• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • شہدائے کربلا اور انصارالحسین میں” اصحابِ رسولۖ “کون شخصیات تھیں؟۔۔توقیر کھرل

شہدائے کربلا اور انصارالحسین میں” اصحابِ رسولۖ “کون شخصیات تھیں؟۔۔توقیر کھرل

حضرت امام حسین علیہ السلام کے الہیٰ لشکر اور مجاہدین فی سبیل اللہ کو روایا ت اور تاریخ میں بہت سے مختلف ناموں کے ساتھ یاد کیا گیا ہے
ان القابات اور ناموں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اصحاب امام حُسین کونسی صفات اور خصوصیات کے حامل شخصیات تھیں ۔مشہورالقابات اور نام یہ ہیں :

شیروں کے شیر ، موت کے عاشق لوگ،اللہ کے نیک بندے،شہادت کے عاشق ،پاک و پاکیزہ لوگ،اللہ کو یاد رکھنے والے لوگ ،صاحبانِ بصیرت ،محدثین، متقی اور نیکوکار، بوقت سحر خد اکو پکارنے والے ،عابد وزاہد حافظ اور قاریان ِقرآن، مشرکوں کے قاتل ،قابل فخر سردار۔۔۔

اِن تمام خصوصیات کے ساتھ ساتھ بعض انصار الحُسین کو یہ طرہ امتیاز بھی حاصل تھا کہ وہ پیغمبر اکرم ۖ کے صحابی بھی تھے ۔

فضیل بن زبیر کے مطابق امام حسین علیہ السلام کے رکاب میں شہادت پانے والے افراد میں صحابہ رسول اکرم ۖ کی تعداد6 اور مسعود کے مطابق 4تھی جبکہ بعض مورخین ومحققین نے 5تعداد بتائی ہے۔

انس بن حارث ،حبیب بن مظاہر اسدی،مسلم بن عوسجہ ،ہانی بن عروہ مرادی،عبد اللہ بن یقطرعمرو بن ضبیعہ۔۔

البتہ احادیث کے راویوں اور پیغمبر اکرم ۖ کی زیارت کرنے والوں اور ان سے فیض حاصل کرنے والوں سمیت کربلا میں شریک ہونے والے صحابہ کی تعداد14 سے زائد معلوم ہوتی ہے۔

جبکہ کربلا میں شہید تابعین کی تعداد 20 ہے۔کربلا میں شہید ہونے والے چند اصحابِ رسول ۖ کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے ۔

انس بن حارث کاہلی اسدی
آپ کا شمار سرکار رسالت مآب ۖ کے صحابہ کرام میں ہوتاہے غزوہ بدر اور حُنین میں شریک ہوچکے ہیں
یہ وہ بزرگوار صحابی ہیں جنہوں نے سرکار رسالت مآب سے یہ حدیث روایت کی ہے :یعنی یہ میرا حسین ایسی سرزمین میں شہید کردیا جائے گا جس کو کربلا کہتے ہیں تو تم میں سے جو شخص بھی اس وقت موجود ہو اسے اس کی امداد کرنا چاہیے۔(بحوالہ تاریخ ابن عساکر )

مقتل الحسین مقرم کے مطابق حضرت انس نے دس محرم کو جب اذنِ جہاد حاصل کیا تو اپنے عمامے کو پٹکا بناکر کمر سے باندھا اور آنکھوں پر لٹکے ہوئے ابروؤں کو ماتھے پر پٹی باندھ کر اوپر کیا جب امام علیہ السلام نے اس حالت میں دیکھا تو اشک بار ہوئے اور فرمایا شکر اللہ یا شیخ ! اے بزرگ خدا تمہیں جزائے خیر دے

پھر حضرت انس میدان میں گئے اور پیرانہ سالی کے باوجود اٹھارہ یزیدیوں کو واصل جہنم کرنے کے بعد جام ِشہادت نوش فرمایا۔

عبد الرحمن بن عبدالرب
یہ عظیم المرتبت صحابی رسول ہیں اِن کا ذکر دوسری تحریر میں ہوچکا ہے۔

حبیب ابن مظاہر اسدی
آپ حضرت رسالت مآب ۖ کے اصحابِ باوفا میں سے تھے کوفہ کے باشندے اور امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے دوست اور آپ کے خواص میں سے تھے ،حضرت علی نے آپ کو بہت سے علوم تعلیم فرمائے تھے۔حبیب بن مظاہر کی شہادت حضت ابا عبد اللہ پر نہایت گراں گزری اور اس سے آپ کو زبردست صدمہ پہنچا ۔

ایک روایت کے مطابق امام علیہ السلام نے حبیب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا حبیب تم کس قدر خدا کے برگزیدہ بندے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق عطا فرمائی تھی کہ ہر رات قرآن مجید کا ایک ختم کیا کرتے تھے ۔

عبد اللہ بن یقطر حمیری
صحابی رسولۖ تھے آپ امام حسین کے ہم عمر تھے اور دونوں شخصیات ایک ہی آیا کی گود میں پلے تھے حضور پیغمبر کی زیارت صحبت اور استفادہ کا شرف حاصل کیا۔

حضرت مسلم بن عوسجہ اسدی
صحابی رسول ۖتھے آنحضرت کی زیارت کا شرف حاصل ہے ۔ممتاز و معزز اشراف عرب میں سے سردار قوم عابد و تہجد گزار تھے۔کوفہ میں جب حضرت مسلم و حضرت ہانی گرفتار ہوگئے اور شہید کیا گیا تو مسلم بن عوسجہ ایک مدت تک روپوش رہے پھر کسی طرھ اپنے متعلقین سمیت کوفہ کے نکل کر کربلا پہنچے اور اپنی جان فدا کی ۔
شب عاشور امام نے جو تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا ہے جس میں آپ نے اپنے اصحاب کو بیعت کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کرنا چاہا تو حضرت مسلم بن عوسجہ نے فرمایا کیا ہم آپ کو چھوڑ کر چلے جائیں خدا کی قسم یہ نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ میں ان کے سینوں میں اپنے نیزے کو توڑوں آپ کے ساتھ رہ کر مرجاؤں گا۔
بعض مورخین نے انہیں کربلا کا پہلا شہید بھی رقم کیا ہے ۔حضرت مسلم بن عوسجہ اُن شخصیات میں سے تھے جو اپنے اہل و عیال کے ساتھ کربلا میں شریک ہوئے تھے ۔

جب آپ کی شہادت کی خبر خیمہ میں پہنچی تو ایک کنیز نے چیخ کر کہا یا ابن عوسجہ ۔یہ سنتے ہی دشمن کی افواج میں خوشیوں کی شادیانے بجنے لگے ۔خُدا کی لعنت ہو ظالمین پر ۔۔

کنانہ بن عتیق تغلبی
صحابی رسولۖ تھے اپنے والد عتیق کے ہمراہ جنگ احد میں شرکت کی رسولِ خدا کے شہسواروں میں شمار ہوتے تھے ۔

عمار بن ابی سلامی دالانی ہمدانی
صحابی رسولۖ تھے حضور کی زیارت کا شرف حاصل ہے اور حضور کی ذات سے فیض حاصل کیا ہے ۔ابن حضر اپنی کتاب “الاصابہ” میں رقم طراز ہیں کہ عمار نے حضور پاک ۖ سے فیض حاصل کیا حضرت علی علیہ السلام کے ہمراہ رکاب میں جنگوں میں بھی شریک رہے میدانِ کربلا میں حضرت امام حُسین علیہ السلام کے ساتھ مل کر شرف ِشہادت حاصل کیا ۔

حضرت حمزہ کے غلام حرث بن نبھان
حضرت حرث کے والد حضرت حمزہ علیہ السلام کے غلام تھے اور حضرت حمزہ کی شہادت کے دو سال بعد ان کی وفات ہوگئی حضرت حرث کو ایک عرصے تک پیغمبر خدا کی زیارت کا شرف حاصل ہوا چونکہ حضرت حرث امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی زیر نگرانی پروان چڑھے اور تربیت پائی اس لئے کئی مرتبہ حضور رسالت مآب کی قریب سے کئی مرتبہ زیارت کا شرف بھی ضرور حاصل کیاہوگا۔

کچھ ایسی شخصیات بھی ہیں جن کے بارے تاریخ کی کتابوں میں صحابیت کے بارے اختلاف پایا جاتا ہے
مسلم بن کثیر،عمرو بن حمق ،مولا علی کے غلام سود بن حرث، یزید بن مغل ،شبیب بن عبد اللہ،جنادہ بن حرث،جندب بن حجیر شامل ہیں ۔

علل الشرائع میں ہے جب امام جعفر صادق علیہ السلام سے امام حُسین علیہ السلام کے اصحاب اور انُ کی شہادت کے لئے آمادگی کے بارے سوال کیا گیا تو آپ نے ارشادفر مایا

:اس حد تک اُن کے لئے سارے پردے ہٹا دیے گئے تھے کہ انہوں نے بہشت میں اپنے محلات کا مشاہدہ فرمالیا تھا اور ان میں سے ہر ایک شہید ہونے کے لئے بے تاب تھا ۔

یہی وجہ ہے کہ خود حضرت ابا عبد اللہ الحسین نے شب عاشور اپنے جانثاروں کے بارے میں ارشاد فرمایا :

میں اپنے اصحاب سے بہتر اور باوفاتر کسی کے اصحاب کو اور نہ ہی اپنے اہل بیت سے بڑھ کر وفادار اور صلہ رحمی کرنے والا کسی کے اہلبیت کو دیکھتا ہوں۔

امام عالی مقام کے جانثار اور وفادار ساتھیوں نے اپنے مشن کی تکمیل کے لئے جس شجاعت، شہامت ،جاں نثاری اور فداکاری کا مظاہر ہ کیا ۔

تاریخ میں اس کی مثال ملنا محال ہے امام حُسین اور اصحاب امام کے قیام نے پوری دنیا کو ہلاکر رکھ دیا اور اپنے مظلوم خون کی مقدس دھار سے دشمن کے ناپاک شیطانی عزائم پر ایسی کاری ضب لگائی کہ

Advertisements
julia rana solicitors london

قیامت تک کے لئے اس کا نام داخلِ دشنام کردیا اور تلوار پر خون کو غالب کرکے بتادیا دشمن خواہ کس قدر طاقت ور کیوں نہ ہو قربانی ،فداکاری اور مظلومیت سے اس کو زیر کیا جاسکتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply