• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • عمران خان کو پارلیمنٹ کیساتھ کھڑا ہونا ہوگا/ڈاکٹر ابرار ماجد

عمران خان کو پارلیمنٹ کیساتھ کھڑا ہونا ہوگا/ڈاکٹر ابرار ماجد

2014 میں جب انہوں نے غیر فطری سیاست کا آغاز کرنا چاہا تو نواز شریف بنی گالہ انکے گھر سمجھانے کے لئے چلے گئے مگر ان کو شیروانی کے شوق نے امن سے نہ بیٹھنے دیا۔ اور انہوں نے دھرنوں کا آغاز کر دیا۔ میں نے اس وقت اپنے آرٹیکل “کپتان کے نام” میں انکو تجویز دی تھی کے پارلیمان کے اندر اور باہر دونوں جگہ دباؤ ڈالیں لیکن غیر آئینی سہاروں سے بچنے کی کوشش کریں مگر انہوں نے پارلیمان سے استعفےٰ دئیے اور بعد میں اسی اسمبلی میں ان کو رسوائی کا سامنا کرتے ہوئے جانا پڑا۔

جیسے تیسے انہوں نے شیروانی تو پہن لی مگر وہ شائد یہ بھول گئے کہ کس طرح سے اٹھارہ میں ریاستی وسائل کے استعمال سے انکی غیر آئینی سیاست کو سہارا اور اقتدار دیا گیا۔ انہوں نے اپنے محسنوں کو بے نقاب کرکے اپنے ہی خلاف گواہیوں کا سلسلہ شروع کر لیا اور اس کا سب سے بڑا ان کو نقصان یہ ہوا کہ ان پر سیاسی جماعتوں اور بین الاقوامی برادری کا تو پہلے ہی اعتماد ختم ہوچکا تھا ملکی اداروں کابھی رہتا سہتا اعتماد اٹھ گیا اور شائد اسی لئے انکے آئینی مطالبات میں بھی وہ وزن نہیں رہا جو ایک سیاستدان کے ہونا چاہیے۔

ایک سال پہلے انکی حکومت ناپسندیدگی کی پستیوں کو چھو رہی تھی اور ان کی قسمت ان پر مہربان ہوئی اور ان سے پارلیمان کی عمارت زبردستی خالی کرواکے ان کی مقبولیت کو چار چاند لگوادئیے، اپنے بدلتے بیانیوں اور بے نقاب ہوتی من گھڑت کہانیوں کے باوجود عوام میں اپنی مقبولیت کو قائم رکھنے میں کامیاب رہے جس میں بہت بڑا کردار ان کے محسنوں کا بھی تھا اور حکومت کی مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں ناکامی کا بھی۔ لیکن عمران خان نے محسنوں کے ساتھ ساتھ اپنے نصیبوں کو بھی نہ بخشا اور اپنی مقبولیت کی بنیادوں پرایک دفعہ پھر اقتدار حاصل کرنے کے لئے اپنی اسمبلیوں میں سیٹیں، اقتدار اور طاقت سب داؤ پر لگا دیا، ان کی ضد اور ضائع ہوتا اعتماد ان کو اکیلا کرتا گیا۔ میرے جیسے جمہوریت پر یقین رکھنے والے ان کو اپنی حکمت عملی بدلنے کی تجاویز دیتے رہے مگر ان پر مقبولیت اور اقتدار کے حصول کا بھوت طاری تھا اور انہوں نے کسی کی کوئی نہ سنی۔

جب ان کو سپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے استعفوں کی تصدیق کے لئے نوٹس آیا تو بھی میں نے لکھا کہ ان کے پاس قبلہ درست کرنے کا آخری موقعہ ہے مگر انہوں نے اس پر کوئی کان نہ دہرا۔ وہ نئے الیکشن کو ہی تمام مسائل کا حل سمجھتے رہے ان کو سمجھانے کی کوش کی جاتی رہی کہ حکمت عملی بدلیں اور اپنا حزب اختلاف کا مثبت کردار ادا کریں یہی راست سیاست اور جمہوریت کی خدمت ہے مگر انہوں نے ایک نہ سنی۔

ان کو کہا جاتا رہا کہ اسمبلیوں کو نہ توڑیں مگر وہ اپنی انا اور ضد پر قائم رہے اور حکومت کے ہاتھوں ٹریپ ہوگئے اب وہ اس کا الزام بھی اپنے محسنوں پر ہی لگانے لگے ہیں۔ میں نے اس وقت بھی لکھا تھا کہ سیاست کا مقام چوک چوراہے نہیں پارلیمان ہے۔ ان کو انتباہ کرتے رہے کہ چوک چوراہوں کی سیاست میں پھنس کر رہ جائیں گے مگر انہوں نے ایک نہ سنی اور اپنا ناقابل تلافی نقصان کر بیٹھے۔

انکو سمجھایا جاتا رہا کہ اس مقبولیت کے گھوڑے پر بہت سواروں نے اپنے زور بازو آزمائے ہیں اور انکو کچھ حاصل نہیں ہوا یہ گھوڑا کسی اور کا سدھایا ہوا ہے اور یہ دوڑ جیتنے کے لئے قبولیت اور معقولیت بھی درکار ہوتی ہے۔

اب وہ اپنی حکمت عملیوں کی ناکامی کی وجہ سے مجبوراً، ان کے بقول چوروں کے ساتھ ایک بے توجہی کے ماحول میں بیٹھے ہیں اور اپنی طاقت اور کھویا ہوا اقتدار اور اسمبلیوں میں واپسی کی صورتوں پر غور کر رہے ہیں مگر اب دیر ہو چکی ہے اور کوئی بھی ان پر اعتماد کرنے کے لے تیار نہیں ہے اور انکے سیاسی حریفوں ہی نہیں بلکہ غیر جانبدار تجزیہ کاروں کا بھی خیال ہے کہ وہ اس ملک میں سیاسی عدم استحکام کی سب سے بڑی وجہ ہیں اور جب تک ان کی مقبولیت کی خوش فہمی کو شکست نہیں دے دی جاتی ان کو اسی طرح سے عدالتوں اور سیاسی چالوں میں مصروف رکھ کر حکومت کرتے رہنا چاہیے۔

انکے سہولت کار بھی اپنے آپ کو بے نقاب کر بیٹھے ہیں اور ان کو کچھ حاصل بھی نہیں ہوا۔ اس ملک کی غیر جانبدار سوچ یہ سمجھتی ہے کہ ان کے پاس سادہ عوام میں مقبولیت تو ہوگی جس کی بنیاد یقیناً انکی کارکردگی نہیں بلکہ انکے ساتھ ہمدردیاں اور سیاسی مخالفیں کی پالیسیوں کی وجہ سے بڑھتی مہنگائی کا عوامی غیض و غضب اور ان کے خلاف تعصب ہے اور اب بھی اگرتحریک انصاف کو حکومت مل جائے تو انکے پاس اس ملک کے مسائل کا کوئی حل ہے نہ کوئی حکمت عملی۔

اب ان کی “میٹھا میٹھا ہپ اور کڑواکڑوا تھو” والی پالیسی نہیں چل سکتی کہ جب چاہا اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی تعریف شروع کردی اور جب چاہا تنقید اب اصولی سیاست سے پارلیمان میں اپنا اعتماد بحال کرکے اپنی جگہ بنانی ہوگی۔

سب جماعتوں کے ماضی اس طرح کی غیر آئینی سیاست میں ملوث رہے ہیں مگر وہ اب اپنی غلیطیوں کا ازالہ کرنے کے لئے اصولی سیاست پر جمع ہیں لہذا ان کو بھی ان کے ساتھ پارلیمان کی بالا دستی کے لئے کھڑا ہوجانا چاہیے اور یہ ریلیوں کی سیاست کو ترک کر دینا چاہیے۔ اس سے انکی مقبولیت کو کوئی نقصان نہیں ہوگا بلکہ غیر جانبدار اور مثبت سوچ کے حامل عوام کی ہمدردیاں بھی انکے ساتھ ہوجائیں گی۔ چند ہفتوں کی بات ہے، بجٹ میں اپنا کردار ادا کریں، الیکشن بارے اصطلاحات اور اس کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

ملکی اسٹیبلشمنٹ نے تو ان سے اپنی انگلی چھڑوالی ہے مگر بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ انکو استعمال کرنے میں اپنے حربے ابھی استعمال کر رہی ہے جس سے تحریک انصاف کو چوکنا رہنا چاہیے اور اگر وہ ملک و قوم کے لئے مخلص ہیں تو پھراصولی سیاست کی طرف متوجہ ہونا ہوگا۔ سیاسی عدم استحکام پیدا کرکے انکو ترقی کی راہ میں رکاوٹین کھڑی کرکے بدنامی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

اب انکےپاس سیاست میں اپنا مقام بحال کرنے کے لئے ایک ہی راستہ بچا ہے کہ وہ اپنے سوچ و عمل اور رویے سے اپنا اعتماد بحال کریں اور پاکستان کی سیاست مین اپنی جگہ بنائیں تب ہی ان کی ساری سہولت کاریاں اور مقبولیت کی خوش فہمیاں کام آسکتی ہیں۔

انکو ملک و قوم کے مفاد میں اخلاص کے ساتھ سیاسی جماعتوں اور قیادت کے ساتھ بیٹھنا ہوگا اور اس ملک کے مسائل کے حل کے لئے اپنا مثبت اور مناسب کردار ادا کرتے ہوئے ملکی ترقی کے سفر کا حصہ بننا ہوگا۔ اس وقت کوئی بھی سیاسی جماعت ہو یا قیادت تنہا موجودہ عدم استحکام کے شکار سیاسی ماحول میں اس ملک کی تقدیر کو بدلنے کا حل نہیں رکھتی۔ سب کو باہمی اختلافات بھلا کر ایک ساتھ بیٹھنا اور کوئی جامع حل تلاش کرنا ہوگا۔ اس ملک و قوم کے لئے وہی مخلص ہے جو اتفاق اور بردباری کے ساتھ ایک دوسرے کو ساتھ لے کر چلنے کی سوچ و عمل کے ساتھ سیاست کرے اور تعمیری اختلاف کو جگہ دے اور مذاکرات کو برابری اور مسائل کے حل کی نیت اور کوشش کے ساتھ آگے بڑھائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حکومت کا بھی مذاکرات میں رویہ قابل اطمنان نہیں اور ان کو بھی دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحریک انصاف کے مذاکرات کی میز پر آنے کو کمزوری نہیں بلکہ ملک کی بہتری کی خاطر خوشگوار ماحول کی طرف بڑھتے ہوئے قدم کے طور پر لے کر اس کو مزید بہتر بنانے میں کردار ادا کرنا چاہیے۔ انکو اس سے ملکی سیاسی استحکام کی خاطر مثبت سوچ کے ساتھ کامیابی کی راہیں تلاش کرنی چاہیں نہ کی نفرت کو ہوا دے کر اس موقعہ کو ضائع کردیا جائے۔ سب کو انا اور ضد چھوڑ کر کوئی مفاہمت کی راہ تلاش کرنی چاہیے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply