ریاست میں ریاست ۔ شفاف انتخابات ۔ عوامی احتساب

شاگرد : لاپتہ افراد کے معاملات ، ریاست میں ریاست کے مترادف ہیں ، کیا کہتے ہیں آپ اس بارے میں ۔
استاد : یہ اس موضوع پر کی جانے والی گفتگو کا ابتدائی اور پہلا جملہ ہے اس کے ساتھ اگر آخری جملہ ملا دو تو بات مکمل بھی ہو جائے گی اور معنی بھی واضع ہو جائیں گے ۔
شاگرد : ہاں آخری جملہ تھا ، میں سینٹ کا چیئرمین ہوتے ہوئے بھی لاپتہ افراد کے بارے میں کوئی اختیارات نہیں رکھتا اور کچھ نہیں کر سکتا میں اپنی بے بسی کا اعتراف کرتا ہوں ۔
استاد : اور لاپتہ افراد کا معاملہ ریاست میں ریاست کے مترادف ہے ، اس کے بعد کیا کسی وضاحت کی ضرورت باقی رہتی ہے ؟
شاگرد : مگر یہ تو ایک عام فہم بات ہے ساری دنیا جانتی ہے اور اظہار بھی کرتی ہے ۔
استاد : ایک عام شخص اور ایک ٹریفک سارجنٹ کے سگنل توڑنے میں فرق ہوتا ہے ۔
شاگرد : بیشک ، یعنی رائے عامہ کی سمت اگر غلط بھی ہو تو ریاست کے ایک اہم ستون کی جانب سے اختیار کیئے جانے والاموقف اس قدر وزن رکھتا ہے جو رائے عامہ کی سمت کے بارے میں حتمی رائے قائم کرنے میں معاون ہو کہ آیا عوام کی اکثریت سہی سوچ رہی ہے یا غلط ۔
استاد : بالکل، سینٹ ایوان بالا ہے اور سینٹ کے چیئرمین کی بات اہمیت کی حامل ہے جس کا نوٹس لیا جانا چاہئے ۔
شاگرد : نوٹس کا کیا مطلب ، کیا ریاست میں ریاست کا وجود ہے یا نہیں یہ جاننے کیلئے کوئی عدالتی کمیشن بنا دیا جائے۔
استاد : سپریم کورٹ کے ایک سینئر جج کل حیدرآباد میں اپنے اعزاز میں دیئے گئے عشائیہ میں پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ یہ ممکن نہیں کہ سپریم کورٹ کے 17 جج پورے ملک کو سنبھالیں۔ اداروں کو اپنے کام خود کرنے چاہئے ہیں ۔
شاگرد : پھر کیا حل نکلے گا ۔
استاد : ایک فوجی عدالتی کمیشن بھی بنا لیا جائے تو کیا حرج ہے ۔
شاگرد : ایسا کیسے ممکن ہے ۔
استاد : مشرف کے دس سال کی نام نہاد جمہوری حکومتوں کو نکال بھی دو تو سن 88ء سے اب تک یہ چھٹی عوامی جمہوری حکومت ہے 27 سال سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے انتظامی معاملات وفاق رینجرز کے ذریعے چلا رہا ہے ایک جمہوری حکومت اپنی پانچ سالہ مدت پوری کر کے جا چکی دوسری چار سال پورے کر کے اپنے آخری برس میں داخل ہو چکی مگر فوجی عدالتیں بنانے اور انھیں دوسری مدت کیلئے توسیع دینے پر مجبور ہے۔ پھر کیا فرق پڑتا ہے اگر فوجی عدالتی کمیشن بنا کر ہی ہر اہم قومی معاملے کا حل تلاش کر لیا جائے ۔
شاگرد : ریاست میں ریاست کی بات کچھ ایسی نئی تو نہیں سابقہ حکومت کے دور میں جب میمو گیٹ اسکینڈل اپنے عروج پر تھا اور حکومت کو عدالتی مزاحمت کا بھی سامنا تھا تب سابقہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی ریاست میں ریاست کے وجود کی بات کی تھی ۔
استاد : بالکل، کی تھی اور انھوں نے پارلیمنٹ میں کی تھی۔ میاں رضا ربانی نے تو کراچی میں بحریہ یونیورسٹی میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران اس بات کا اظہار کیا ہے مگر وزیر اعظم نے تو ایوان میں آواز بلند کی تھی مگر نتیجہ کیا نکلا انھیں گھر جانا پڑا ۔
شاگرد : کہا جاتا ہے اس وقت عدلیہ آزاد تھی اور اپنی مرضی سے فیصلے کر رہی تھی ۔
استاد : پاکستان کی تاریخ میں عدلیہ کبھی اس بری طرح استعمال نہیں ہوئی جس طرح اس دور میں اسے استعمال کیا گیا، تمام ہی ادارے عملی طور پر سوموٹو نوٹس کی زد پر مفلوج کر دئیے گئے تھے جج کو بحال کروانے والوں نے جج کو نہایت بے دردی کے ساتھ استعمال بھی کیا اور اس تمام صورتحال کو دیکھتے ہوئے انکی بحالی کیلئے تحریک چلانے والے کتنے ہی مخلص لوگ اعتزاز احسن سمیت انکا ساتھ چھوڑ گئے ۔
شاگرد : کیا جنرل راحیل کو ماورائے دستو ر سعودی عرب کی قیادت میں بننے والے فوجی اتحاد کی سربراہی کی اجازت دے دی جائے گی؟ اطلاع ہے کہ اس حوالے سے حکومت پر دباو ہے کہ انھیں اجازت دے دی جائے ۔
استاد : دے دی جائے گی کا کیا مطلب اجازت تو دی جا چکی ہے خواجہ آصف نے کل ہی اعتراف کیا ہے کہ ہماری حکومت نے جنرل(ر) راحیل شریف کو اتحادی فوج کی قیادت کی اجازت دے دی ہے سعودی عرب ہمارا بہترین دوست ملک ہے اور ہم نہیں چاہتے کہ اس سے تعلقات خراب ہوں ۔
شاگرد : دباو کا سبب کیا پانامہ کیس کا متوقع فیصلہ ہے ۔
استاد : بیشک پانامہ کیس بھی ایک سر پر لٹکی تلوار ہے مگر وہ نہ بھی ہو تب بھی اوپر مذکور چیئرمین سینٹ کے بیان کے حوالے سے کوئی سول حکومت کب دباو سے باہر ہوتی ہے ۔
شاگرد : چیئرمین سینٹ کی اس تقریر کے کچھ دیر بعد جناب وزیر داخلہ چوہدری نثار نے بھی ایک بیان جاری کیا تھا کہ قوم اور ملک صرف فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی وجہ سے محفوظ ہے ۔
استاد : ملک و قوم کی حفاظت ہی کیلئے فوج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بنائے جاتے ہیں چوہدری صاحب ایک مغالطے کا شکار ہیں انھیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ ادارے اسی کام پر مامور کرنے کیلئے بنائے گئے ہیں ملک انکے لیئے نہیں بنایا گیا انھیں ملک کیلئے بنایا گیا ہے ۔
شاگرد : اپنی اسی تقریر میں میاں رضا ربانی نے مزید کہا ہے کہ قائداعظم نے جس مقصد کیلئے ملک بنایا تھا ہم اس مقصد سے بہت دور نکل آئے ہیں ۔
استاد : وہ کبھی کوئی غیر واضع یا مبہم بات نہیں کرتے اس کی وضاحت بھی انہوں نے اپنی تقریر میں ہی کر دی تھی کہ بانی پاکستان کی خواہش اور جدوجہد کا مقصد ایک فلاحی ریاست کا قیام تھا جسے ہم نےنیشنل سیکیورٹی اسٹیٹ بنا دیا ہے ۔
شاگرد : اسے دوبارہ ایک فلاحی ریاست کی جانب کون لے کر جائے گا ۔
استاد : ایک ایسی عوامی حکومت جو اپنی قانونی اور دستوری حدود سے بھی واقف ہو اور اسے منوانا اور استعمال کرنا بھی جانتی ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کی اپنی کوئی کمزوری نہ ہو جو کسی بند فائل کی صورت تلوار بن کر اس کے سر پر لٹک رہی ہو ۔ریاست میں ریاست ، حکومت کا آدھے سے زیادہ انحصار ہی اس نوع کی کمزوریوں پر ہوتا ہے ۔
شاگرد : مگر سیاسی جماعتوں یا رہنماوں کا احتساب کون کرئے گا ۔
استاد : عوام
شاگرد : عوام کے سامنے جوابدہ کون ہے ، کوئی جوابدہ ہو تو عوام احتساب کریں نا ۔
استاد : تو تمہارا خیال ہے کہ کوئی عوامی کمیشن بنایا جائے گا جہاں ایم پی اے اور ایم این اے ، وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم آ کر عوام کا سامنا کرینگے ۔ ایسا نہیں ہوتا۔ جمہوری نظام میں عوام کی طاقت عوام کا ووٹ اور اظہار رائے ہے۔ عوام کو اپنے ووٹ کی طاقت سے کرپشن کا راستہ روکنا ہوگا ایک بار جب عوام نے اپنے شعور پر پرکھ کر احتساب کا فیصلہ کر لیا تو کسی عوامی نمائندے کی مجال نہیں ہو گی کہ وہ مادی مفادات کے پیچھے اپنا سیاسی کیرئیرتباہ کر لے مگر ایک بار تو عوام کو اپنا حق اپنی طاقت استعمال کرنا ہی ہو گی ۔ایک بار عوام فیصلہ کر لے کہ وہ کسی چور کسی لٹیرے کو ووٹ نہیں دے گی خواہ اس کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو ایک بار عوام کا استحصال کرنے والے ووٹ مانگنے جائیں اور انھیں عوام کے جوتے کھانے کو ملیں تو اس سے بڑا اور کیا احتساب ہوگا ۔
شاگرد : اور اگر انتخابی نتائج پہلے سے کہیں اور بیٹھ کر طے کر لئے جائیں ۔
استاد : تو پھر اس میں شرم کیسی ایک ‘ فوجی الیکشن کمیشن ” بھی بنا لو۔۔ ہر چیز با ضابطہ ہو جائے گی ۔

Facebook Comments

کاشف رفیق محسن
اسلام انسانیت کا مذہب ہے ، انسانیت ہی اسلام کا اصل اور روشن چہرہ انسانیت ہی میرا مذہب

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply