کرتے ہوئے اپنی اوقات بھول بیٹھا تھا، الطاف حسین کے ساتھ ساتھ کچھ لوگ اور خاص کر کچھ خواتین بھی اپنی اوقات بھول چکیں تھیں اور اس آگ پر پٹرول ڈال رہی تھیں جو الطاف حسین نے جلائی تھی(الطاف حسین کی تقریر اور مرد و خواتین کی ویڈو یو ٹیوب پر موجود ہے)ابھی پوری رات نہیں گزری تھی کہ فاروق ستار اور سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خواجہ اظہار الحسن کو رینجرز نے کراچی پریس کلب سےگرفتار کرلیا تھا، جن کو اگلے روز رہا کردیا گیا۔23اگست2016 کی دوپہر کو ڈاکٹر فاروق ستار نے کراچی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کی جس میں ان کے ساتھ ایم کیو ایم کی اعلیٰ قیادت موجود تھی۔فاروق ستار نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایک دن پہلے کراچی پریس کلب کے باہر الطاف حسین کی تقریر سے لاتعلقی کا اظہار کردیا تھا۔22اگست کے بعد سے ایم کیو ایم دو حصوں میں بٹ گئی، بہت کم لوگوں نے الطاف حسین کی تقریر کا ساتھ دیا، وہ اب ایم کیو ایم(لندن )سے وابستہ ہیں جس کے رہنما الطاف حسین ہیں، اکثریت نے الطاف حسین کی تقریر اور نعروں کو قطعی پسند نہیں کیا وہ سب ایم کیو ایم(پاکستان)سے وابستہ ہیں جس کے رہنما فاروق ستارہیں، ان کے علاوہ کچھ لوگ مصطفیٰ کمال کے ساتھ چلے گئے۔ الطاف حسین میں ایک برائی یہ ہے کہ پہلے جو منہ میں بول دیا اور پھر چند گھنٹوں بعد ہی معافی نامہ پیش کردیا۔ ایسا ہی انہوں نے22اگست2016کی رات کو کیا اور جنرل راحیل شریف اور ڈی جی رینجرز کے خلاف ادا کیے گئے اپنے الفاظ کے لیے معافی مانگ لی لیکن اسٹیبلشمنٹ نے اس معافی نامے کو کوڑے دان میں ڈال کر ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو کے علاوہ باقی دفاتر کو بھی سیل کردیا اور جو غیر قانونی تھے انہیں ڈھا دیا گیا، اس کے ساتھ ہی ایم کیو ایم کے سینکڑوں کارکنوں کو بھی گرفتار کرلیا۔ ایم کیو ایم(پاکستان)پر ہروقت اسٹیبلشمنٹ کی نگاہ ہے جس کی ایک مثال فاروق ستار کو17اور18مارچ2016کی درمیانی شب کو پولیس گرفتار کرتی ہے اور ایک گھنٹے میں ان کو رہا کر دیا جاتا ہے۔ فاروق ستار سے اب تک بار بار یہ سوال کیا جاتا ہے کہ وہ الطاف حسین سے مکمل طور پر قطع تعلقی کیوں اختیار نہیں کرتے۔۔؟
23مارچ2016تک فاروق ستار پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو یہ یقین نہیں دلا سکے تھے کہ انہوں نے الطاف حسین سے مکمل علیحدگی اختیار کرلی ہے کہ الطاف حسین نے ایم کیو ایم پاکستان، لندن اور پاکستان کے محب وطن مہاجروں پر ایک اور حملہ کردیا۔23مارچ کو جب پوری قوم کندھے سے کندھا ملائے یوم پاکستان منا رہی تھی تو الطاف حسین بھارتی اخبار دی انڈین ایکسپریس کے توسط سے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے اپیل کر رہے تھے کہ وہ اردو بولنے والوں پر ہونے والے مظالم پر بھی آواز اٹھائیں جو کراچی میں آپ کے اپنے لوگ ہیں۔ انہوں نے بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ ایم کیو ایم کے مسئلے کو عالمی اور انسانی حقوق کے فورمز پر اٹھائیں۔ انہوں نے شکایت کی کہ بھارت بلوچستان کے عوام پر پاکستان کے مظالم کی تو بہت بات کرتا ہے لیکن نریندر مودی ان لوگوں کے لئے آواز اٹھانے میں ناکام رہے ہیں جو صدیوں تک بھارت میں رہتے رہے، انہوں نے کہا کہ ہمارے آباؤ اجداد نے پاکستان ہجرت کرکے بڑی غلطی کی لیکن ہم وہاں پیدا ہوئے اور ہمیں کبھی پاکستانی یا فرزندِ زمین کے طور پر قبول نہیں کیا گیا۔ نریندر مودی جو2002میں گجرات میں دو ہزار سے زیادہ مسلمانوں کے قتل میں شریک تھا ، جوگجرات کا قصائی کہلاتا ہے اور مسلمانوں کا کھلا دشمن ہے، جس نے حال ہی میں ہونے والے پانچ صوبوں کے انتخابات میں ایک بھی مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیا، جس نے بھارت کےایک بڑے صوبے اتر پردیش(یوپی)میں کامیابی کے بعد اپنے سے بھی زیادہ سخت گیر ہندو نظریات کے حامل بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما یوگی آدتیہ ناتھ کو اتر پردیش میں وزیراعلیٰ بنایا ہے اس سے الطاف حسین پاکستان میں رہنے والے مہاجروں پر ظلم کی بات کررہے تھے۔الطاف حسین کے والدین نے بھی اتر پردیش سے ہی ہجرت کی تھی لیکن اب تو الطاف حسین کا بھارت جانا مشکل ہے لیکن لگتا ہے کہ وہ اب بھگوان داس یا وجے کمار بن چکے ہیں۔کیا اردو بولنے والے (مہاجر) اب بھی یہ خیال کرتے ہیں کہ ایم کیو ایم کےبانی الطاف حسین ان کی صحیح نمائندگی کررہے ہیں؟ ستر سال پہلے ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والوں نے شاید کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کہ ایک غلط مہاجر قیادت کی وجہ سے ان کی اگلی نسل اور اس کے بعد والی نسل کو پاکستان میں اتنے غیر یقینی سیاسی مستقبل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ الطاف حسین کی جانب سے مودی سے مدد مانگنے کے بعد اب پاکستان اور لندن ایم کیو ایم کی قیادت کے پاس وہ کونسے سیاسی پانسے باقی بچے ہیں جس سے وہ اپنے آپ کو سیاسی طور پر زندہ رکھ سکیں گے اور خاص کر ان کے مہاجر ووٹ بینک کے پاس متبادل کیا ہے۔چلیں آخر میں ہم بھی ایم کیو ایم کےایک نعرے میں تبدیلی کرتے ہوئے زور سے نعرہ لگاتے ہیں۔۔ پاکستان کا جو غدار ہے، موت کا وہ حقدار ہے۔

Facebook Comments

سید انورمحمود
سچ کڑوا ہوتا ہے۔ میں تاریخ کو سامنےرکھ کرلکھتا ہوں اور تاریخ میں لکھی سچائی کبھی کبھی کڑوی بھی ہوتی ہے۔​ سید انور محمود​

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply