• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • خواجہ اظہار کی گرفتاری۔۔۔۔ فائر یا ٹیسٹ فائر۔۔۔ رضا شاہ جیلانی

خواجہ اظہار کی گرفتاری۔۔۔۔ فائر یا ٹیسٹ فائر۔۔۔ رضا شاہ جیلانی

کہانی جب طوالت کا شکار ہونے لگے تو اسے مزیدار بنانے کے لیے اکثر اوقات رائٹر اسے ایک زبردست موڑ دے ڈالتا ہے۔ ایسے ہی کچھ کہانی کار اب سیاست کا حصہ ہیں جو تیار سکرپٹ کا کون سا حصہ کب اور کہاں برتنا ہے، خوب جانتے ہیں.

ایسا ہی ایک معاملہ بائیس اگست سے شروع ہوتا ہے جس نے پاکستان بالخصوص سندھ کی شہری سیاست پر گہرا اثر ڈالا. بانی متحدہ کی تقریر کے بعد سے پاکستان میں موجود ایم کیو ایم پر جو مشکلات کے پہاڑ ٹوٹے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ ان حالات کو اگر قریب کی عینک لگا کر دیکھا جائے تو یہ کہنا صادق آتا ہے کہ ” کبھی کے دن بڑے تو کبھی کی راتیں”۔ ایم کیو ایم جو اپنے بانی کے دم سے پروان چڑھی اور بس ایک ہی رات میں اپنے قائد سے راہیں جدا کر بیٹھی. وہ نائن زیرو سے ایک ہی رات میں پی آئی بی کالونی آگئی۔

بائیس اگست کی اس شام کے بعد ہوتی سیاسی رات کے مناظر بھی کچھ عجیب ہی گزرے۔ کئی حراستیں اور گرفتاریاں عمل میں آئیں، کئی رہا بھی ہوئے اور اس کے ساتھ ہی پارٹی کا نام اور جھنڈے میں لگی بانی کی تصاویر بدل گئیں۔ حتی کہ متحدہ کا گڑھ سمجھا جانے والا علاقہ مکا چوک تو اپنا نام ہی کھو بیٹھا۔ یہ معاملہ واقعی کراچی کی عوام کے لیئے بالکل حیران کن بلکہ کچھ حلقوں کی جانب سے تو یہ نا سمجھ آنے اور جلد بازی کا کام لگا، جسے آج بھی کچھ سیاسی جماعتیں بالخصوص پی ٹی آئی تو سرے سے ماننے کو ہی تیار نہیں کہ فاروق ستار جس ایم کیو ایم کے اب سر پرست ہیں، اسکا لندن سے کوئی تعلق نہیں. جبکہ فاروق ستار اور انکی پارٹی کے رہنما خواجہ اظہار الحسن، جو کے سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بھی ہیں، نے اس بات کی مختلف پروگرامز اور فورمز پر کھل کر وضاحت کی کے انکا اب لندن سے کوئی تعلق نہیں اور نا ہی لندن والے اب قانوناً کسی طرح کے احکامات دینے کے مجاز ہیں. اب جو کچھ بھی ہے ایم کیو ایم پاکستان ہی ہے اور ہم ڈاکٹر فاروق ستار کی قیادت میں ایک نئے سفر کی جانب گامزن ہیں.

اس دوران خواجہ اظہار الحسن اپنے کیسز میں ضمانت پر رہے مگر اچانک کل جمعہ کی نماز سے قبل کچھ نا معلوم پولیس اہلکار، جن میں سے اکثر سادہ لباس میں تھے، اچانک خواجہ اظہار الحسن کے گھر جا پہنچے اور بغیر کسی وارنٹ کے گھر کی مکمل تلاشی لی. خواجہ صاحب گھر میں موجود نہیں تھے اور نا ہی انکے گھر والوں کو پولیس اہلکاروں نے یہ بتایا کے وہ کس تھانے سے ہیں اور تلاشی کے پیچھے کیا مقاصد ہیں. زرائع کا کہنا ہے کے خواجہ صاحب اس وقت اسمبلی میں تھے جہاں انہیں اس معاملے کی اطلاع دی گئی جس کے بعد وہ اور انکے دیگر ساتھی خواجہ صاحب کے ہمراہ انکی رہائش گاہ پر پہنچے۔ اس نامعلوم پولیس اہلکاروں کی جانب سے تلاشی لینے کے عمل نے پورے شہر میں ایک تھرتھلی سی مچا دیی جبکہ میڈیا رپورٹس کے مطابق حیرت انگیز بات تو تب ہوئی جب حدود کے ایس ایچ او سمیت آئی جی صاحب تک اس معاملے سے بے خبر رہے۔ فوری طور پر حد کے ایس ایچ او کو معطل کر دیا گیا جبکہ وزیر اعلٰی سندھ نے معاملے کی چھان بین کے احکامات صادر فرما دیئے۔

ابھی یہ معاملہ کچھ تھما ہی تھا کہ کراچی کے ضلع ملیر کے ایس ایس پی راو انوار، جو اپنے دبنگ اسٹائل اور کسی سے اجازت نا لینے اور خود ہی کاروائی کرنے میں مشہور ہیں، خواجہ صاحب کے گھر پہنچ  گئے اور انہیں گرفتار کر لیا۔ اس دوران ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار سمیت خواجہ اظہارالحسن کی اہلیہ نے مداخلت کی اور شدید دھکم پیل بھی ہوتی رہی. خواجہ صاحب کو رسی سے ہاتھ باندھ کر گھسیٹتے ہوے لے جایا گیا۔ فاروق ستار ایس اسی پی راؤ انوار کے سامنے بار بار یہ مؤقف رکھتے رہے کے وہ خواجہ اظہارالحسن  کی گرفتاری کی وجہ بتائیں، وہ ایک میمبر اسمبلی کی گرفتاری کا پروسیجر پورا کریں اور اگر انکے پاس کسی قسم کے وارنٹ گرفتاری ہیں تو انہیں دکھایا جائے۔ وارنٹ ایس ایس پی صاحب اپنے دبنگ اسٹائل میں شاید کورٹ سے لینا بھول گئے تھے یا پھر فاروق ستار کو دکھانا نہیں چاھتے ہوں گے. ایک بات اور بھی حیران کن تھی کہ ایس ایس پی راؤ اور انکی پولیس ٹیم کی جانب سے میڈیا کے کیمروں کی موجودگی میں جو کچھ گرفتاری کے دوران کیا گیا وہ پولیس کے اعلٰی عہدیداران سمیت پاکستان کی سیاسی قوتوں کے لیے ایک اہم سوال بھی ہے جسکا جواب شاید کوئی بھی دینا مناسب نہیں سمجھے گا۔ مگر جو واقع آج خواجہ اظہارالحسن کیساتھ ہوا ہے، جو ایک سیاسی ورکر، ایک ووٹ بینک رکھنے والی تنظیم کے رکن اور اس سے بڑی بات کہ سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ہیں؛ اس کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے.

مگر سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آیا ایک ایس ایس پی کیا اتنا خودمختار ہے کے وہ کسی کو خاطر میں لائے بغیر ہی اپنا ضلع چھوڑ کر کسی دوسرے ضلع میں جا پہنچے اور وہاں کی پولیس کے اعلٰی افسران کے علم میں لائے بنا ایک میمبر سندھ اسمبلی و قائد حزب اختلاف کو یوں سرِ عام اسکے بیوی بچوں کے سامنے ہاتھوں کو عادی مجرموں کی طرح باندھ کر گھسیٹتا ہوا لے جائے.؟

جواب بہت سادہ سا ہے صاحبو..! کسی بھی پولیس والے میں اتنی جرات صرف تب ہی آتی ہے جب پشت مضبوط ہو اور سنا ہے کے موصوف کی پشت اور اس پر تھپکی کافی مضبوط ہاتھوں کی رہی ہے۔ ورنہ کسی بھی ممبر صوبائی اسمبلی کو گرفتار کرنے کے کچھ قوانین ہیں جن پر عمل کیئے بنا اسے حراست میں نہیں لیا جا سکتا اور نہ ہی اسے اس طرح سے لے جاکر تھانے میں ڈالا جا سکتا ہے۔ آخری اطلاعات تک موصوف ایس ایس پی کو بھی وزیر اعلی سندھ نے معطل کر دیا ہے اور راو صاحب “ردعمل کے امکانات” پریس کانفرنس میں سنا رہے تھے۔ قانون کہتا ہے کہ ایک ممبر اسمبلی کی گرفتاری کیلیےاسپیکر کی اجازت لینا، اسے اطلاع فراہم کرنا بہت اہم ہے.

Advertisements
julia rana solicitors

سنئیے، ایک عدد آپریش پنجاب میں بھی شروع ہو چکا ہے۔اس آپریشن میں کئی بڑی مچھلیوں کے نام آنا باقی ہیں جو موجودہ اسمبلیوں کے ممبران بھی ہیں۔ اب ہو سکتا ہے کہ خواجہ صاحب ٹیسٹ فائر ہوں اور اس قانون کو اور مضبوط اور طاقتور بنانے کے لیے ہمارے سیاستدان حضرات کچھ نا کچھ کریں۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں نے کسی کو اطلاع دی ہو کہ “صاحب” جو قانون سندھ میں ہے وہ ہی پنجاب میں بھی ہے، بس زرا ہمارے اسپیکر اسمبلی رانا صاحب سے اجازت ضرور لے لیجیئے گا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply