• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سمندر کی گہرائیوں میں چھپا ہوا کالا سونا یا ایک سراب۔۔۔ غیور شاہ ترمذی

سمندر کی گہرائیوں میں چھپا ہوا کالا سونا یا ایک سراب۔۔۔ غیور شاہ ترمذی

آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کارپوریشن (او جی ڈی سی) کی طرف سے پری میچور خبروں اور ان پر وزیر اعظم عمران خاں کے خوش فہمیانہ ردعمل کی وجہ سے  تقریباًًً پوری قوم کی آنکھیں کراچی کے ساحلی علاقے میں زیر آب تیل و گیس کے ذخائر کی کھدائی پر لگ گئی ہیں۔ یہ کھدائی کراچی کے ساحل سے 230کلو میٹر کے فاصلے پر واقع انڈس جی بلاک میں کھودے جانے والے کنویں ’’کیکڑا۔ون‘‘ میں کی جا رہی ہے. وہ کنواں جس سے نمونے نکال کر بیرونِ ملک لیبارٹریوں میں بھیجے گئے ہیں، یہ سنہ 2006ء میں ’’او جی ڈی سی ایل‘‘ کو الاٹ ہوا تھا مگر پھر 2007ء میں ’’ENI‘‘ کو دے دیا گیا۔ اس جوائنٹ وینچر میں سمندر میں توانائی کے ذخائر کی تلاش کے لئے 1300 میٹر گہرائی میں کھدائی کی جائے گی جس کے لئے اطالوی آپریٹر ENI نے سمندر میں تیل کے کنویں کھودنے والے مشہور زمانہ جہاز Saipem 12000 کی خدمات حاصل کی ہیں جو کھدائی کے مقام پر پہنچ چکا ہے۔ اس مشترکہ پراجیکٹ میں اطالوی کمپنی ای این آئی، امریکی کمپنی ایگزون موبل، پاکستانی کمپنیاں او جی ڈی ایل اور پی پی ایل حصہ دار ہیں۔ امریکی کمپنی کی تین دہائیوں بعد پاکستان میں کسی پہلے منصوبہ میں شراکت داری ہے-
سمندر میں زیر زمین تیل کے ذخیرے کی دریافت کے لئے چند باتیں اہم ہیں۔
(1):-   اس جگہ مسام دار چٹانیں جیسے چونے کا پتھر یا ریت ضروری ہیں، جن میں تیل یا گیس جمع رہے۔ تیل گیس اور پانی زیر زمین چٹانوں کے مسامات میں اسی طرح جمع رہتے ہیں جیسے اسفنج میں پانی۔ یہ مسام دار چٹانیں ہی کیکڑا کا ہدف ہے۔
(2):-   دوسری ضروری چیز یہ ہے کہ اس مسام دار چٹان کے اوپر ایک غیر مسام دار چٹان موجود ہو جو اس تیل و گیس کے ذخیرےکو محفوظ رکھ سکے۔ اگر ذخیرے کے اوپر چٹانوں کی کوئی سخت پرت موجود نہ ہو یہ تیل و گیس اوپر اور دائیں بائیں لیک ہو جائے گی۔
(3):- تیسری اہم بات یہ ہے کہ اس جگہ کی ساخت و بناوٹ ایسی ہو کہ تیل و گیس ہر طرف سے سمٹ کر ذخیرے کی طرف آ سکے۔
ان تینوں نکات کا حتمی تعین اسی صورت ہو سکتا ہے جب ہدف تک کامیابی سے کھدائی مکمل کر لی جائے اور محض کھدائی کافی نہیں بلکہ مسامات کے تجزئے و پیمائش، ذخیرے میں موجود تیل و گیس کی مقدار کے تعین، اس کے دباؤ اور غیر مسام دار چٹان کے تجزئے کے لئے تفصیلی پیمائش و آزمائش کے بعد ہی تیقن کے ساتھ کچھ کہا جاسکتا ہے۔ اس سے پہلے ہونے والے مشاہدات و نشانات سے کچھ اندازہ تو ہوتا ہے لیکن اس کی بنیاد پر امید قائم کر لینا مناسب نہیں۔
کیکڑا ون سائیٹ پر پریشر ککس کا بھی بڑا شور ہے اور لوگوں کا خیال ہے کہ یہ زیر زمین تیل و گیس کے غیر معمولی دباؤ کی وجہ سے ہے۔ پریشر ککس کو سمجھنے کے لئے احباب تصور کریں کہ چار پانچ ہزار میٹر مٹی سے دبی چٹانوں میں مائعات (تیل، پانی یا گیس) پھنسے ہوتے ہیں اور جب کھدائی کے دوران اوپر کی پرت ادھڑتی ہے تو یہ مائع پوری قوت سے کنویں کے راستے اوپر کی طرف اٹھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس دباؤ کا مقابلہ کرنے کے لئے پانی میں مختلف کیمیکل ملا کر نیچے پمپ کیا جاتا ہے جسے کیچڑ یا Mud کہتے ہیں۔ کیچڑ کی کمیت بڑھانے کے لئے اس میں وزن دار کیمیکل جیسے بیرائٹ ملایا جاتا ہے جس کی وجہ سے کیچڑ بھاری ہو جاتا ہے۔ کیچڑ سے زیر زمین پڑنے والے دباؤ کو Hydrostatic Pressure کہتے ہیں۔ جبکہ زیر زمین اوپر کی جانب دباؤ Formation Pressure کہلاتا ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ Hydrostatic Pressure زیر زمین دباؤ سے اتنا زیادہ تو ہو کہ چٹانوں میں پھنسا مائع اوپر کی جانب سفر نہ کر سکے لیکن اتنا زیادہ بھی نہ ہو کہ اس کے دباؤ سے زیر زمین چٹانیں ٹوٹ پھوٹ جائیں۔ زیرزمین دباؤ کے تخمینے میں بسا اوقات غلطی ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے Pressure Kicks کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیکڑا-1 میں بھی جس Pressure Kicks کی جو بات کی جا رہی ہے وہ اسی قسم کی ایک چیز ہے اور بہت ممکن ہے کہ یہ پانی کی Kick ہو‘‘
اس لئے تحریک انصاف کی حکومت کو بہت زیادہ خوش فہمیاں نہیں پالنی چاہئیں اور سمندر کی تہہ کے نیچے دبا کالا سونا (یعنی خام تیل) اور قدرتی گیس کے بڑے ذخیروں پر انحصار کرتے ہوئے زمین پر موجود اہم ترین معاشی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی صحیح حکمت عملی دریافت کرنی چاہئیے۔ اسد عمر اور عمران خاں معیشت کی بحالی کے لئے وہ والے حقیقی نوعیت کے اقدامات کریں جن کے دعوے وہ دھرنا پروگراموں کے دوران اپنی تقریروں میں دیا کرتے تھے۔ چھپر پھاڑ کر مالامال ہونے کی خواہش کرنے والے شیخ چلی جیسے افراد اور حکومت چلانے والے سنجیدہ حکمرانوں میں کچھ تو فرق ہونا چاہئے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply