ڈاکٹر مبارک کے ویڈیو بیان کے پس پردہ حقائق/بلال حسن بھٹی

تحریر کی نسبت تصویر اور ویڈیو کسی بھی شخص کی حمایت حاصل کرنے یا اس کے جذبات کو ابھارنے کے لیے زیادہ پُر اثر ہوتی ہے۔ اسی لیے آج کل ایسے کسی موقع کی مناسبت سے سوشل میڈیا پر تحریر کی نسبت ویڈیوز کا استعمال زیادہ ہو رہا ہے۔ کسی تحریرکی نسبت ویڈیو زیادہ آسانی سے وائرل ہوتی ہے اور اس کو ویوز بھی کئی گنا زیادہ اور نہایت کم وقت میں مل جاتے ہیں۔ اس لیے ساری عمر لکھنے والے لوگ بھی ویڈیو بنانے کی اہمیت کو جانتے ہوئے اس کو استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔

حال ہی میں ڈاکٹر مبارک علی کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی بلکہ کی گئی اور اس ویڈیو کو دو دن کے اندر اندر بلاشبہ لاکھوں لوگوں نے دیکھا۔ ویڈیو میں ڈاکٹر صاحب کے دو اعتراض تھے ایک یہ کہ ”ان کے مسودے فکشن ہاؤس واپس نہیں کر رہا“ تو دوسرا اعتراض یہ تھا کہ ”ان کو دو ماہ کی رائلٹی نہیں دی گئی“۔

ویڈیو کو دیکھنے والوں میں ڈاکٹر مبارک علی سے محبت کرنے والے اور دیگر کتاب دوست لوگ شامل تھے۔ ان لوگوں نے ویڈیو دیکھنے کے بعد فوری طور پر ایک مہم چلائی جس کا لب لباب یہ تھا کہ فکشن ہاؤس کا بائیکاٹ کر دینا چاہیے۔

ویڈیو کو بطور مہم چلانے والے اور ارادی طور پر اپنی کوششوں کے ذریعے پھیلانے والے تو جانتے تھے کہ وہ کیا کر رہے ہیں لیکن دیگر احباب نے یہ بھی نہیں سوچا کہ ڈاکٹر صاحب اور فکشن ہاؤس کا تعلق تین دہائیوں سے بھی زیادہ ہے۔ ان تین دہائیوں میں فکشن ہاؤ س نے نا  صرف ڈاکٹر صاحب کی تاریخ کے شمارے سمیت دو سو کے لگ بھگ کتابیں شائع کی ہیں۔ ان کی وجہ سے انہیں جیل کی ہوا بھی کھانا پڑی۔ ایسے طویل اور باہمی احترام پر مبنی تعلق میں ایسی کیا بات ہوئی ہے جو فکشن ہاؤس اور ڈاکٹر صاحب کے تعلق اس نہج پر پہنچ گئے ہیں؟

میرے نزدیک اس کی دو وجوہات ہیں ایک بعض واقعات کی بِنا پر میری ذاتی رائے ہے اور دوسری بات کا ثبوت تصویروں میں موجود ہے۔

پہلی بات جیسا کہ تصویروں میں دیکھ سکتے ہیں فکشن ہاؤس نے 2012 سے اب تک ڈاکٹر صاحب کو رائلٹی کی مد میں 54 لاکھ سے زائد روپے ادا کیے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے اپنی کتابیں فکشن ہاؤس کی بجائے کسی اور پبلشر سے چھپوانا شروع کر دی ہیں ،جو معاہدے کی صریحا ً خلاف ورزی ہے۔ اس وجہ سے پچھلے دو ماہ کے دوران فکشن ہاؤس اور ڈاکٹر صاحب کے تعلقات میں دراڑ آئی ہے۔ لیکن ڈاکٹر صاحب کی رائلٹی ادا کر دی گئی ہے ۔ بقایا واجبات بارہ لاکھ نہیں بلکہ بارہ ہزار روپے تک کے ہیں۔ یہی وہ اہم وجہ ہے جس کی بنا پر ڈاکٹر صاحب عدالت جانے کی بجائے عوام کی عدالت میں ایسے میڈیم کے ذریعے سامنے لائے گئے جس میں ثبوت اور حقائق سے زیادہ اہمیت ان کے وجود کی ہے۔ مثلا بزرگ، ادیب، دانشور، سینکڑوں کتابوں کے مترجم سوری مصنف، روشن خیال وغیرہ وغیرہ، جیسے لاحقے ان کی شخصیت کو اتنا بھاری بھرکم بنا دیتے ہیں کہ لوگ ان کے متعلق بُرا گمان رکھنا بھی غلط سمجھتے ہیں۔ ایسے میں اگر ویڈیو کے ذریعے بنائے گئے اس بیانیے  کے خلاف کوئی ایک لائن بھی لکھتا نظر آیا تو جذباتی فالورز نے اس کو آڑے ہاتھوں لینے کی کوشش کی۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو عمر کے آخری حصے میں سبز باغ دکھا کر ٹریپ کیا گیا ہے۔ یہ ادبی سے زیادہ کاروباری چشمک کا واضح ثبوت ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو کچھ چیزیں بارہا بتائی گئی ہیں۔
جن میں پہلی بات یہ کہ ان کی کتابیں بہت گھٹیا انداز میں شائع کی جاتی ہیں جبکہ پاکستان میں ایک مصنف ہے جو بہترین انداز میں کتاب کو لش پش کر کے شائع کرتا ہے لہذا آپ اس سے اپنی کتاب چھپوائیں۔

دوسری بات یہ کہ فکشن ہاؤس کونے میں گزری ایک دکان ہے اور ان کی موجودگی آج کی انٹرنیٹ والی دنیا میں کہیں نہیں، لہذا ایسے ادارے سے آپ کو کتاب چھپوانی چاہیے جس کی اپنی ویب سائٹ ہے اور جو سینکڑوں کی تعداد میں روزانہ آن لائن کتابیں سیل کرتے ہیں۔ اس سے آپ کی کتاب نوجوان نسل تک پہنچے گی اور آپ کو بھی رائلٹی کی مد میں اچھی رقم ملے گی۔

تیسری فکشن ہاؤس نے تو کبھی مصنف کی کسی طرح بھی پذیرائی نہیں کی لہذا آپ کو چاہیے کہ ایسے پبلشر سے کتاب شائع کروائیں جو مصنف کو بطور ماڈل بنا دیتا ہے۔ اس طرح آپ مصنفین کی صف سے نکل کر دانشور مصنف بن جائیں گے اور آپ کی شہرت کا ریوائیول بھی ہو گا۔

یہ سب باتیں اس لڑائی سے پہلے ہی ڈاکٹر صاحب کے کان میں ڈالی جاتی رہی ہیں۔ اس لڑائی کے بعد جب ڈاکٹر صاحب کے سو کالڈ خیر خواہ مشیر حضرات نے موقع دیکھا تو چوکا مارنے کی نیت سے ڈاکٹر صاحب سے یہ ویڈیو بنوا لی تا کہ ادارے پر ایک اخلاقی دباؤ  قائم کیا جائے۔ اگرچہ یہ طریقہ بہت کارگر ثابت ہوا جو ہونا بھی تھا لیکن اس دوران ایک دفعہ پھر عوام کی جذباتیت کا خوب فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ لیکن اب ڈاکٹر صاحب کے چینل سے اور ان کے مشیران کی طرف سے بھی ویڈیو اور پوسٹیں ہٹا لی گئی ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ڈاکٹر صاحب بزرگ ہیں ان کے اور فکشن ہاوس کے دیرینہ تعلقات ہیں۔ کئی مشترکہ دوست ہیں جو معاملات کو کسی نا کسی طرح حل کروا دیں گے۔ ۔ ڈاکٹر صاحب نے جو کل فکشن ہاؤس کے خلاف رپورٹ درج کروائی ہے اس میں رائلٹی کے پیسوں کی بجائے مسودوں کی واپسی کو مرکزی نقطہ بنایا گیا ہے۔ اگر باہمی دوستوں کی مشاورت سے معاملہ حل نہ ہوا تو تھانہ کچہری تو موجود ہے لیکن شرپسند اور ذاتی مفاد کے پس پردہ عوام کی جذباتیت سے کھیلنے والے لوگوں سے باخبر رہنا نہایت ضروری ہے۔ ہمیں ایسے لوگوں سے باخبر رہنا چاہیے تا کہ ان کے کسی پس پردہ مقصد کے لیے ہم استعمال نہ ہو سکیں۔

Facebook Comments

بلال حسن بھٹی
ایک طالب علم جو ہمیشہ کچھ نیا سیکھنے کی جستجو میں رہتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply