بخدمت جناب ہیڈ ماسٹر فیس بُک صاحب!

2دسمبر2015 میں امریکہ کے شہر سین برنارڈینو میں واقع ایک ریجنل سینٹر پر حملہ ہوتا ہے جس کے ذمہ دار دو پاکستانی نژاد امریکی میاں بیوی نکلتے ہیں۔ بیوی کا نام تاشفین ملک ہوتا ہے جبکہ شوہر کا نام رضوان فاروق بتایا جاتا ہے۔ امریکی خفیہ ادارے ایف بی آئی کے ہاتھ رضوان فاروق کا آئی فون لگتا ہے اور وہ اس کا ڈیٹا حاصل کرنے کے لئے ایپل سے رابطہ کرتے ہیں۔ ایپل اپنی سکیورٹی پالیسی کو سامنے رکھتے ہوئے ایف بی آئی کی اپیل کو مسترد کردیتا ہے۔ ایف بی آئی ایپل کو عدالت کے کٹہرے میں لاکھڑا کرتی ہے۔ جج امریکی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ ایف بی آئی کے حق میں سناتا ہے اور ایپل کو حکم دیتا ہے کہ ایف بی آئی کو مطلوبہ معلومات فوراً فراہم کرے۔ عدالتی فیصلے کے باوجود ایپل اپنے مؤقف پر قائم رہتے ہوئے ایف بی آئی کو ایک بار پھر صاف انکار کردیتی ہے کہ اگر ہم نے ایک بار انہیں معلومات فراہم کیں تو ہمارے کسی بھی صارف کی پرائیویسی محفوظ نہیں رہے گی۔ یہ واقعہ اس بات کو سمجھانے کے لئے کافی ہے کہ امریکہ کی بڑی کمپنیاں کس قدر طاقتور ہیں کہ وہ بعض اوقات ریاستی اداروں کو بھی خاطر میں نہیں لاتیں، ان کے پاس طاقت اس وجہ سے ہے کہ اگر ریاستی ادارے ان کو پریشان کریں گے تو وہ اپنا بوریا بستر کسی دوسرے ملک لے جا کر امریکی معیشت کا بھٹہ بٹھا سکتی ہیں۔
اب چلتے ہیں پاکستان کی طرف ۔۔۔۔ ذرا تصور کیجئے جو کمپنی امریکی اداروں کو خاطر میں نہ لائے اس کے پاس پی ٹی اے کے کسی بارہویں پاس بابو کی عرضی جائے کہ بخدمت جناب ہیڈ ماسٹر فیس بک صاحب!
گزارش ہے کہ ہمیں اپنے فلاں فلاں صارف کی لوکیشن تک رسائی دے دیں۔عین نوازش ہوگی!
تو آپ تصور کرسکتے ہیں کہ آگے سے کیا جواب ملے گا۔ اس لئے اگر کوئی سمجھتا ہے کہ فیس بک پر پیجز چلانے والا کوئی شخص چوہدری نثار صاحب کے ہاتھ لگے گا اور اس پر پاکستان میں مقدمہ چلے گا تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ اس میں پاکستانی اداروں کی کوتاہی یا عدم دلچسپی وجہ نہیں بلکہ وجہ یہ ہے کہ صارفین کی معلومات کسی بھی حکومت کو فراہم کرنا فیس بک کی پالیسی نہیں ہے۔ فیس بک زیادہ سے زیادہ جو مہربانی پاکستانی اداروں پر کر سکتا ہے وہ یہ ہے کہ جس پیج کی نشاندہی حکومت کرے اس کو بلاک کر دے۔ پاکستانی اداروں کے پاس اتنی تکنیکی صلاحیت نہیں کہ وہ فیس بک پر کسی ایک پیج کو یا یوٹیوب پر کسی ایک وڈیو کو بلاک کرسکیں۔ یہی وجہ تھی جو ایک ویڈیو کی وجہ سے پوری یوٹیوب بند کرنی پڑی تھی۔ اب روز پی ٹی اے کے سربراہ کو عدالت بلا کر ڈانٹا جائے یا چوہدی نثار کو گالیاں دی جائیں اس سے حاصل کچھ نہیں ہونے والا کیوں کہ وہ اس بات کا اعتراف کبھی نہیں کریں گے کہ وہ اس سارے معاملے میں بے بس ہیں۔ اس لئے اس سارے معاملے کے تین ہی ممکنہ انجام ہیں۔ فیس بک پی ٹی اے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے ان کے بتائے ہوئے پیجز پاکستان میں بلاک کر دے۔ دوئم یہ کہ جو ہو رہا ہے وہ ہونے دے یا پھر پورا سوشل میڈیا بند کر دیا جائے اور لوگ پراکسی کا استعمال شروع کر دیں۔

Facebook Comments

محمد انس رحمٰن
ڈیجیٹل میڈیا ایگزیکیٹؤ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply