• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • جمعیت علماء اسلام کا صد سالہ اجتماع اور اس کی قومی و ملی افادیت

جمعیت علماء اسلام کا صد سالہ اجتماع اور اس کی قومی و ملی افادیت

پاکستان کی صف اول کی سیاسی پارٹیز میں شامل مذہبی سیاسی جماعت جمعیت علماء اسلام 7/8/9/ اپریل کو پشاور کے نزدیک نوشہرہ اضاخیل میں عظیم الشان اور تاریخی اجتماع منعقد کرنے جا رہی ہے، تجزیہ نگاروں کے مطابق اس اجتماع میں چالیس سے پچاس لاکھ افراد کی آمد متوقع ہے۔ اجتماع کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گذشتہ دو سال سے اضاخیل میں واقع رائل ہومز سٹی کے وسیع و عریض گراؤنڈ میں اجتماع کی تیاریاں جاری ہیں جو کہ اب اختتامی مراحل میں داخل ہوچکی ہیں، جمعیت علماء اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن نے آج سے دو سال قبل کراچی میں اس اجتماع کے انعقاد کا اعلان کیا تھا جس کے بعد پورے ملک میں جمعیت علماء کی جانب سے اجتماع کی تیاریاں شروع کردی گئیں۔ ملک کے طول و عرض میں آگاہی پروگرامات کا انعقاد کیا گیا، جبکہ جماعتی سطح پر پوری دنیا میں وفود بھیجنے کی تیاریاں ہونے لگیں۔ جن کے نتیجے میں دنیا بھر سے علماء اکرام کو شرکت کی دعوت دی گئی، امام کعبہ سے لے کر شیوخان دیوبند تک، عرب و عجم یورپ پچھم افریقہ تک دنیا کے ہر خطے سے علماء کو اجتماع میں مدعو کیا گیا ہے۔
اتنے وسیع پیمانے پر اجتماع کی تیاریوں نے مختلف الخیال طبقات میں چند سوالات کو جنم دیا ہے، جن میں ایک اھم سوال اجتماع کی افادیت کے حوالے سے ہے کہ اتنے بڑے اجتماع کے حوالے سے ملک و ملت کو کو کیا فوائد حاصل ہوں گے؟ ہم چاہتے ہیں چند ایک نکات پر آج آپ کے ساتھ گفتگو کرسکیں۔
جیسا کہ آپ سب حضرات بخوبی جانتے ہیں کہ حال ہی میں پنجاب کے شہر لاہور میں ” PSL ” پاکستان سپرلیگ کا فائنل میچ کھیلا گیا، میچ سے قبل جس طرح پورے ملک کے حالات کو جھٹکے لگے، اور فائنل کا انعقاد لاہور میں ہوتا خطرہ میں نظر آنے لگا تو اس وقت پوری قومی قیادت نے متفق ہوکر کہا کہ “فائنل کا لاہور میں منعقد ہونا ازحد ضروری ہے” اس لئے کہ اگر ہم نے کامیابی سے فائنل کا انعقاد کرا لیا تو یہ ریاست پاکستان کے لئے نیک شگون کا باعث ہوگا۔ اور پھر سب نے مشاہدہ کیا کہ ہزاروں کی تعداد میں سیکیورٹی فورسز اور صدور مملکت کے برابر غیرملکی کھلاڑیوں کو پروٹوکول دے کر فائنل کرایا گیا، اگر گیارہ غیرملکی کھلاڑیوں کی آمد ریاست کے پرامن ہونے کی گواہی بن سکتی ہے۔
تو ایسا اجتماع جس میں پوری دنیا سے ہزاروں شیوخان اسلام شریک ہوں، امام کعبہ اور دنیا بھر کے علماء اپنے اپنے ممالک کی نمائندگی کرتے موجود ہوں گے تو اس سے دنیا بھر میں پاکستان کا کیسا پرامن امیج متعارف ہوگا اس کا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں۔
جبکہ اب کی تازہ نیوز یہ ہے کہ گزشتہ کل ہی امیر جمعیت علماء اسلام نے “یورپی ممالک ” کے سفراء کے اعزاز میں عشائیہ دیا جس میں یورپین سفیروں کو بھی اجتماع میں شرکت کی دعوت دی ہے، اس سے اب یہ فقط ایک مذہبی :سیاسی / یا روایتی اجتماع نہیں رہا بلکہ ایک عالمی کانفرنس کی شکل اختیار کرچکا ہے جس میں تمام ممالک کی مذہبی اور حکومتی شخصیات کی نمائندگی ہوگی جو کہ یقینا پاکستان کے روشن اور پرامن مستقبل کی نوید سنا رہا ہے، انشاء اللہ عالمی سطح پر یہ اجتماع مملکت خداد پاکستان کے بارے پھیلی بہت سی غلط فہمیوں کو ختم کرنے کا باعث بنے گا۔
دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو اجتماع میں اندرون پاکستان سے بھی بغیر کسی مسلکی و سیاسی تفریق کے تمام پارٹیز کو دعوت دی گئی ہے، جس سے ایک جانب فرقہ وارانہ رویوں کی بیخ کنی دوسری جانب معتدل سیاست کی جانب ایک اھم اقدام ہوگا، پاکستان میں ہمارے مقتدر حلقوں کو ہمیشہ یہ شکایت رہی ہے کہ علماء اکرام کُھل کر عسکریت پسندی کے خلاف نہیں بولتے یا میڈیا میں بھی ہمیشہ یہ پروپیگنڈہ رہتا ہے کہ علماء متفقہ طور پر پرتشدد کاروائیوں کے روکنے میں سامنے نہیں آرہے، باوجود اس کے کہ کئی مرتبہ ملک بھر کے مقتدر علماء اکرام نے بلاکسی تفریق مسلک و مشرب ہمیشہ عسکری کاروائیوں کی مذمت کی ہے، لیکن پاکستان کے مین اسٹریم میڈیا، مقتدر اداروں نے علماء کرام کے بیانیوں کو عوام کی نظروں سے اوجھل رکھا، یہ اجتماع پاکستان کے تمام مسالک کے علماء کو عالمی دنیا کی قیادت کے سامنے ایک اسٹیج پر بٹھا کر ہر قسم کی عسکریت پسندی کے خلاف ایک بھرپور بیانیہ کا اظہار ہوگا، اب دیکھتے ہیں کہ مقتدر ادارے اور مین اسٹریم میڈیا اس موقع پر کس طرح اپنی اس قومی و ملی ذمہ داری سے عہدہ برا ہوتا ہے، اور ہمیں مکمل یقین ہے کہ لاکھوں کے اس عالمی اجتماع کو اگر کوئی چاہے بھی تو نظر انداز نہیں کرپائے گا،
اجتماع کی افادیت کے دیگر نکات میں سے یہ بات بھی مدنظر رہے کہ ضیاء الحق کے دور کے بعد پاکستان میں حالات تیزی سے تبدیلی کی جانب بڑھے جہاں ایک طرف قومی لسانی نفرتوں کی ہوا بڑھکتی رہی وہیں دوسری جانب مختلف مذہبی جماعتیں بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی رہیں اور متشدد ذہن کے حامل مذہبی نمائندے اپنے اپنے چھوٹے گروہ بنا کر بیٹھ گئے جس نے مذہبی امیج /مُلا اور داڑھی کے امیج کو بہت حد تک متنازعہ کردیا، آج جبکہ متفرق مذہبی تنظیمیں عموما اور دیوبند کے جدا گروہ خصوصاً جمعیت علماء اسلام کی طرف دیکھ رہے ہیں تو اس وقت جمعیت علماء کی بھی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ آگے بڑھ کر ان سب کو اپنے دامن میں لے لے اور مذہب کے نام سے جڑی عسکریت پسندی کی گرتی دیواروں کو ایک دھکا اور دینے کا سبب بن جائے۔
جمعیت علماء اسلام کا یہ اجتماع جیسے جیسے قریب آتا جارہا ہے اس کی افادیت کے مزید کئی پہلو سامنے آتے جارہے ہیں، اس عالمی اجتماع کی کمپئن اور جمعیت علماء انسانیت کی خدمت پر مبنی پروگرام سے متاثر ہوکر ” مسیحی کمیونٹی کے بشپ نذیر ” کی جمعیت علماء میں شمولیت اور پھر ” ہندو کمیونٹی کے پنڈت ” کی جمعیت علماء میں شمولیت نے اس بات کو واضح کردیا ہے کہ چاہے عالمی دنیا کے نمائندے ہوں یا پھر مقامی ہم مذہبی نمائندے ہوں یا پھر دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے سب مولانا فضل الرحمن کی اعتدال پسندانہ سیاست سے متاثر ہو کر جمعیت علماء کو پاکستان کے پرامن و کامیاب مستقبل کی ضمانت سمجھتے ہیں۔
جمعیت علماء کے اس عالمی اجتماع کے مزید کیا فوائد اور نتائج مرتب ہیں اس پر بحث جاری اور جاری رہے گی، لیکن یہ بات یقینا جمعیت علماء کے لئے صدیوں تک قابل فخر و باعث افتخار رہے گی کہ جمعیت علماء نے امن و امان کے دگرگوں صورت حال میں قوم کی نمائندگی کا حق ادا کیا اور پاکستان کو دنیا بھر کی نگاہوں میں پرامن محبتوں سے لبریز انسانیت سے محبت کرنے والی سرزمین ثابت کیا۔
ہماری دعا ہے کہ رب العالمین اس اجتماع کو غیرمعمولی کامیابی عطا فرمائے اور امن و امان کے ساتھ اس اجتماع کا کامیاب انعقاد ہو، اور ہماری دعا ہے رب العالمین سے کہ قافلہ شیخ الہند کے امین اپنی سو سالہ جدوجہد اور تاریخ کو دھراتے ہوئے اضاخیل کی سرزمین پر اس عہد پر تجدید عہد کریں جو جمعیت علماء کی بنیاد رکھتے وقت کیا گیا تھا کہ عسکریت پسندی سے مکمل برات ، آئینی و قانونی اداروں کا احترام، جمہوری جدوجہد کے ذریعے اسلامی فلاحی ریاست کا قیام، اور بلا تفریق رنگ و نسل انسانیت کے احترام پر مبنی ہوں۔

Facebook Comments

یوسف خان
یوسف خان، ڈیفنڈر جمعیت علماء اسلام پاکستان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply