مغربی تہذیب کے مفید تصورات وتجربات سے استفادہ

مغربی تہذیب نے گذشتہ کئی صدیوں میں فکری ارتقا کا جو سفر طے کیا ہے، اس نے متعدد اسباب سے اسے مذہب اور روحانیت سے دور کر دیا ہے اور وہ بلاشبہ اس وقت دنیا میں ایک لادینی تہذیب کا علم بردار ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ انسانی ذہن کو سیاست مدن اور تنظیم معاشرت کے ضمن میں عملی نوعیت کے جو بہت سے سوالات ہمیشہ سے درپیش رہے ہیں، ان کے حل کے لیے مغرب نے کئی مفید تصورات اور تجربات سے بھی دنیا کو روشناس کرایا ہے۔ ان میں مثال کے طور پر حکومت سازی میں رائے عامہ کو بنیادی اہمیت دینے، حکومت کی سطح پر اختیار کے سوء استعمال کو روکنے کے لیے تقسیم اختیارات کے اصول، دنیا کی مختلف اقوام کے لیے اپنے اپنے مخصوص جغرافیائی خطوں میں حق خود ارادیت تسلیم کرنے اور بین الاقوامی تنازعات کے پرامن تصفیے کے لیے عالمی برادری کی سطح پر مختلف اداروں اورتنظیموں کے قیام جیسے تصورات کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ ان تصورات پر عمل کے حوالے سے مغرب کا اپنا طرز عمل کیا ہے، اس پر یقیناًبات ہو سکتی ہے اور مذکورہ سیاسی تصورات کا جو ماڈل مغرب نے پیش کیا ہے، اس میں مزید بہتری کی ضرورت پر بھی بحث ومباحثہ کی پوری گنجائش موجود ہے۔ لیکن اصولی طور پر ان تصورات کی اہمیت اور اجتماعی انسانی تعلقات کی تنظیم کے ضمن میں ان کی افادی صلاحیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

مغربی غلبے کے رد عمل میں اور اس کے مقابلے میں مسلمانوں کے بعض تاریخی تجربات کی فوقیت ثابت کرنے کے جذبے کے زیر اثر مسلم فکر میں ایک بڑا نمایاں رجحان سرے سے مذکورہ تصورات وتجربات کی نفی کر دینے کا دکھائی دیتا ہے جو ایک غیر متوازن رویہ ہے۔ کوئی بھی مفید اور اچھا تصور انسانیت کا مشترک سرمایہ ہوتا ہے، چاہے اس کا ابتدائی تعارف کسی بھی گروہ کی طرف سے سامنے آئے۔ انسانی تمدن کا ارتقا اسی طرح باہم اخذ واستفادہ سے ہوتا ہے اور مسلم تہذیب نے بھی اپنے دور عروج میں کبھی دوسری قوموں، تہذیبوں اور معاشروں سے اچھے اور مفید تصورات کو لے لینے کبھی کوئی باک محسوس نہیں کیا۔

مثال کے طور پر رائے عامہ کو حکومت سازی میں بنیادی اہمیت دینے کا اصول بنیادی طور پر خود اسلام کا اصول ہے جس سے مسلمان اپنی تاریخ کے بالکل ابتدائی دور میں ہی مختلف عملی اسباب سے دست بردار ہو گئے اور رفتہ رفتہ اس سے بالکل غیر مانوس ہوتے چلے گئے۔ امام ابوعبید نے کتاب الاموال میں لکھا ہے کہ اگر مسلمانوں کا لشکر دوران جنگ میں دشمن کے ساتھ صلح کا معاہدہ کرنا چاہے اور اس کی شرائط ایسی ہوں جن کا اثر دشمن کے زیر نگیں عوام الناس پر بھی پڑتا ہو تو ایسی کوئی بھی شرط اسی وقت معتبر سمجھی جائے گی جب براہ راست ان کے عوام سے رابطہ کر کے ان کی رضامندی معلوم کر لی جائے۔ اس کے بغیر محض ان کے سرداروں یا امراء کے اس شرط کو تسلیم کر لینے کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔ امام ابوعبید نے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ چونکہ امرا اور سرداروں کو کوئی بھی اجتماعی فیصلہ کرنے کا اختیار عام لوگوں کی طرف سے تفویض کیا جاتا ہے، اس لیے وہ لوگوں کی نمائندگی کرتے ہوئے کوئی ایسا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتے جس سے لوگ متفق نہ ہوں۔ (کتاب الاموال، ص ۲۷۰، ۲۷۱) اس فقہی جزئیے سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جب اسلام دشمن قوم کی رائے عامہ کو اتنی اہمیت دیتا ہے تو خود مسلمانوں کے اجتماعی معاملات میں مسلمانوں کی رائے عامہ اس کے نزدیک کتنی اہم ہوگی۔

آج مغرب نے حکمرانوں کے عزل ونصب میں رائے عامہ کو بنیادی اصول کے طور پر تسلیم کر کے اقتدار کے پرامن انتقال کا ایک ایسا طریقہ اختیار کر لیا ہے جسے نظر انداز کرنے کی وجہ سے اسلامی تاریخ میں ہمیں ایک طرف تو موروثی بادشاہت اور بزور بازور اقتدار پر قبضے جیسے طریقوں کو جواز فراہم کرنا پڑا اور دوسری طرف عملی طور پر پرامن انتقال اقتدار کا کوئی طریقہ باقی نہ رہا۔ یہ ایک ایسا تجربہ ہے جس سے کھلے دل سے استفادہ کرنا چاہیے، نہ کہ مغرب کی ہر بات کے رد کر دینے کو اسلامیت کا اظہار سمجھ کر ’’لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو‘‘ کی تحریک برپا کرنی چاہیے۔

اسی زاویے سے ریاستی اختیارات کی تقسیم کے تصور کو دیکھا جا سکتا ہے۔ مغرب میں جدید ریاست کے ارتقا میں ایک اہم عامل کا کردار بادشاہ کے مطلق العنان ہونے کے مسئلے نے ادا کیا۔ مغربی مفکرین نے ارتکاز اختیارات اور اس سے پیدا ہونے والی قباحتوں کا حل یہ تجویز کیا کہ حکومت واقتدار سے متعلق اختیارات کو ایک فرد میں مرتکز کرنے کے بجائے انھیں مختلف مراکز میں تقسیم کر دیا جائے جو ایک دوسرے کو تجاوز سے روکنے کے لیے چیک اینڈ بیلنس کا کام کریں۔ اس سے افراد کے بجائے اداروں مثلاً مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ وغیرہ کا نظام وجود میں آیا۔ یہ تمام ادارے الگ الگ دائروں میں اپنی ذمہ داریاں انجام دینے کے باوجود ایک ہی نظم اجتماعی کا حصہ ہوتے اور اسی کے طے کردہ مقاصد کی تکمیل کرتے ہیں، اور ان کے مجموعے کو ایک جامع عنوان یعنی ’’ریاست‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

اس کے برخلاف مسلم سیاسی فکر میں ’’امام‘‘ یعنی مسلمانوں کے حکمران کی شخصیت میں تمام تر سیاسی اختیارات کے ارتکاز کا تصور غالب ہے۔ شریعت کی پابندی کی شرط کے ساتھ مسلمانوں کے جملہ اجتماعی امور سے متعلق آخری اور فیصلہ کن اختیار ’’امام‘‘ کے لیے تسلیم کیا گیا ہے۔ چنانچہ کسی بھی اجتہادی تعبیر کو قانون کا درجہ دینے کا فیصلہ کن اختیار اسی کے پاس ہے۔ وہ دار الاسلام کے حدود میں کیے گئے کسی بھی عدالتی فیصلے پر نظر ثانی کا اختیار رکھتا ہے۔ وزرا، گورنروں، عمال، قضاۃ اور فوجی امراء کے تقرر کا حتمی اختیار اس کے ہاتھ میں ہے۔ دشمن کے ساتھ جنگ کرنے یا صلح کا معاہدہ کرنے میں امام ہی فائنل اتھارٹی رکھتا ہے۔ گویا مسلمان امت اپنے اجتماعی امور سے متعلق تمام تر اختیارات ’’امام‘‘ کو تفویض کر دیتی ہے اور پھر وہ ان کی نیابت میں، انتظامی سہولت اور مصلحت کے تحت ان میں سے کچھ اختیارات مختلف سطحوں پر اپنے منتخب عمال اور افسران کے سپرد کر دیتا ہے، تاہم اختیارات کا اصل منبع ومصدر امام ہی کی شخصیت رہتی ہے اور اپنے تفویض کردہ اختیارات کے تحت کیے گئے تمام فیصلوں اور تصرفات پر نظر ثانی کا آخری اختیار امام ہی کے پاس رہتا ہے۔

ہر سیاسی وقانونی تصور کی طرح اس سیاسی تصور کے بھی مختلف اور متنوع مضمرات تھے اور ناگزیر طور پر ان کے اثرات ونتائج اسلامی تاریخ اور قانونی روایت پر بھی مرتب ہوئے۔ان میں سے ایک اہم نتیجہ یہ تھا کہ سیاسی نوعیت کے مقدمات کی سماعت اور ان کے فیصلے عمومی عدالتی سسٹم کے دائرہ اختیار میں شامل نہیں تھے اور حکومت یا حاکم کے خلاف کیے جانے والے کسی بھی اقدام کا فیصلہ براہ راست خود امام ہی کیا کرتا تھا اور اس کے فیصلوں کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا تھا۔ گویا عدلیہ، سیاسی مقدمات میں نہ صرف یہ کہ انتظامیہ کے تابع تھی، بلکہ سرے سے بے اختیار تھی، کیونکہ یہ مقدمات امام کی طرف سے اس کے دائرہ اختیار میں رکھے ہی نہیں گئے تھے۔ اسلامی تاریخ کے اہم ترین اور الم ناک ترین حادثات میں ہم اس قانونی تصور کے براہ راست اثرات دیکھ سکتے ہیں۔ سیدنا عثمان کو شہید کیا گیا تو قصاص کا مطالبہ کرنے والے خلیفہ وقت کو اس واقعے یا اس کی ذمہ داری سے بالکل لاتعلق تسلیم کرتے ہوئے بھی ان کی طرف سے باغیوں کے خلاف کسی موثر قانونی اقدام کے امکان پر مطمئن نہ ہو سکے، اور چونکہ معاملہ براہ راست خلیفہ کے دائرہ اختیار میں آتا تھا، جبکہ عدلیہ بطور ایک مستقل ادارے کے کوئی وجود نہیں رکھتی تھی جو اپنی آزاد حیثیت میں سیاسی مقدمات کی سماعت کا اختیار رکھتی ہو، اس لیے قصاص کا مطالبہ کرنے والوں کو نظام کے اندر رہتے ہوئے اپنے مطالبے کی تکمیل کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے نہتے خانوادے کو کربلا میں شہید کر دیا گیا، لیکن چونکہ معاملہ سرے سے عدالتی نظام کے دائرہ اختیار میں ہی نہیں تھا، اس لیے نہ اس کی تحقیق کے لیے کوئی عدالتی کمیشن قائم ہو سکتا تھا اور نہ امام کے خلاف طاقت کے ناجائز استعمال کا مقدمہ دائر کیا جا سکتا تھا۔ حجاج بن یوسف نے حکومت مخالف رجحانات کو ختم کرنے کے لیے لوگوں پر بے پناہ مظالم ڈھائے اور اکابر صحابہ وتابعین کی ایک بڑی جماعت بھی اس کی چیرہ دستیوں کا شکار ہوئی، حتی کہ بیت اللہ کی حرمت تک پامال کی گئی، لیکن اس کے خلاف بھی کوئی مقدمہ نہ چلایا جا سکا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ظاہر ہے کہ اس پوری صورت حال میں مسلم معاشرہ بھی موجود تھا اور اس کے اندر عدل وانصاف کی قدریں اور اخلاقی جرات کے اوصاف بھی زندہ تھے اور عین اسی وقت میں اپنے دائرہ اختیار میں جلیل القدر مسلمان قاضی کسی خوف کے بغیر خود حکمرانوں کے خلاف بھی فیصلے کر رہے تھے۔ اصل مسئلہ جملہ ریاستی اختیارات کو امام کی شخصیت میں مرتکز ماننے کے قانونی تصور میں تھا جس کی رو سے تمام ریاستی ادارے (اگر انھیں جدید مفہوم میں ’’ادارے‘‘ کہا جا سکے) دراصل امام کی طرف سے تفویض کیے گئے اختیار کے دائرے میں ہی کوئی قدم اٹھانے کے مجاز تھے۔ اس سے ہٹ کر ان کا کوئی اقدام کرنا صریحاً قانون کے خلاف ہوتا جس پر امام متعلقہ فرد کو معزول کرنے کا حق رکھتا تھا۔ہمارے طالب علمانہ نقطہ نظر کے مطابق دور اول میں خروج اور بغاوت کے مسلسل واقعات کو اس تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اقتدار کے پرامن انتقال نیز ریاستی جبر سے تحفظ جیسے اہم عملی سوالات کا کوئی حقیقی جواب اس وقت مسلم سیاسی فکر کے پاس، بلکہ اس وقت دنیا کے کسی بھی مسلمہ سیاسی فکر کے پاس موجود نہیں تھا۔ انسانی تمدن اور انسانی تاریخ اچھے اور برے تجربات کی روشنی میں اور خوب سے خوب تر کی تلاش کے جذبے سے ہی آگے بڑھتے ہیں۔ آج اگر دنیا کی کچھ دوسری قوموں نے اجتماعی نظام کو چلانے کے لیے مسلم سیاسی فکر سے ہٹ کر کچھ مفید تصورات یا تجربات پیش کیے ہیں تو انھیں اسلامی قانونی روایت کے لیے غیر مانوس ہونے کی بنیاد پر یکسر مسترد کر دینے کے بجائے ان کی عملی اور قانونی افادیت کے پہلو سے زیر غور لانا اور ان سے استفادہ کرنا چاہیے۔

Facebook Comments

عمار خان ناصر
مدیر ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply