اپنے حصّے کا دیا جلانا ہو گا/قمر رحیم خان

انفارمیشن کے دور میں پہنچ کر ہم ایک دوسرے سے بہت دور ہو گئے ہیں۔سوشل میڈیا پر جس انداز میں ہم اپنے مسائل اور دیگر معاملات کو زیر بحث لاتے ہیں اس سے خاطرخواہ نتائج حاصل نہیں ہو سکتے۔ہمیں ایک سنجیدہ مکالمے کی ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کے علم، ہنر،دانش و تجربے سے مستفید ہوتے ہوئے مثبت سمت میں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
ہمارا معاشرہ اور ریاست رو بہ زوال ہیں۔اس زوال کی وجہ ہمارا موجودہ سوشل کنٹریکٹ ہے۔اسے اپنی ضرورتوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ہمیں صحت مندانہ طرز فکر اور حکمت عملی کی ضرورت ہے۔جس میں ہم خود یہ فیصلے کریں کہ ہمارا معاشرہ اور ریاست کیسے ہونے چاہیئں؟ہمیں کس طرح کے قوانین اور اخلاقیات کی ضرورت ہے؟اور اس کے لیے ہمیں کیا کچھ کرنا ہے؟
جیسے گناہ پر سزا کا تصور انسان کو توبہ کی طرف مائل کرتا ہے۔ ایسے ہی اگراجتماعی غفلت اوربے حسّی پر ایک معاشرے کو ملنے والی سزاکا تصوربھی ہمارے شعور یا لاشعور کاحصہ ہوتا تو ہم آج اپنے ہی پیدا کردہ مسائل کی دلدل میں نہ دھنس رہے ہوتے۔ان مسائل کی صورت ہمیں سزا مل رہی ہے ۔ جس پر ہم ریاست کو کوس رہے ہیں۔ اس سے کچھ نہیں ہوگا۔ تا وقتیکہ ہم معاشرے کی فکری سطح کو بلند نہیں کرتے اور ریاست کی بوسیدگی کو دور نہیں کر پاتے۔ یہ کسی ادارے کا نہیں فرد کا کام ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں مل بیٹھ کر اپنی موجودہ حالت کو زیر بحث لانا چاہیے۔ہمیں کئی ایک چیلنجز کا سامنا ہے۔ ذیل میں ان چیلنجز پر مشتمل ایک سوال نامہ ترتیب دیا گیا ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ لوگ مین اسٹریم میڈیا( ٹی وی ٹاک شوزوغیرہ)جوسامراجی ایجنڈے کااستحصالی میڈیم ہے،جس نے لوگوں کو بے فائدہ بحثوں میں الجھا رکھا ہے، اس سے باہر نکلیں۔وہ اپنے مسائل کو زیر بحث لائیں اور بہتر زندگی کی طرف قدم بڑھائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

٭ہم بحیثیت فرد اور ادارہ اپنی سماجی ذمہ داریوں سے غافل ہیں۔یہ غفلت ایک سماجی بیماری ہے جو ہمارے اکثر مسائل کی جڑ ہے۔ اس بیماری کا علاج کیسے کیا جائے؟
٭ہم معاشی خود انحصاری کے حصول کے لیے کیا کچھ کر سکتے ہیں؟
٭کیا موجودہ تعلیمی نظام معاشی خودکفالت سے مطابقت رکھتا ہے؟اگر نہیں تو اس ضمن میں کیا کچھ کیا جانا چاہیے؟
٭ہمارا ہر فیصلہ اور ہر کام میرٹ کی بنیاد پر ہو۔ اگر ہم یہ نہ کر سکے توہمیں برباد ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ کیا ہم میرٹ کی بالادستی کے لیے خود کو تیار کر سکتے ہیں؟
٭ہم اپنی سیاسی، سماجی، پیشہ ورانہ اور کاروباری اخلاقیات کو کیسے بحال کرسکتے ہیں؟
٭نئی نسل کی اخلاقی تربیت کے لیے کیا کچھ کیا جاسکتا ہے؟انہیں نشے کی دلدل سے کیسے نکالا جا سکتا ہے؟
٭صفائی کے معاملے میں ہم انتہا درجے کے غیر ذمہ دارانہ رویّوں کا شکار ہیں۔ ذہنی معذوری کی اس کیفیت سے کیسے باہرنکلا جائے؟
٭شہر اور دیہاتوں میں سیوریج سسٹم کے نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے چشمے زہر آلود ہو چکے ہیں اور ماحول بیماریوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔سیوریج سسٹم کو کیسے لانچ کیا جائے؟پینے کے صاف پانی کے مسئلے کو کیسے حل کیا جائے؟
٭انتظامیہ کو قانون پر عمل درآمد کے سلسلے میں کن مشکلات کا سامنا ہے؟غیر تربیت یافتہ اور غیر لائسنس یافتہ لوگوں کو گاڑی اور بائیک چلانے کی اجازت کیوں ہے؟
٭ہم اپنے شہر کو ایک ماحول دوست اور ماڈل سٹی کیسے بناسکتے ہیں؟نو منتخب مقامی حکومتوں کو عوام اور انتظامیہ کی طرف سے کس طرح کے تعاون کی ضرورت ہے؟
٭ایک صحت مندانہ طرز زندگی کو کیسے رواج دیا جائے تاکہ بیماریوں سے بچا جا سکے؟
٭جب تک ہم خود نہیں بدلتے،ہمارا معاشرہ، معیشت اور ریاست نہیں بدلیں گے۔ہم خود کو کیسے بدل سکتے ہیں؟
چیلنجز انسانی زندگی کا حصہ ہیں۔ان کا پیدا ہونا اور انسان کے سامنے آکھڑا ہونا فطری عمل ہے۔ انسان جب دنیا پر آیا تو اس کا سب سے پہلا چیلنج خوراک کا حصول تھا۔ پھر تن ڈھانپنے کو پردہ اور سر چھپانے کی جگہ۔ یہ چیلنجز ہمیں آج بھی درپیش ہیں اورہم ان سے نمٹتے ہیں۔ یہ انفرادی چیلنج ہیں۔ اجتماعی چیلنج آبادی اور ٹیکنالوجی کے ساتھ بڑھتے چلے جاتے ہیں۔شہروں اور ریاستوں کی حکومتیں ایسے ہی کئی ایک چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بنائی جاتی ہیں۔یہ حکومتیں لوگ منتخب کرتے ہیں۔اور ان حکومتوں میں پائے جانے والے Civic sense، سماجی شعور اور ذمہ داریوں کے احساس کی سطح وہی ہوتی ہے جو معاشرے میں پائی جاتی ہے۔ لہٰذا آج ہم جتنے مسائل کا شکار ہیں اس کی بنیادی وجہ ہمارے Civic senseکی سطح کا انتہائی پست ہونا ہے۔ نتیجۃً ہم اپنی سماجی ذمہ داریوں سے غافل ہو جاتے ہیں۔یہ غفلت ہماری قیادت کو اس کی ذمہ داریوں سے غافل کر دیتی ہے۔ یوں ہماری طرح وہ بھی فقط اپنا گھر بنانے میں لگ جاتے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری حکومتیں ہمارے مسائل کے حل میں سنجیدہ ہوں ااور وہ ہمیں لوٹنے کی بجائے ہماری بہتری کی فکر کریں تواس کے لیے ہمیں اپنی سماجی ذمہ داریوں کے معاملے میں سنجیدہ ہونا پڑے گا۔
کئی ایک معاشروں میں ایسی قیادت بھی سامنے آئی ہے جس نے معاشرے کی شعوری و فکری سطح کو بلند کیااور مختصر وقت میں اپنی قوم کو ترقی یافتہ قوموں کی صف میں لا کھڑا کیا۔ ماضی بعید میں عمر بن عبدالعزیز کی معروف مثال ہمارے سامنے ہے۔ ماضی قریب میں کئی ایک مثالیں ہیں جن میں سب سے نمایاں چینی قوم کی مثال ہے۔برطانیہ نے انہیں افیون کی دلدل میں پھنسا دیا تھا ۔ لیکن آج یہی افیونی قوم دنیا پر حکومت کر رہی ہے۔ایسے ہی متحدہ عرب امارات کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ وہاں کے بدوہم سے کہیں زیادہ مہذّب ہیں۔ وسائل سے محروم چھوٹے سے ملک سنگا پورنے حیرت انگیز ترقی کی ہے۔
ہمار ے ہاں بابائے پونچھ کرنل خان محمد خان صاحب مرحوم جیسی قیادت کا خواب بھی محال ہے۔ لہٰذا سب کو مل جل کر کچھ کرنا پڑے گا۔ہم میں سے ہر ایک اگر اپنے حصے کا دیا جلائے تو راستے بن ہی جائیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply