ٹیکنیکل ایجوکیشن، وقت کی ضرورت۔۔۔۔راحیل اسلم

جب سے ہوش سنبھالا کانوں میں اک سوال گونجتا پایا، جس کا جواب بھی عموما پوچھنے والے کی طرف سے ہی آتا۔ کبھی اماں کہتی کہ میرا بیٹا بڑا ہو کے کیا بنے گا؟ اس سے پہلے کہ کچھ کہتے جواب بھی اماں نے خود ہی دے ڈالا، ڈاکٹر بنے گا میرا بیٹا بڑا ہو کے۔ ابا بھی اکثر یہی سوال پوچھنے کے بعد، جواب لینے کی زحمت کئے بغیر، خود ہی انجنیئر بنا دیا کرتے۔ کم و بیش آج بھی یہی صورت حال ہے۔

پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں سے ہے جن کی آبادی کا بیشتر حصہ 18 سے 25 سال کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہاں یہ سوال قابل غورہے کہ ان میں سے کتنے ہوں گے جنہوں نے اپنے کیریئر کا فیصلہ خودسے کیا ہو گا۔ ہمارے ہاں تعلیم کے ناقص ہونے کا شکوہ تو تقریباً سبھی کو ہے۔لیکن کیا کبھی کسی نے اس بات پر بھی غور کیا ک ہمارے ہاں صحیح فیلڈ کا چناؤ بھی اک بہت سنگین ایشوہے۔
60٪ سے زیادہ نمبرز لینےوالےتو کسی نہ کسی طرح کچھ چاہتے ہوئےاور کچھ نہ چاہتے ہوئے میڈیکل یا انجینرنگ فیلڈ میں چلے جاتے ہیں لیکن باقی 60٪ سے کم نمبرز لینے والے کوئی بہتر فیصلہ نہیں کر پاتے۔ اب ان میں سے زیادہ ترنان ٹیکنیکل فیلڈ کا چناؤ کرتے ہیں جس کا اکثر اوقات نہ تو انہیں اور نہ ہی معاشرے کو کوئی خاص فائدہ ہوتا ہے۔

ہمیں ہمارے ارد گرد لاتعداد ایسے لوگ مل جائیں گے جو ایم اے اردو ہسٹری, سوشل سائنسز وغیرہ کی ڈگری اٹھاۓ نوکری کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔  اب ان کو اگر کسی نے بتایا ہوتا کےبھائی اس سے کہیں بہتر ہوتا کے آپ کوئی ہنر سیکھ لیتے۔ اور تو اورہمیں اپنے آس پاس ایسے بہت سے انجنیئر مل جائیں گے ک جن کو گھر کا ایک خراب بٹن تبدیل کرنے کا کہ دو تو ان کہ ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں اور یہی کام کرنے کے لئے محلے کی دکان سے کوئی الیکٹریشن ہی آتا ہے۔ خیر کوالٹی آف ایجوکیشن ایک اور بحث ہے جس پہ پھر کبھی تفصیلاً بات ہو گی۔

میرے نزدیک اردو,پنجابی, سوشل سائنسز وغیرہ میں ایم اے یا بی اے کرنے کی بجائے ہم اپنے نوجوانوں کو ٹیکنیکل ایجوکیشن جیسےتھری ڈی ڈیزائننگ, فیشن ڈیزائننگ, الیکٹریکل ایپلائینسز , موبائل ریپیرنگ, سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ جیسے کورسز کی جانب راغب کریں تو اس سے نہ صرف معاشرے میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور فرسٹریشن ختم کرنے میں مدد ملے گی بلکہ دوسروں پر انحصار کرنے کے خطرناک رجحان کو بھی ختم کیا جا سکتا ہے۔
ایک تو اس سے یہ ہو گا کہ جتنی دیر میں آپکا ہمعصر ایم اے یا بی اے کرے گا کم و بیش اتنی ہی دیر میں آپ کوئی ٹیکنیکل ڈپلوما کر کے کچھ دیر اپنی فیلڈ میں مہارت حاصل کر کے معقول آمدن کا کوئی نہ کوئی حیلہ وسیلہ کر چکے ہوں گے۔ اور جب تک آپکا ہمعصر20 سے 30 ہزار کی نوکری پہ لگے گا آپ اگر خلوص نیّت سے کام کرتے رہے تو 50 سے 60 ہزار ماہانہ تک پہنچ چکے ہوں گے۔

یہ کام ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں خوش اسلوبی سے ہو رہا ہے۔ مجھے یہاں امارات میں رہتے ہوئے تقریبا آٹھ سال ہونے کو آ ئے ہیں اور میرا تعلّق انٹرنیشنل ریکروٹمنٹ کی فیلڈ سے ہے۔ میں یہ مشاہدہ بڑے عرصے سے کر رہا ہوں کہ بھارت اپنے نوجوانوں کو بڑی کامیابی سے ٹیکنیکل ایجوکیشن کی طرف ما ئل کر چکا ہے۔ جس کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ مجھے روزانہ کی بنیاد 40 سے 50 درخواستیں ملتی ہیں۔ ہمارے یہاں سے آنے والی درخواستیں زیادہ تر ایک نوجوانوں کی ہوتی ہیں جو بی اے اور ایم اے ہوتے ہیں۔ جو یہاں آ کے کسی بھی طرح کی جاب کرنے کو تیار ہوتے ہیں جس میں آوٹ ڈور سیلز کی مشکل ترین اور کم معاوضہ جاب سر فہرست ہے۔ اب اسکا موازانہ اگر بھارت کیا جاۓ تو وہاں سے انے والی درخواستوں میں زیادہ تر نوجوان کوئی نہ کوئی ٹیکنیکل مہارت رکھنےکی بنیاد پر ٹیکنیکل فیلڈ کو ترجیح دیتے ہیں۔

اس صورت حال کی وجہ سے ایک تو ہم بیرون ممالک کی ھیومن ریسورس مارکیٹ میں اپنا اثر رسوخ کھوتے جا رہے ہیں اور دوسرا زر مبادلہ میں بھی نمایاں کمی واقع ہو رہی ہے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم کام ریاست کے کرنے کا ہے کہ وہ نوجوانوں کو اس طرف راغب کرے۔ اس حوالے سے سیمینارز منعقد کیے جائیں جن میں میٹرک اور انٹر لیول کے سٹوڈنٹس کی کیریئر کونسلنگ کی جاۓ۔ زیادہ تعداد میں اور اسٹیٹ آف دی آرٹ ادارے بنا ئے جائیں۔ اسکول لیول پہ بچوں کی تربیت ہونی چاہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس ضمن میں کچھ لمبا چوڑا کرنے کی ضرورت نہیں۔ اسکول انتظامیہ کسی اچھے ماہر نفسیات اور کسی اچھے کیریئر کونسلر کو ہفتے میں اک روز بلا کر بچوں کے رجحانات کو جانچتے ہوئے انہں گائیڈ کر سکتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ بچوں کے والدین کو اس ضمن میں رہنمائی کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی نامکمل خواہشات کو بچے کہ سر پہ نہ تھوپیں اور انہں کوئی بہتر فیصلہ کرنے کی ترغیب دیں۔ تا کہ وہ مستقبل میں معاشرے کا اک فعال رکن بن سکیں اور اپنا اور خاندان کا معاشی بوجھ اٹھا سکیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply