پھس گئی جان شکنجے اندر۔۔ناصر منصور

پَھس گئی جان شکنجے اندر جیویں ویلنے وچ گنّا
رہو نوں کہو ہن رہوے محمد ہُن رہوے تے منّاں
( میاں محمد بخش )

جان شکنجے میں اس طرح پھنسی ہے جیسے بیلنے میں گنا پھنس جاتا ہے۔ رس سے کہو کہ اب گنے کے اندر رہ کر دکھائے، اگر رہ جائے تو ہم اسے ”عظیم“ مان لیں )

موجودہ حکومت اور اس کے لانے والوں کی صورت حال اس شعر کی عملی تصویر بنی ہوئی ہے۔ آئی ایم ایف سے کئے گئے معاہدے کے تحت نئی قسط کی وصولی کے لئے عائد شرط پوری کرنے کا وقت آ پہنچا ہے۔ پاکستان نے اگر ایک ارب ڈالرز کی اگلی قسط حاصل کرنی ہے تو اسے اگلے سال 12 جنوری کو آئی  ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کے ہونے والے اجلاس سے پہلے قومی اسمبلی سے ایک ایسا “فنانس بل” منظور کروانا لازم ہے جس کے ذریعے تین سو پچاس ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے جائیں گے۔ یہ ایک منی بجٹ ہو گا جس میں بنیادی طور پر ایک سو پچاس سے زائد اشیاء بشمول ادویات پر ٹیکس کی چھوٹ واپس لے کر جنرل سیلز ٹیکس عائد کر دیا جائے گا۔ 350 ارب روپے کی رعایت واپس لینے کا مطلب عوام کی جیبوں سے 350 ارب روپے ایک ہی جھٹکے میں نکالنے کا منصوبہ بپھرے ہوئے اونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکہ ثابت ہوگا۔اس منی بجٹ یا فنانس بل کی آڑ میں اسٹیٹ بنک آف پاکستان کو بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے مزید براہ راست کنٹرول میں دینے کی راہ بھی ہموار کی جائے گی۔

حکومت شدید تذبذب اور اضطرابی کیفیت کا شکار ہے، یہ بل منظور ہو جاتا ہے تو جاری معاشی بحران شدید تر ہو جائے گا جو موجودہ سیاسی ہلچل میں مزید ارتعاش پیدا کرے گا ۔ یہ بات تو طے ہے کہ یہ بل حکومت کے پشتی بانوں کی مرضی ، منشا اور اشارے پر ہی اسمبلی سے منظور ہو سکتا ہے اگر ایسا ہو گیا تو یہ عمل پشتی بانوں کے خلاف عوام میں موجود غیض و غضب میں اضافہ کا باعث بنےگا۔ اور اگر حکومت مقتدرہ کی حمایت سے محروم ہو جاتی ہے اور بل منظور نہیں کروا پاتی تو پھر مالیاتی اداروں سے تعلقات میں وقتی طور پر ایسا بگاڑ پیدا ہوگا جو موجودہ معاشی ڈھانچے  کی چولیں ہلا کر رکھ دے گا جس کا دارومدار ہی غیر ملکی مالیاتی داروں کے قرضہ جات اور مغربی نظام معیشت اور منڈی سے جڑا ہوا ہے۔ معاشی ابتری اس قدر ہے کہ معروف ماہر معیشت دانوں قیصر بنگالی اور حفیظ پاشا کے بقول اب فوج کی تنخواہوں کا بڑا حصہ غیر ملکی قرضوں سے پورا کرنے کی نوبت آ چکی ہے۔

مقتدرہ قوتیں اندرونی اور بین الاقوامی محاذ پر مشکلات میں گِھری ہوئی ہیں۔ داخلی محاذ پر ان کا پروجیکٹ 2018 بُری طرح ناکام ہو گیا ہے۔ جب کہ بین الاقوامی سطح پر آنے والی دہائیوں میں ترقی یافتہ صنعتی ممالک خصوصا ً امریکہ کا توانائی کے لئے فاسل فیول ( آئل ، گیس اور کوئلہ) پر انحصار بتدریج کم ہونے کے تناظر میں افغانستان سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے انخلاء  اور اب خطہ میں عدم دلچسپی نے پاکستان خصوصا ً مقتدرہ کی اہمیت فی الوقت کسی حد تک کم کر دی ہے ، خود سعودی عرب میں تیزی سے ہونے والی تبدیلیاں بھی اسی امر کی نشان دہی کر رہی ہیں۔ اس لئے لگ رہا ہے کہ بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ بھی پاکستانی مقتدرہ اور حکومت کو کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں ۔ افغانستان کے بحران میں ان کا رویہ اور سعودی حکومت کا سفاکانہ طرز عمل اس کی تازہ مثال ہے۔ پاکستان کا معاشی اور عسکری تانا بانا جس قدر مغربی منڈیوں اور مفادات سے بندھا رہا ہے اس میں چین کی مدد جس کی امید کم ہی ہے شاید ہی کسی کام آ سکے۔

یوں بظاہر مضبوط مقتدرہ کی کشتی بیچ  منجھدھار  میں آن پھنسی ہے اور یہ رائے راسخ ہوتی جا رہی ہے کہ موجودہ اندرونی و بیرونی ابتر صورت حال کے ذمہ دار خود یہی مقتدرہ قوتیں ہیں۔ بتایا یہ جا رہا ہے کہ وہ بڑھتے طوفان سے باہر نکلنے کی راہیں تلاش کر رہی ہیں لیکن نئے من پسند مہرے من پسند شرائط پر دستیاب نہیں یا پھر جو دستیاب ہیں وہ اس قابل نہیں کہ بحران کی شدت کو کم کرنے کی صلاحیت کے حامل ہوں اور انہیں بدنامی سے بچانے میں مددگار ثابت ہو سکیں۔

اسی تناظر میں نواز شریف کی پاکستان آمد اور مقتدرہ قوتوں کی ان سے ممکنہ ڈیل کی خبریں اب زبان زدِ عام ہیں۔ اب شرائط ہمیشہ کی طرح مقتدرہ طے کرے گی یا کہ سیاسی قوتوں کے نمائندگی کرتے ہوئے نواز شریف ، لگتا یہ ہے کہ اس بار کچھ مختلف ہونے جا رہا ہے کیوں کہ نواز شریف ہر گزرتے دن حکومتی ناکامی اور “اکنامک میلٹ ڈاؤن ” ہوتے دیکھ رہے ہیں اسی لئے وہ “ڈیل” اور “نو ڈیل” ہر دو صورت مطمئن ہیں کہ معاشی بحران ،پیداواری سست روی اور مہنگائی کا طوفان عوام میں حکومت اور مقتدرہ کے خلاف جو غصہ و نفرت کا لاوا پک رہا ہے وہ کسی وقت بھی آتش فشاں بن سکتا ہے۔ جب کہ امریکہ اور اس کے زیراثر اداروں کا مستقل دباؤ اور بے اعتنائی اس خوف ناک صورت کو دو آتشہ کرتے ہوئے نواز شریف اور سیاسی قوتوں کے لئے راہیں ہم وار کر رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

عوامی قوتوں کے منظم نہ ہونے کی بنا پر موجودہ سیاسی منظر نامہ میں عوام کی زندگیوں میں کوئی بڑی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں لیکن غیر جمہوری قوتوں کی پسپائی سے عوامی امنگوں پر مبنی سیاسی و نظری اظہار اور جڑت کی نئی راہیں کھلنے کے امکانات ضرور روشن ہوں گے۔

Facebook Comments

ناصر منصور
محنت کی نجات کے کوشاں ناصر منصور طالبعلمی کے زمانے سے بائیں بازو کی تحریک میں متحرک ایک آدرش وادی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply